• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ بھی سوچتے ہونگے کہ یہ میں کن چکروں میں پڑ گیا ہوں کہ پھول اور لالٹین والی دور کی کوڑی میں لایا ہوں؟ اپنے ہوش سنبھالنے والے دنوں سے جب مجھے یاد آتا ہے کہ ان دنوں کو میرے چھوٹے سے شہر میں ’’وونٹوں‘‘ (مراد ووٹوں) کا زمانہ کہا جاتا تھا۔ میرے شہر کے لوگ انتخابات کے دنوں کو ’’وونٹ‘‘ کہتے تھے۔ ہم نے بھی سنا کہ میرے محلے سے پنج گانہ وقت نماز او روزے کے پابند ریٹائرڈ پولیس انسپکٹر ’’حاجی صاحب‘‘ بھی کھڑے تھے۔ حاجی صاحب کا پورا نام تو حاجی نذر محمد سومرو تھا لیکن سب اہل محلہ انہیں حاجی صاحب کہا کرتے۔ ہم نے حاجی صاحب کی پولیس انسپکٹری کا زمانہ تو نہیں دیکھا وہ شاید انگریزوں کے زمانے میں دبنگ انسپکٹر سمجھے جاتے تھے۔ لیکن ہم نے ان کو تب دیکھا جب انہوں نے بازار میں مینار کی دکان پا ئی ہوئی تھی۔ لیکن محلے اور بازار میں اب بھی انکی چال دبنگ تھانیداروں والی تھی۔ دکان پر رنگ برنگے پراندے، انگریزی بسکٹ، حاجیوں کے کاندھیوں پر رکھ کر چلنے یا سر ڈھانپنے والے ریشمی نفیس پیلے گلاب والے رنگ کے رومال۔ اور گریپ واٹر کا اشتہار سجے ہوئے ہوتے۔ پتہ نہیں اب بھی جب کوئی ریشمی رومال کی تحریک کا ذکر کرتا ہے یا پڑھتا ہوں تو مجھے حاجی صاحب کے ریشمی رومال یاد آ جاتے ہیں۔

بہت سال گزرے کہ میرے ایک ماموں زاد بھائی کو جادو کا شوق ہوا کرتا تھا اور وہ کاغذ یا کپڑے پر نظر نہ آنے والی تحریریں لکھنے کا دعویٰ کرتا تھا کہ جو کسی کو نظر نہ آئے۔ یعنی کہ ’’خفیہ تحریر‘‘ جو کہ وہ کبھی ثابت نہیں کرسکا۔ لیکن بوتل کے تنگ منہ سے انڈا گزارنے کے اسکے کرتب ہم نے دیکھے۔ اسکو جادو کا خبط ہوا کرتا تھا۔

حاجی صاحب کا انتخابی نشان گھوڑا تھا۔ انہوں نے اپنے انتخابی نشان والے چھوٹے پوسٹر چھپوا کر ہم بچوں کے ذریعے دیواروں پر چسپاں کروائے تھے۔ حاجی صاحب کا ایک بہت ہی بھوت بنگلے ٹائپ تین منزلہ حویلی نما گھر تھا پورے ایک بلاک پر محیط۔ ہندوئوں کی چھوڑی ہوئی یہ ملکیت زیادہ تر ویران اور دن کے وقت بھی تاریک ہوا کرتی جس پر ہم کہتے اس میں حاجی صاحب کے جن رہتے ہیں۔ کیا حاجی صاحب انتخابات جیتے گے؟ ہمارا خیال تھا کہ غصیلے حاجی صاحب کو ووٹ کون دے گا؟ لیکن وہ ہر حال میںجیتنے سے زیادہ جتوائے جائیں گے۔ حاجی صاحب کو ووٹ ان کے گھر کے تاریک اور ویران کمروں اور دو چھتیوں پر رہنے والے جن ڈلوا دیں گے۔ وونٹ آئے لیکن حاجی صاحب ’’وونٹ‘‘ ہار گئے۔ لیکن مجھے وونٹوں والا وہ دن یاد ہے۔ دیگیں پک رہی تھیں۔ نہ چھوڑنے والے تازہ توانا اور سنگل پسلی فقیروں کی صدائیں لگا لگا کر گھگھی بندھ گئی تھی۔ حاجی صاحب ہار گئے تھے وڈیرہ جیت گیا تھا۔ ڈبل گھوڑا بوسکی اور طلائی چمکتے کفلنکس والا وڈیرہ۔ اخباروں میں تہہ کیے ہوئے ہار لےکر لوگ وڈیرے کے بنگلے پر آرہے تھے ۔رنگ برنگی قائد اعظم کی تصویر والے کڑک نوٹوں کے ہار۔ ہندو دکانداروں سے ادھار پہ جو کبھی واپس نہیں ہوتے۔

