اپنے پہلے ’’قوم سے خطاب‘‘ میں اگلے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ جتنے حلقے بھی اپوزیشن کھلوانا چاہتی ہے وہ اس کے لئے تیار ہیں مگر ابھی ان کے یہ الفاظ فضا میں گونج ہی رہے تھے کہ انہوں نے ن لیگ کے رہنما خواجہ سعد رفیق کی بار بار کی التجا کہ این اے 131لاہور جہاں سے وہ عمران خان کے ہاتھوں شکست کھا گئے تھے کی دوبارہ گنتی کی جائے ،کی ڈٹ کر مخالفت کی ۔ پہلے انہوں نے ریٹرننگ آفسر (آر او) کے سامنے پھر لاہور ہائیکورٹ میں اور آخر میں عدالت عظمیٰ میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی میں روڑے اٹکائے ۔ آر او نے سعد رفیق کی درخواست مسترد کر دی تھی مگر ہائی کورٹ نے اس کو مان لیا تاہم عدالت عظمیٰ نے عمران خان کی اپیل پر ہائی کورٹ کا فیصلہ مسترد کر دیا ۔ انتخابات جیتنے کے بعد عمران خان کا پہلا بڑا یوٹرن ہے۔جس سے ثابت ہوا کہ انہوں نے اپنی اپوزیشن کے زمانے والی روش ابھی بھی ترک نہیں کی۔اس وقت بات اور تھی کیونکہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے اس طرح کے قول و فعل میں تضاد کی اہمیت کچھ اور ہوتی ہے۔ جب آپ وزیراعظم بننے والے ہوں تو یوٹرن لینے سے نہ صرف آپ خود ایکسپوز ہوتے ہیں بلکہ پاکستان میں اور دوسرے ممالک میںبھی آپ کی باتوں ٗ اعلانات کو بجا طور پر شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ عمران خان کو ملنے والے اعلیٰ عہدے کی ڈیمانڈ ہے کہ وہ ہر مسئلے میں محتاط رویہ اختیار کریں ۔
اگر یہ اپروچ نہ بدلی گئی تو وزیراعظم کے لئے مسا ئل پیدا ہوں گے جب کہ تمام اپوزیشن جماعتوں نے پہلے ہی احتجاج شروع کر دیا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی نہیں ہوئی تھی۔ اگر اپوزیشن کی کچھ باتوں کو صحیح مان لیا جائے تو اس الزام کا الیکشن کمیشن کے پاس کیا جواب ہے کہ گنتی کے دوران یا تو پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکال دیا گیا یا انہیں ایک کونے میں بیٹھنے کا حکم دیا گیا جس کے دوران وہ گنتی ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے ۔ یہ سب کچھ خود ہی تونہیں ہو گیا ؟ ۔ نتائج تو اپنی مرضی کے حاصل کر لئے گئے اور ن لیگ کو ہروا دیا گیا مگر اس سے ملک کی کیاخدمت ہوئی ہے ؟۔ ممکن تھا کہ تحریک انصاف کی پوزیشن ان انتخابات میں ویسے بھی بہتر آجاتی مگر سارے پراسس کو متنازع کر دیا گیا ہے اور اس کی لولی لنگڑی جیت کو کوئی ماننے کو تیار نہیں ہے۔عمران خان وزیراعظم تو بن جائیں گے مگر ان کو یہ دھاندلی زدہ انتخابات’’ ہانٹ ‘‘کرتے رہیں گے۔ ویسے بھی ان کو جو ’’فتح ‘‘ دی گئی ہے اس میں بھی بڑا حساب کتاب رکھا گیا ہے کہ کہیں تحریک انصاف اپنی عددی اکثریت کی بنیاد پر اکیلے ہی حکومت بنانے کے قابل نہ ہو جائے ۔ ان کے ساتھ ایسی موقع پرست ’’جونکیں‘‘لگا دی گئی ہیں جو انہیں ہلنے نہیں دیں گی کہ وہ کوئی کام بھی آزادانہ طور پر کرسکیں۔ انتخابات کے فوراً بعد وہ ’’بیگنگ بائول ‘‘ہاتھ میں اٹھائے گلی گلی ٗ کوچے کوچے ووٹ مانگ رہے ہیں اور جس پارٹی کی ایک بھی سیٹ ہے اس کی بھی منتیں سماجتیں کر رہے ہیں کہ بابا ووٹ دے دو اللہ بھلا کرے گا۔یہ سب کچھ کر کے بھی وہ وزیراعظم دو چار ووٹوں کی اکثریت سے ہی بن سکیں گے۔ایک طرف تو یہ ’’جونکیں ‘‘وزیراعظم عمران خان سے اپنا حصہ چوستی رہیں گی اور دوسری طرف حزب اختلاف جو کہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں عددی لحاظ سے سب سے طاقتور ہو گی انہیں چلنے نہیں دے گی ۔ عمران خان بے بس اور بے اختیار ہوں گے ۔