رانا غلام قادر، اسلام آباد
قومی سیاست اب نیا رخ اختیار کر چکی ہے۔ طویل عرصہ تک ملک میں دو جماعتی نظام غالب رہا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے وفاق میں اب تک تین تین مرتبہ حکومت کی ہے۔ ایک بار مسلم لیگ (ق) نے بھی حکومت بنائی لیکن چونکہ مسلم لیگ (ق) ایک آمر پرویز مشرف نے مصنوعی طریقے سے گملے میں بنائی اس لئے وہ جلد ہی ایک گروپ کی صورت اختیار کر گئی۔ اب پہلی مرتبہ پاکستان تحریک انصاف ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے۔ مسلم لیگ (ن) دوسرے اور پیپلز پارٹی تیسرے نمبر کی جماعت ہے۔ جمہوری نظام میں سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کا معیار عام انتخابات میں پڑنے والے ووٹ ہوتے ہیں۔ 2018 کے عام انتخابات میں عمران خان مقبول سیاسی لیڈر کے طور پر ابھرے ہیں اگرچہ 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے بارے میں دھاندلی کے سنگین الزامات سامنے آئے ہیں اور پہلی مرتبہ یہ ہوا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی اکثریت نے الیکشن کی شفافیت اور ان کے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ ماحول میں انعقاد کے بارے میں شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ تحریک انصاف کے ہارنے والے بہت سے امیدوار بھی دھاندلی کا الزام لگا رہے ہیں۔ ایم کیو ایم حکومت کی اتحادی جماعت ہے اس کے امیدوار تحریک انصاف سے ہارے ہیں لیکن یہ اعزاز ایم کیو ایم کا ہے کہ وہ ایک جانب تحریک انصاف حکومت میں اتحادی ہے تو دوسری جانب تحریک انصاف پر الزام لگا رہی ہے کہ اس کے امیدوار دھاندلی سے کراچی میں جیتے ہیں۔ عمران خان ماضی میں ایم کیو ایم کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کر چکے ہیںوہ ریکارڈ کا حصہ ہے لیکن اب صرف وزیراعظم بننے کیلئے انہوں نے جہاں دیگر قوتوں کے ساتھ معاملات طے کئے ہیںوہاں ایم کیو ایم کو اتحاد بنانے کیلئے اپنے نظریہ اور اصول پر کمپرومائز کیا ہے۔ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ق) کو ساتھ ملانے سے ان کی ساکھ کو دھچکا لگا ہے۔ ویسے تو اب ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کی بڑی تعداد پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے ہجرت کرکے آنے والوں کی ہے جن سے ریاست مدینہ کے دعویداروںنے انصار مدینہ والا محبت کا سلوک کیا ہے اور اپنی نشستیں دیدی ہیں۔ وہ آزاد ممبران اسمبلی جنہوں نے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو شکست دی وہ بھی اب کپتان کے کھلاڑی بن چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے ممبران کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ آزاد ممبران کو رولز کے تحت تین دن دیئے گئے ہیں کہ وہ کسی سیاسی جماعت کو جوائن کریں لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ لازمی طور پرکسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کریں وہ اپنی آزاد حیثیت بھی برقرار رکھ سکتے ہیں۔ توقع ہے کہ 11 اگست کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہوگا جس میں ممبران اپنی رکنیت کا حلف اٹھائیں گے۔ حلف کے بعد اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب ہوگا۔ متحدہ اپوزیشن نے پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ کوا سپیکر کے عہدہ کیلئے امیدوار نامزد کیا ہے۔ وہ اپوزیشن لیڈر رہ چکے ہیں اور ان کے ممبران سے ذاتی طور پر بھی بہت اچھے تعلقات ہیں۔ا سپیکر کا انتخاب جیتنا تحریک انصاف کیلئے کوئی آسان مرحلہ نہیں ہوگا۔ پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنی بڑی اپوزیشن بنی ہے۔ مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، ایم ایم اے، اے این پی اور دوسری اتحادی جماعتیں اور آزاد ارکان مل کر اتنی تعداد میں ہیں کہ پی ٹی آئی کیلئے کسی بھی وقت مشکل صورتحال پیدا کر سکتی ہیں۔ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا الیکشن ویسے ہی خفیہ رائے دہی سے ہوگا۔ پی ٹی آئی کی قیادت پر اعتماد ہے کہ ان کے نمبرز پورے ہیں لیکن بہرحال متحدہ اپوزیشن نے احتجاج کا لائحہ عمل بھی بنایا ہے جس کا مقصد الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی پر دبائو ڈالنا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے یہ اچھا فیصلہ کیا ہے کہ حلف اٹھا کر پارلیمنٹ کا حصہ بنا جائے اور اپنی لڑائی پارلیمنٹ کے فورم سے لڑی جائے۔ بہرحال یہ وہ قومی اسمبلی ہے جس میں مولانا فضل الرحمان، اسفند یار ولی، محمود خان اچکزئی، نواز شریف، یوسف رضا گیلانی جیسے قدآور سیاستدان نہیں ہیں۔ جمہوری عمل کا یہی حسن ہے کہ اس میں نئے لوگوں کیلئے راستے بنتے ہیں۔ اب جمہوریت نے تحریک انصاف کو حکومت سازی کا موقع دیا ہے۔ عمران خان کیلئے اب نیا امتحان شروع ہونے والا ہے۔ انہوں نے 1996 میں پارٹی بنائی پہلی مرتبہ وہ اس پوزیشن میں آئے ہیں کہ مرکز اور دو صوبوں میں حکومت بنا سکیں۔ تیسرے صوبے میں بھی وہ مخلوط حکومت کا حصہ ہوں گے۔ عمران خان گزشتہ 5 سال سے مرکز میں اپوزیشن کی سیاست کر رہے ہیںان کا بیشتر وقت احتجاجی دھرنوں اور مظاہروں میں گزرا ہے اب وہ ٹیبل کی دوسری جانب بیٹھیں گے اب وزارت عظمیٰ کا تاج ان کے سر پر سجنے والا ہے۔ یہ بہت اہم عہدہ ہے وہ اب پی ٹی آئی کے نہیں بلکہ پورے ملک کے وزیراعظم بنیں گے۔ وہ قائد ایوان ہوں گے۔ اب وہ للکارنے والی سیاست نہیں چل سکتی۔ ان کا یہ امتحان ہے کہ وہ تحمل، بردباری اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپوزیشن کو ساتھ لیکر چلیں ورنہ ان کیلئے قانون سازی کرنا مشکل ہوجائے گا۔ قومی اسمبلی میں ان کی سادہ اکثریت ہے۔ ابھی دس حلقوں میں ضمنی الیکشن ہوگا۔ دو سیٹوں پر الیکشن ملتوی ہوگیا تھا جبکہ قومی اسمبلی کی 8 نشستیں خالی ہوگئی ہیں۔ اب اپوزیشن کا مشترکہ امیدوار پی ٹی آئی کا مقابلہ کرے گا۔ سینٹ میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور ایم ایم اے کی اکثریت ہے۔ چیئرمین سینٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کو تبدیل کرنے کیلئے صلاح مشورے شروع ہوگئے ہیں۔ توقع ہے کہ اب پیپلز پارٹی کو سینٹ کی چیئرمین شپ مل جائے گی۔ شیری رحمٰن یا مانڈوی والا چیئرمین سینٹ بن سکتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی خواہش ہے کہ رضا ربانی کو چیئرمین سینٹ بنوایا جائے۔ حکومت کیلئے سینٹ سے بل پاس کرانا ایک مشکل کام ہوگا اس کا ایک ہی حل ہے کہ قانون سازی اپوزیشن کی مشاورت سے اتفاق رائے سے کی جائے۔ رواں ہفتے حکومت سازی کا عمل مکمل ہوجائے گا۔ پہلی مرتبہ یہ ایسا موقع ہے کہ 14 اگست کو یوم آزادی کے موقع پر نئی جمہوری حکومت 5 سال کیلئے برسراقتدار آئی ہے۔ نئی حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ عوام کی توقعات پر پورا اترا جائے۔ اب 100 دنوں کے ایکشن پلان پر عملدرآمد کا مرحلہ ہے۔ حکومت کا کائونٹ ڈائون شروع ہوگیا ہے۔ ایک کروڑ ملازمتوں کے لالچ میں نوجوانوں نے بلے کے امیدواروں کے بیلٹ باکس بھر دیئے اب وہ حکومت سے نوکریاں مانگنے میں حق بجانب ہیں۔ وفاقی حکومت کے اداروں میں اس وقت 78 ہزار آسامیاں خالی پڑی ہیں جن پر فوری بھرتی کے احکامات دیئے جاسکتے ہیںلیکن دنیا کے کسی بھی ملک میں حکومت اتنی تعداد میں ملازمتیں نہیں دے سکتی۔ روزگار کے مواقع نجی شعبے دے سکتا ہے جس کیلئے صنعت کا پہیہ تیز کیا جائے۔ وعدے کے مطابق گیس اور بجلی کے ٹیرف کم کئے جائیں تاکہ پیداواری لاگت میں کمی آئے۔ لاگت کم ہوگی تو پاکستانی مصنوعات عالمی منڈیوں میں دوسرے ممالک کا مقابلہ کرسکیں گی اس وقت سب سے بڑا ایشو معیشت کی بحالی ہے۔ تجارتی خسارہ پر قابو پانا ہے اسٹیل ملز، ریلوے، پی آئی اے، بجلی کمپنیوں اور یوٹیلٹی سٹورز کو خسارے سے نکالنا ہے۔ نجکاری کے عمل کو تیز کرنا ہے ۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرنا ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ملک میں سرمایہ کاری کیلئے قائل کرنا ہے۔ سوئٹزرلینڈ اور دبئی سمیت بیرون ملک سے لوٹی ہوئی رقوم کو واپس لانا ہے۔ احتساب کے عمل کو تیز کرنا ہے لیکن اس اصول کے ساتھ کہ احتساب سب کا ہو اور بلاامتیاز ہو۔ پی ٹی آئی کی صفوں میں جو نیب زدہ لوگ ہیں ان کا بھی احتساب کیا جائے اور عمران خان ان سے فاصلہ رکھیں تو ان کی ساکھ کیلئے بہتر ہوگا۔ کابینہ کا حجم مختصر رکھا جائے۔