جنرل اسد درانی کے بقول اکتوبر 1990ء کے انتخابات ہو چکے تھے جب نوازشریف سے ان کی پہلی ملاقات ہوئی۔ 1988ء میں بھی پرائم منسٹرشپ کے لئے اسٹیبلشمنٹ کا چوائس جناب غلام مصطفی جتوئی تھے اور 1990ء میں محترمہ کی حکومت کی برطرفی کے بعد بھی وہی اس منصب کے لئے اسٹیبلشمنٹ اور اس کے گاڈ فادر صدر اسحق کے چہیتے تھے۔ قرعہ فال نوازشریف کے نام کیسے نکل آیا، یہ کوئی ایسی حیران کن بات نہیں تھی کہ آئی جے آئی کے نومنتخب ارکانِ اسمبلی کی بھاری اکثریت نوازشریف کے حق میں تھی۔ ملک بھر میں پیپلزپارٹی کے مقابل آئی جے آئی کی انتخابی مہم کی قیادت بھی انہوں نے ہی کی تھی۔ انتخابی مہم کا آغاز ہوا تو جناب جتوئی لاہور سے ملتان تک الیکشن مارچ پر نکلے لیکن ہر چھوٹے بڑے شہر اور قصبے میں پرجوش ہجوم وزیراعظم نوازشریف کے نعرے لگا رہا تھا۔ اوکاڑہ پہنچنے تک جتوئی صاحب کی طبیعت ناساز ہوگئی اور وہ یہیں سے واپس ہولئے۔ اسد درانی کے بقول وزارت عظمیٰ کے لئے نوازشریف کی نامزدگی کا فیصلہ ہوگیا تو وہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، اپنا تعارف کرایا اور قومی سلامتی سے متعلق اہم معاملات پر نامزد وزیراعظم کو بریفنگ دی۔ کیا اسی میٹنگ میں انہوں نے وہ تجویز بھی پیش کی جو نوازشریف کے بقول ان کے لئے سخت حیرت اور صدمے کا باعث تھی انہوں نے جسے سختی سے مسترد کردیا۔ یہیں سے آئی ایس آئی کے سربراہ اور نومنتخب حکومت کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوا۔ درانی صاحب نے متوازی حکومت چلانے کی کوشش کی نتیجتاً وزیراعظم نے آئی ایس آئی کی سربراہی سے ان کی چھٹی کرادی اگرچہ نومنتخب اور نوآموز وزیراعظم کے لئے یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ پاکستان کی 65 سالہ تاریخ میں وہ جرنیل انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں جنہیں آرمی چیف کے ہاتھوں قبل از وقت ریٹائرمنٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ”اعزاز“ پانے والوں میں جناب درانی بھی تھے۔ سلیم صافی نے ”جرگہ“ میں اس کا سبب اگلوانے کی بہت کوشش کی لیکن درانی صاحب اسے فوج کا داخلی معاملہ قرار دے کر ٹال گئے۔ اگلے روز جنرل اسلم بیگ نے یہ ”راز“ فاش کردیا اگرچہ مہرمانِ رازہائے درونِ خانہ اس سے واقف تھے۔ خود پیپلزپارٹی کے مرحوم سیکرٹری جنرل شیخ رفیق احمد کے منہ سے ایک بار یہ بات نکل گئی تھی۔ آئی ایس آئی کی سربراہی سے برطرفی پر جنرل موصوف کے دل میں وزیراعظم نوازشریف کے خلاف گرہ پڑ گئی تھی۔ چنانچہ انہیں پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں وردی سمیت شرکت میں بھی کوئی عار نہ تھی۔ یہ بات آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ کے علم میں آئی تو انہوں نے موصوف کی فوری ریٹائرمنٹ کا حکم جاری کردیا۔ تب وہ بیرون ملک تھے، آرمی چیف نے ان کی وطن واپسی کا بھی انتظار نہیں کیا تھا۔ محترمہ نے اس ”قربانی“ کا صلہ ریٹائرڈ جرنیل کو جرمنی میں پاکستان کا سفیر بنا کر دیا۔ جرمنی میں سفارت کے دوران ہی ایف آئی اے کے ڈائریکٹر رحمن ملک نے وہاں پہنچ کر ان سے اس حلف نامے پر دستخط کرا لئے جو سپریم کورٹ میں اصغر خاں کیس کی بنیاد بنا۔ جنرل بیگ کے بقول جنرل درانی کو جال میں پھنسایا گیا تھا، انہیں دھوکا دیا گیا، انہیں مجبور کیا گیا اور خود درانی کے بقول انہوں نے اس یقین اور اعتماد کے ساتھ دستخط کردیئے کہ اسے خفیہ رکھا جائے گا لیکن اس وعدے کی پابندی نہ کی گئی۔ نوازشریف کے خلاف درانی کا جذبہ انتقام سرد نہ ہوا۔ پھر 12 اکتوبر 1999ء ہوا تو جناب خالد محمود سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر تھے۔ جنرل مشرف نے ان کی جگہ درانی کو بھجوانا چاہا لیکن سعودی حکومت انہیں قبول کرنے پر آمادہ نہ تھی۔ شاہ عبداللہ (تب ولی عہد) کی خواہش پر پرویزمشرف اپنے دشمن نمبر ایک کو سعودی عرب بھجوانے پر آمادہ ہوگئے تو جوابی اظہارِ خیرسگالی کے طورپر سعودیوں نے درانی کو بطورِ سفیر قبول کر لیا۔ ان کا پورا دورِ سفارت سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں، خصوصاً نوازشریف سے وابستگی رکھنے والوں، کے لئے ایک عذاب سے کم نہ تھا۔ سالہا سال سے سعودی عرب میں اپنے خاندانوں سمیت کاروبار اور ملازمتیں کرنے والے پاکستانیوں کو سفیر پاکستان کے اصرار پر جبراً پاکستان بھجوا دیا گیا۔ انہیں ہفتوں ”ترحیل“ میں بھی گزارنا پڑے۔ انہیں ذہنی اذیت کے سوا بے پناہ مالی نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ بچوں کی تعلیم الگ برباد ہوئی۔ نعیم بٹ سے لے کر انجینئر افتخار چودھری تک، درانی صاحب کے ستم زدگان کی طویل فہرست ہے، کالم کی تنگ دامانی اس کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
”جرگہ“ میں درانی صاحب سے ایک سوال نوازشریف کو رقم کی فراہمی سے متعلق بھی تھا جس پر ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں قسم کھا کر کچھ نہیں کہہ سکتے البتہ بعد میں ان کے سامنے جو فہرستیں پیش کی گئیں ان میں ان کا نام بھی تھا۔ یہ چیزیں کس حد تک قابل اعتماد ہوتی ہیں، جنرل صاحب کو اعتراف تھا کہ انہیں سو فیصد فول پروف نہیں کہا جاسکتا، یہ سارا کام خفیہ ہوتا ہے اور اعتماد پر چلتا ہے۔ کسی مشن کے لئے دی گئی رقم میں سے کتنی خرچ ہوئی، کسی کو کیا دیا گیا، اور کتنی رقم اپنی جیب میں ڈال لی گئی اس بارے میں سو فیصد یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ویسے سیاستدانوں کو رقم کی تقسیم میں آئی ایس آئی فائدے ہی میں رہی۔ اس معاملے کے سبھی کرداروں کا کہنا ہے کہ یہ رقم کراچی کے تاجروں نے جمع کی تھی ایوانِ صدر کے حکم پر آئی ایس آئی صرف اس کی تقسیم کی ذمہ دار تھی۔ 14 کروڑ کی کل رقم میں سے 7 کروڑ تقسیم ہوئے اور باقی رقم آئی ایس آئی کے فنڈ میں ڈال دی گئی۔ رقم کے مبینہ وصول کنندگان میں نوازشریف کا نام بھی آتا ہے۔ اس دعوے کو سچ بھی مان لیا جائے تو یہ رقم کسی خفیہ ایجنسی کے افسر یا اہلکار نے نہیں بلکہ یونس حبیب نے میاں صاحب کو فراہم کی۔ ہم اس بارے میں اپنے گزشتہ کالم میں کچھ ”تفصیل“ عرض کر چکے ہیں۔ جناب عرفان صدیقی نے 13 نومبر کے کالم میں سپریم کورٹ کے فیصلے میں مذکور ناموں اور رقوم کی تفصیل بھی درج کردی ہے، سپریم کورٹ نے ایف آئی اے سے جس کی تحقیقات کرانے کا حکم دیا ہے۔ اس میں ہمارے باغی بھائی کا ذکر بھی ہے اور قدرے تفصیل کے ساتھ۔ اس حوالے سے تحریک انصاف اور خود ہاشمی صاحب کا معاملہ دلچسپ ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آتے ہی ہاشمی صاحب کا مطالبہ تھا کہ نوازشریف سیاست سے دستبردار ہوجائیں۔ ادھر عمران خان کا صدر زرداری کو مشورہ تھا کہ یہ نوازشریف کو کیفرکردار تک پہنچانے کا اچھا موقع ہے جس سے مک مکا کے تاثر کو ختم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ تازہ پریس کانفرنس میں تحریک انصاف کے سربراہ کا منفرد تصورِ انصاف بھی سامنے آگیا، جس کے مطابق نوازشریف کے خلاف الزام ثابت ہوگیا ہے۔ سپریم کورٹ تو جاوید ہاشمی سمیت سب کے خلاف تحقیقات کا حکم دے رہی ہے اور نوازشریف اس کے لئے رحمن ملک کی ایف آئی اے کا سامنا کرنے کو بھی تیار ہیں لیکن قائد تحریک انصاف نوازشریف پر الزام ثابت ہوگیا کا فتویٰ صادر فرما رہے ہیں۔ ہاشمی صاحب کا کہنا ہے کہ وہ نیب سے بے گناہ قرار پا چکے ہیں لیکن معاف کیجئے، نیب میں آپ کے خلاف یہ کیس نہیں تھا۔ ایک ”دلیل“ یہ دی جاتی ہے کہ ہاشمی صاحب کو یوسف میمن کے ذریعے جو ادائیگیاں ہوئیں ان میں پہلی ادائیگی الیکشن کے 2 ہفتے بعد 11 نومبر کو ہوئی، یہ سب ادائیگیاں بینک کے ذریعے تھیں اسے یوسف میمن اور ہاشمی صاحب کے مابین کاروباری معاملہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔ اس سال فروری میں سپریم کورٹ میں یہ کیس دوبارہ اٹھا تو یوسف میمن اور ہاشمی صاحب کے درمیان ٹی وی چینلز پر ہونے والا بحث مباحثہ لوگوں کو اب تک یاد ہے۔ لیکن ایک رقم اکتوبر میں بھی دی گئی تھی جو بنک کے ذریعے نہیں بلکہ یامین نامی شخص نے ایم این اے ہوسٹل کے کمرہ نمبر 1 میں یوسف میمن کی موجودگی میں جناب ہاشمی کی نذر کی، یہ ایک کروڑ 46 لاکھ روپے تھے۔ باقی رہی کاروبار کی بات تو ہمارے باغی بھائی کی کاروبار سے رغبت، اس کی صلاحیت اور سوجھ بوجھ کا کچھ اظہار خود ان کی اپنی خودنوشت کے صفحہ 130-31 پر ”صنعتکار“ جاوید ہاشمی یا گڈریا کے زیرعنوان باب میں موجود ہے۔