وہ کسی حد تک کامیاب ہو سکتے ہیں اگر وہ ایک اور بہت بڑا یوٹرن لیں اور اپوزیشن کے منت ترلے کریں کہ انہیں چلنے دے مگر ایسی حمایت کی بھی اپنی قیمت ہے جو کہ انہیں ادا کرنی پڑی گی۔ سب سے بڑی قیمت یہ ہو گی کہ کچھ اداروں کی انتہائی ’’مضبوطی‘‘ کی وجہ سے جو بدترین انتقامی کارروائیاں تحریک انصاف کے تمام مخالف سیاستدانوں کے خلاف زور و شور سے چل رہی ہیں ان کو دفن کرنا ہو گا اور نئی شروعات کی ضرورت ہو گی ۔ ہمارے خیال میں عمران خان نہ تو ایسی پوزیشن میں ہوں گے اور نہ ہی وہ اتنا بڑا اقدام اٹھا سکتے ہیں کہ انتقام کے سلسلے کو بند کرا سکیں۔
تمام پارلیمانی جماعتوں نے اتفاق رائے سے الیکشنز ایکٹ 2017پاس کیا تھا جو کہ دنیا کے بہترین قوانین میں شمار ہوتا ہے۔ قوانین تو اچھے بن جاتے ہیں مگر مسئلہ اس وقت کھڑا ہوتا ہے جب ان کا اطلاق نہیںکیا جاتا یہی کچھ اس قانون کے ساتھ کیا گیا ہے ۔ اس میں ہی آر ٹی ایس کو متعارف کروایا گیا جس کا مقصد نتائج کی جلد ازجلد تیاری اور فراہمی تھا مگر کیا کرے بیچارا قانون جب آر ٹی ایس کو ہی کریش کردیا گیا ۔یہ کہنا کہ یہ سسٹم خود بیٹھ گیا سمجھ سے بالا تر ہے کیونکہ 85ہزار پولنگ اسٹیشنوں سے اتنے ہی فارم 45اس سسٹم کے ذریعے الیکشن کمیشن کوسیکنڈز میں پہنچنے تھے اور ہائی ٹیک کے دور میں یہ کوئی بہت بڑالوڈ نہیں تھا ۔ الیکشنز ایکٹ نے الیکشن کمیشن کو بادشاہ بنا دیا تھاجس کے پاس بے انتہا اختیارات تھے مگر یہ بادشاہ تو غلام سے بھی بدتر نکلا جو عوام کی امنگوں کے ساتھ کھیلا ہے کیونکہ بہت سارے حلقوں میں ووٹرز نے جس کو الیکٹ کیا ہے وہ منتخب نہیں ہوا بلکہ کوئی دوسرا عوامی نمائندہ بن گیا ہے ۔ عمران خان کی حکومت کے دوران یہ اسکینڈل اس کے پیچھے لگا رہے گا۔
جب نوازشریف کا بطور وزیراعظم اور ان کے خاندان کے دوسرے افراد کا عدالت عظمی میں ٹرائل ہوا تو اس کی اسپیڈ دیدنی تھی ایسی رفتار شاید ہی کبھی کسی کیس میں سامنے آئی ہو ۔ جب انہیں اس منصب سے نکال دیا گیا تو پھر بھی پانچویں گیر میں ان کا احتساب کیا گیا اور سپریم کورٹ نے نہ صرف اس کو سپروائز کیا بلکہ اس کی سخت مانیٹرنگ بھی کی تاکہ جلد ازجلد فیصلہ ہو سکے۔ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ احتساب عدالت نے ہر روز کسی بھی کیس کی سماعت کی ہو مگر نوازشریف اور اس کی فیملی کے ساتھ برق رفتاری سے کام لیا گیا ۔ تاہم جب انہیں اور ان کی بیٹی مریم کو سزا دے دی گئی اور وہ جیل چلے گئے تو اس قسم کے ’’احتساب ‘‘ کی رفتار بھی بڑی مدہم پڑ گئی اور یہ مدہم پڑنی ہی تھی کیونکہ اصل مقصد حاصل کر لیا گیا تھا کہ پاکستان کے ’’سب سے بڑے ملزموں ‘‘ کو سلاخوں کے پیچھے بند کر دیا گیا ۔ اب دوسری طرف ایک نئی اسپیڈ سامنے آئی ہے جو کہ پہلے گیر سے دوسرے گیر میں نہیں آرہی ۔ چار ہفتے ہونے کو ہیں جب سابق وزیراعظم ٗ مریم اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کی تھیں اورساتھ یہ بھی استدعا کی تھی کہ احتساب عدالت کے فیصلے کو معطل کیا جائے مگر یہ اپیلیں سننے کی ابھی باری ہی نہیں آرہی ۔ نہ تو روزانہ سماعت ہو رہی ہے اور نہ ہی کوئی جلدی ہے کہ ان پر جلد از جلد فیصلہ کیا جائے۔ پہلے عام خیال یہ تھا کہ 25جولائی کو ہونے والے الیکشن سے قبل نوازشریف اور مریم کو سزا کے بعد جیل میں بند کرنا ہے تاکہ وہ انتخابی مہم نہ چلا سکیں اور ایسا ہی ہوا ۔ اب یوں لگ رہا ہے کہ جونہی پنجاب حکومت بن جائے گی تو ان کی ضمانتیں بھی ہو سکتی ہیں ۔ احتساب کی اسپیڈ بہت تیز ہونی چاہئے مگر ہر عدالتی مرحلے پر نہ کہ ایک اسٹیج پر تو اس کی اسپیڈ بہت زیادہ ہو اور دوسرے مرحلے پر بہت ہی آہستہ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)