اب بھی جب الیکشن آتے ہیں مجھے نہ جانے کیوں ’’وونٹ ‘‘پکتی دیگیں۔ تیرا پیچھا نہیں چھڈنا ٹائپ بھکاری اورحاجی صاحب کی بھوت بنگلے نما ویران اور تاریک کمروں والی حویلی میں موجود جن یاد آ جاتے ہیں۔ آج تک بھی ، پھر وہ امریکہ کے صدارتی انتخابات ہوں کہ پاکستان کے رنگیلے میلے والے اور خونی انتخابات۔

پھر ہم نے سنا کہ یہ جیت جانے والے لوگ ’’بی ڈی ممبر‘‘ کہلاتے ہیں جو اب صدر ایوب کو ’’چنوائیں‘‘ گے جس کا انتخابی نشان پھول ہے اور کچھ سر پھرے فاطمہ جناح کو ووٹ دیں گے جنکا نشان لالٹین ہے۔ پھول اور لالٹین کی جنگ ۔ کوٹ یا جرسی کے کالر میں سرخ پھول لگانے والے لوگ بھی میں نے تب دیکھے۔ یہ سب ایوب خان کے حامی تھے۔ یہ اتفاق تھا کہ میرا واہمہ۔

فاطمہ جناح کی لالٹین ہروادی گئی پر ایوب خان کا پھول جتوادیا گیا۔ ہمارے جیسے دیسوں میں انتخابات ضروری نہیں کہ ہر دفعہ جیتے جائیں پیارے ۔ بھٹو تھا کہ جام صادق علی سب ایوب خان کو انتخابات جتوانے میں مگن تھے۔ یہاں تک کہ ممبروں کو خفیہ تعیش گھروں پر رکھا گیا تھا۔ بقول قلندر انسان و ہاری رہنما کامریڈ میر محمد تالپور کہ جہاں وڈیرے استنجا بھی ولایتی ڈیلکس سے کیا کرتے تھےکسی بھی انتخابات میں نشانات کچھ بھی ہوں مجھے وہ سارے نشانات پھول اور لالٹین کے بیچ پڑنے والا گھمسان کا لگتا ہے۔ کس شیرنی کی آمد ہے ہرن کانپ رہا ہے۔ فاطمہ جناح ہاری نہیں ہروائی گئی تھیں ایوب خان جیتا نہیں جتوایا گیا تھا۔ اب بھی لگتا ہے کہ لڑائی پھول اور لالٹین کے درمیان ہے۔ ایوب خان، گوہر ایوب خان اور اب عمر ایوب خان۔ جناح کے خاندان کا تو ملک میں اتہ پتہ بھی نہیں لیکن جیتنے والوں کی اولادیں پھل پھول رہی، دن دوگنی رات چگنی ترقی کر رہی ہیں۔

چند سال بمشکل گزرے پھر گلی گلی میں چور چور کا شور بلند ہوا،ایوب خان نہ رہا نہ اسکی تانا شاہی۔

لیکن انیس سو ستر کے انتخابات میں لالٹین پھر آ گئی لیکن یہ اب شاید ایوب خانی مخلوق والی مسلم لیگوں میں سے ایک کا نشان تھا،تب کسی دل جلے نے یہ لوک حکایت جوڑ لی تھی کہ مسلم لیگ وہ بیوہ ہے جو ہر ڈکٹیٹر کے ساتھ عقد رچاتی ہے۔۔ بس اگر پھر ستر کے انتخابات کے میلے میں اگر کچھ اور اہم اضافی شغل تھا تو تلوار کا نشان،بھٹو اور اس کا روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ ۔ ہم بچے بڑے ہو رہے تھے ہمیں نعروں کے بدلے مفت میں جیپوں کے جھولے لگائے جاتے۔ اب تاریخ کا پانسہ پلٹا تھا کہ سورج نے اپنا رخ بدلا تھا کہ بھٹو اب فاطمہ جناح کی جگہ عتاب میں تھا لیکن مقبولیت کے اوج پر ۔ اب اسکے یاروں نے لالٹین پکڑی ہوئی تھی ۔ وہی لالٹین۔

لیکن اب جو دبنگ انتخابی نشان تھا وہ ’’کشتی‘‘ تھا شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کا نشان جو مشرقی پاکستان سے یا زیادہ سیاسی طور درست کہا جائے ملک کی سب سے بڑی پارٹی والی اکثریت ہو کر ابھری تھی۔ لیکن پھر ایسا جھرلو پھرا کہ باوجود شیخ مجیب الرحمٰن کی غالب اکثر یت کے ،انکو حکومت بنانے کی دعوت نہیں دی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کی نیا ڈبو دی گئی۔

تازہ ترین