25جولائی 2018کو منعقد ہونے والے عام انتخابات نے پاکستان کی نئی سمت کا تعین کر دیا ہے۔ رائے دہندگان نے پاکستان تحریک انصاف کو لینڈ سلائڈنگ وکٹری سے نوازا ہے ۔ان نتائج پر بہت سی سیاسی جماعتوں نے تحفظات کا اظہار بھی کیا ہےلیکن اس سے قطع نظر ہمیں امید کا دیا روشن رکھنا چاہئے۔ کئی دہائیوں کے بعد پاکستان میں کوئی ایسی سیاسی جماعت ابھری ہے جسے وفاق کی تمام اکائیوں میں نمائندگی ملی ہے۔ پی ٹی آئی کا منشور ہمیشہ سے جارہانہ رہا ہے اور وہ آج بھی انہی خطوط پر رواں دواں ہے ۔ پی ٹی آئی کو ملنے والا مینڈیٹ کئی زاویوں سے حیرت کا حامل ہے۔کراچی جس پر ہمیشہ یہ الزام رہا ہے کہ وہ خودکو قومی دھارے سے علیحدہ رکھتا ہے اور اسی جواز کو بنیاد بنا کر تین دہائیوں سے اس شہر کو نظر انداز کیا گیا ہے 25جولائی2018کو شہر کراچی نے قومی دھارے کو ووٹ دے کر اپنا حصہ ڈال دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شہر کراچی کو پاکستان کا قومی دھارا اپناتا ہے یا ماضی کی روش کی طرح یہ شہر بدستور محرومی کا شکار رہتا ہے۔ پی ٹی آئی کا مینڈیٹ ایک اور حوالے سے کافی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا عمران خان وہ قوم تشکیل کر سکیں گے جس کے لئے یہ وطن حاصل کیا گیا تھا۔ماضی میں قوم کی تشکیل کے بہت سے فارمولے اختیار کئے گئے لیکن وہ بار آورثابت نہ ہو سکے۔اب پی ٹی آئی اور عمران خان کے پاس یہ بہترین موقع ہے کہ وہ مشترکہ معاشی مفادات کی بنیاد پر ایک ایسا نظام وضح کریں جس کی مدد سے چھوٹے صوبوں کی محرومی ختم ہو سکے اور ایک قوم کی تشکیل کی راہ ہموار ہو سکے کیونکہ جب تک پاکستان کےعوام ،مختلف لسانی اور نسلی اکائیوں کے مابین سیاسی اقتصادی اور معاشی اختلافات کا خاتمہ نہیں ہوتا اس وقت تک ایک روشن پاکستان کی توقع عبث ہے۔انتخابات میں شکست کھانے والی سیاسی جماعتیں مبینہ طور پر دھاندلی کا الزام لگا کر احتجاج کی طرف جانے کا فیصلہ کر رہی ہیں۔پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ ماضی کے تمام انتخابات میں اور آج ہونے والے انتخاب میں بھی دھاندلی کی آواز ہمارے اندر سے اٹھ رہی ہے۔ جس نے اداروں کو مستحکم نہیں ہونے دیا۔ان سطور کے توسط سے پاکستان کے سیاسی اکابرین سے درخواست ہے کہ اپنے تحفظات کےباوجود وہ نظام کو چلنے دیں اور اس نظام میں موجود طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے تنازعات کو طے کرنے کی کوشش کریں۔اس موقع پر نئی آنے والی حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ صوبوں میں حکومتوں کی تشکیل کیلئے زمینی حقیقت کو تسلیم کرے اور جو سب سے بڑی پارٹی ہے اس کو حکومت بنانے کا موقع فراہم کرے تا کہ سیاسی ماحول میں جوکشیدگی پائی جاتی ہے اس میں اضافہ نہ ہواور جس خوبصورت اور محفوظ کل کا وعدہ عمران خان نے نئے پاکستان کی شکل میں کیا ہے اسے پورا کرنے کا موقع عمران خان کو بھی ملے اور موجودہ اپوزیشن کو چاہئے کہ وہ بہتر حکمت عملی کے ذریعے عمران خان کو مجبور کرے کہ وہ اپنے وعدے پورے کریں۔
پاکستان کا جمہوری سیاسی نظام اس قدر بلوغت پا گیا ہے کہ اسے ڈی ریل کرنا مشکل ہو گا ۔لہٰذا بہتر سیاسی ماحول کے ذریعے عوام کے مسائل کی حل کی راہ ہموار کی جائے تا کہ عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی ایک کروڑ بے روزگار افرادکو روزگار،پچاس لاکھ بے گھروں کو گھرفراہم کر سکے ،سودن کے اندر جنوبی پنجاب صوبے کےقیام کا وعدے پورے کر سکے۔پاکستان پر بڑھتے ہوئے قرضوں کا بوجھ ختم کر کے معاشی اور سیاسی انقلابات برپا کرتے ہوئے معیشت کو سہارا دے۔ریاستی اداروں میں اصلاحات کر کے نظام کو بہتر بناسکے۔یہ اتنا مشکل ایجنڈا ہے کہ آنے والے حکمرانوں کو کسی کے خلاف سیاسی طور پر منفی یا انتقامی کارروائی کا موقع نہیں مل سکے گا اور اگر وہ ان احداف کا پچاس فیصد بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو یہ تاریخی طور پر ایک بڑی کامیابی ہو گی۔
پاکستان کے عوام نے ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اگر کسی کو چاروں صوبوں سے کامیاب کرایا ہے تو وہ شخصیت عمران خان کی ہے۔ لہٰذا اگر ہم عمران خان کو ثانیِ بھٹو سے تعبیر کریں تو غلط نہ ہو گا اور عوام یہ توقع رکھیں کہ ان کے مسائل مکمل طور پر چاہے حل نہ ہوں مگر کم ہونا شروع ہو جائیں گے۔موجودہ انتخابات کے نتائج پر لگنے والے الزامات بھی بہت سنگین ہیں جن کے طے کرنے کا کوئی طریقہ پاکستان کے سیاسی جمہوری نظام کو وضح کرنا ہو گا۔ تا کہ ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار نہ ہو۔ پی ٹی آئی کا اقتدار میں آنا ایک بڑی تبدیلی ہے۔ عوام پی ٹی آئی کو محفوظ اور تابناک صبحِ فردا کی امید سمجھ رہے ہیں۔اب یہ دیکھنا ہے کہ یہ جماعت عوام کے اس اعتماد پر پورا اترتی ہے یا نہیں جو عوام نے اس پر کیا ہے۔ عوام نے اپنا فرض اداکردیا ، اب پی ٹی آئی اپنے وعدےوفا کرے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)