جب1945 میں برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل سعودی بادشاہ شاہ عبدلعزیز ابن سعود کو ملنے گئے تو وہ ایک سو پاؤنڈ کی قیمت والا پرفیوم بطور تحفہ سعودی بادشاہ کے لئے لے کر گئے تھے جبکہ اس کے مقابلے میں سعودی بادشاہ نے چرچل کو جواہرات سے لیس تلوار اور بیش قیمت ہیروں والی انگوٹھیاں تحفے میں پیش کی تھیں۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ جب سعودی دورے پر گئے تو انہیں 83بیش قیمت تحائف پیش کئے گئے جن کی مالیت ایک ارب 20کروڑ امریکی ڈالرز بنتی ہے۔ ان تحائف میں تلواریں، خنجر، چمڑے سے بنی اشیا، سونے کی زری کے کام والے ملبوسات، اسکارف، پرفیوم، ریشم اور مختلف فن پارے شامل تھے۔ 1966میں امریکہ میں ایک قانون پاس ہوا جس کے مطابق سرکاری ملازم کوئی بھی تحفہ جس کی مالیت تین سو نوے ڈالرز سے زیادہ ہو وہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتا بلکہ ان تحائف کو امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اپنی ملکیت میں یا پھر عجائب گھروں میں نمائش کے لئے رکھ دیا جاتا ہے، مگر امریکی سیاستدانوں کے پاس یہ اختیار بھی موجود ہے کہ وہ ان تحائف کو بازاری داموں واپس خرید سکتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی امریکی سربراہان مملکت اور سیاست دانوں کو ایسے تحائف دیئے جا چکے ہیں۔ ہیلری کلنٹن کو میانمار کی لیڈر نے جو ہار تحفے میں دیا تھا اس کی قیمت 970ڈالر تھی اس تحفے کو ہیلری نے مارکیٹ کی قیمت پر دوبارہ خریدا، 2015میں سعودی بادشاہ نے صدر اوباما کو گھوڑے کا مجسمہ تحفے میں دیا تھا جس پر سونے کا پانی چڑھا ہوا تھا اور یہ ہیرے، یاقوت، نیلم اور روبی کے پتھروں سے ڈھکا ہوا تھا اس تحفے کی قیمت پانچ لاکھ 23ہزار امریکی ڈالر تھی، اسی طرح قطر کے امیر نے صدر اوباما کو ایک ایسی گھڑی تحفے میں دی تھی جس کی قیمت ایک لاکھ دس ہزار امریکی ڈالر تھی۔ امریکہ اور مغربی ممالک کے سربراہان کو بیش قیمت تحائف پیش کرنا پروٹوکول کا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ ایسا پروٹوکول دینے میں مسلم ممالک کی زیادہ تعداد پیش پیش نظر آتی ہے۔ انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی جب ہالینڈ کے دورہ پر گئے تو وہاں کے وزیر اعظم ’’مارک رتے‘‘ نے انہیں سائیکل کا تحفہ دیا، ہالینڈ کے وزیراعظم ایک بڑی اقتصادی طاقت کے وزیراعظم ہونے کے باوجود کبھی بھی کاروں کے قافلے کے ساتھ سفر نہیں کرتے۔ وہ وزیراعظم ہاؤس سائیکل پر آتے اور اُسی سائیکل پر واپس گھر جاتے ہیں لہٰذا انہوں نے سائیکل کو ہی بیش قیمت تحفہ سمجھتے ہوئے مودی کو پیش کیا، یقیناً اس کا مطلب یہی ہوگا کہ ہم بغیر پروٹوکول زندگی گزارتے ہیں آپ بھی ایسا کرنے کی کوشش کریں۔ مغربی ممالک کے سربراہان کا پروٹوکول دیکھا جائے تو وہ انتہائی معمولی نوعیت کا ہوتا ہے، سرکاری اداروں کی کوشش ہوتی ہے کہ ملکی سربراہان کی آمدورفت کے وقت پروٹوکول کم سے کم رکھا جائے تاکہ عوام الناس کو اس حوالے سے کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مجھے اسپین میں رہتے ہوئے پندرہ سال کا عرصہ گزر گیا ہے، میں نےآج تک وہاں کسی وزیر اعظم کے ساتھ کاروں کے کارواں نہیں دیکھے، وزیر اعظم کی آمدورفت کے وقت ٹریفک کو جام نہیں دیکھا اور نہ ہی کبھی عوام اور وزرا کے مابین فاصلہ دیکھا بلکہ سب لوگ اپنے سربراہان کے قریب ہی نظر آئے۔ ایک دفعہ میں اپنے دوست کے ساتھ ایک ٹریفک سگنل پر رُکا تو اپنی دائیں جانب کھڑی کار دیکھی جو میری طرح سگنل کے احترام میں کھڑی تھی اور وہ کار ہسپانوی وفاقی وزیر قانون کی تھی اور وہ بھی بغیر پروٹوکول کے۔ جرمنی، اسپین، فرانس، اٹلی اور دوسرے یورپی ممالک کے سربراہان کے پروٹوکول پر نظر دوڑائی جائے تو پتا چلتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ بہت کم پروٹوکول رکھتے ہیں۔ میں آجکل پاکستان میں آیا ہوں اور یہاں سابقہ حکومتی وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کا پروٹوکول دیکھ چکا ہوں، پاکستان کے سربراہان کی آمد و رفت کے وقت ٹریفک کس طرح جام ہوتی ہے وہ بھی دیکھا ہے۔ پاکستان میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف کی جیت اور جماعت کی طرف سے عمران خان کو وزیراعظم نامزد کئے جانے کے بعد انہیں وزیراعظم کا پروٹوکول دیا گیا جس پر وہ برہم ہو گئے اور کہا کہ مجھے پروٹوکول نہیں چاہئے۔ میں عوام کو تکلیف نہیں دینا چاہتا، دوسری جانب سیکورٹی اداروں کا کہنا ہے کہ پروٹوکول ضروری ہے، عمران خان نے کہا کہ مناسب اور کم پروٹوکول رکھا جائے۔ اس حوالے سے ایک تجزیہ کار نے لکھا ہے کہ میں عمران خان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ پروٹوکول لیں یا نہ لیں، سائیکل پر دفتر آئیں، وزیراعظم ہاؤس میں رہیں یا بنی گالا میں رہائش رکھیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ عوام کو کچھ کام کرکے دکھائیں، میں اُن صاحب سے کہنا چاہتا ہوں کہ عمران خان کا پروٹوکول نہ لینے کا اعلان خوش آئند اقدام ہے کیونکہ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہاں کے سربراہان سادہ زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں، ایسے عوامل عوام الناس کو سہولت دیتے ہیں، پروٹوکول کی وجہ سے ذرائع آمدورفت میں دقت پیش آتی ہے جس سے رش بڑھتا ہے اور اُس رش میں ایمبولینس تک نہیں چل سکتی، ضروری کام جانے والے لوگ ٹریفک میں پھنس جاتے ہیں لہٰذا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ پروٹوکول نہ لینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں اپنے بچپن کے دوست اور برصغیر پاک و ہند کے مایہ ناز کامیڈین نسیم وکی کے ساتھ پاکپتن شریف بابا فرید گنج شکرؒ کے مزار پر حاضری دینے گیا، وہاں میڈیا کے نمائندگان موجود تھے، پتا چلا کہ آج عمران خان کی بیگم حاضری کے لئے آ رہی ہیں، وہاں کوئی پروٹوکول نہیں تھا، بیگم عمران خان کے آنے میں ابھی دیر تھی، ہم نے دعا مانگی اور لوگوں نے نسیم وکی کے ساتھ تصاویر بنوانی شروع کر دیں، تمام میڈیا بھی نسیم کو گھیر ے ہوئے تھا، ایک رپورٹر نے نسیم وکی سے سوال کیا کہ یہاں ہمارے آئندہ وزیر اعظم عمران خان آئے تو انہیں وزارت عظمیٰ مل گئی، چیف جسٹس سپریم کورٹ اس دربار پر آئے اور انہوں نے ڈیموں کی تعمیر کی دُعا کی آپ یہاں کیا دعا مانگنے آئے ہیں، نسیم وکی نے جواب دیا کہ آخرت سنورنے کی دعا مانگنے آیا ہوں کیونکہ جس پاک ہستی کے در پر کھڑے ہیں انہوں نے اللہ سے یہی مانگا تھا، روحانی ہستیوں کے در پر دُعا مانگنے سے وزارتیں مل جاتی ہیں، ڈیم بھی ان شا اللہ تعمیر ہو جائیں گے، ہم اداکاری پر بھی عبور حاصل کر لیں گے لیکن یہ سب ظاہری زندگی میں ممکن ہے جبکہ اصل زندگی ہماری آخرت ہے اور آخرت کا سنورنا ہی ہماری کامیابی ہے، نسیم وکی کے یہ الفاظ میرے لئے حیران کن تھے میں تو سمجھا تھا کہ وہ اپنے ڈرامے یا کسی فلم کی کامیابی کی دعا مانگنے آئے ہیں، انہوں نے کہا کہ عمران خان اور چیف جسٹس نے اس پاک جگہ پر دُعا کے ساتھ پاکستان کی کامیابی کا جو سفر شروع کیا ہے اُس کی منزل اب زیادہ دور نہیں، انہوں نے کہا کہ فنکار برادری پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا دیکھنا چاہتی ہے اور میں نے اپنے سے زیادہ یہاں پاکستان کی ترقی کے لئے دُعا مانگی ہے کیونکہ پاکستان کی ترقی میں ہی ہماری آنے والی نسلوں کی کامیابی پنہاں ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)