• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

عالم لوھار. . . الن فقیر دو عظیم فنکار جو آج بھی دلوں میں زندہ ہیں

عالم لوھار. . . الن فقیر دو عظیم فنکار جو آج بھی دلوں میں زندہ ہیں

لوک موسیقی جسے عوامی موسیقی بھی کہتے ہیں۔ یہ کلاسیکی اور نیم کلاسیکی موسیقی سے زیادہ عام فہم اور لوگوںمیں مقبول ہوتی ہے۔ اس موسیقی میں ہلکے پھلکے گیت، لوک دھنیں، علاقائی دھنیں، شادی بیاہ کے گیت، منظوم اور لوک داستانیں شامل ہیں مثلاً سسی پنوں، ہیر وارث شاہ، سوہنی مہیوال، یوسف زلیخا، سیف الملوک، مرزا صاحباں، پنجابی ماہیے، بابا بلھے شاہ کی کافیاں اور دوہڑے وغیرہ۔ ایک وقت تھا جب ہر گاؤں میں گلوکار ہوا کرتے تھے جو صوفیانہ کلام، کافیاں یا مقامی گیت گا کر اپنے فن کا مظاہرہ کیا کرتے تھے مگر ٹیکنالوجی میں آئی جدت کے سبب ان لوک گلوکاروں پر واضح اثر پڑا ہے۔

ثقافتی دنیا کسی بھی ملک کی ہو، اس کی وسعت کو پہنچنا ناممکن نظر آتا ہے۔ پاکستان کی ثقافت بھی اتھاہ گہرائیاں لئے ہوئے ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ سندھی اجرک، ملتانی کھسہ، میانوالی کی کھیڑی، پنجاب کی جگنی خدا جانے کیا کیا ہماری ثقافت میں شامل ہیں۔ ہمارے ہنرمند، اپنے ہنر کو ’فن لطیف‘ بنا دیتے ہیں۔ پھر ایسے بھی ہیں جو فن کوفسوں بنا دیتے ہیں۔ صوفیانہ کلام، لوک موسیقی اور لوک کلچر بھی ہماری ثقافت کا ہی حصہ ہے۔

سندھ کی سرزمین فقیروں کے راگ رنگ کی امین ہے اور یہ’راگ رنگ‘ہماری صدیوں پرانی ثقافت کا حصہ ہے۔ سندھ میں اسے ’کافی‘ یا ’وائی‘ کی شکل میں آگے بڑھایا جاتا ہے کیوں کہ یہاں ’کافی‘ ہی اصل میں ’وائی‘ کا روپ دھارے ہوئے ہے۔ اسی طرح پنجابی میں ’جس‘، ’ڈھولا‘ اور ’ماہیا‘ لکھا جاتا ہے۔

عالم لوھار. . . الن فقیر دو عظیم فنکار جو آج بھی دلوں میں زندہ ہیں

لوک موسیقی میں یوں تو بہت سے عظیم فنکار ہوئے ہیںلیکن دو فنکار ایسے ہیں جنہیں ہمیشہ ان کے کام کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔ عالم لوہار اور الن فقیر یہ دونوں فنکار دو الگ الگ زبانوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کے پرستا رآج بھی انہیں جب سنتے ہیںتو جھومنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ عالم لوہار پنجابی جبکہ الن فقیر سندھی زبان کے لوک فنکار تھے۔ عالم لوہار کی برسی تین جولائی اور الن فقیر کی برسی چار جولائی کومنائی جائیگی۔

عالم لوہار کو چمٹا بجانے اور آواز کا جادو جگانے میں کمال فن حاصل تھا۔ ان کے گائے ہوئے پنجابی گیتوں کی خوشبو آج بھی جابجا بکھری ہوئی ہے۔ انہوں نے چمٹے کوبطور میوزک انسٹرومنٹ استعمال کیااور دنیا کو ایک نئے ساز سے متعارف کرایا۔ عالم لوہار یکم مارچ 1928ء کو گجرات کے ایک نواحی گائوں میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے کم عمری سے گلوکاری کا آغاز کیا۔ وہ اپنے مخصوص انداز اور آواز کی بدولت بہت جلد عوام میں مقبول ہوگئے۔

عالم لوہار کا بچپن گجرات ہی میں گزرا۔ جن دنوں عالم لوہار نے بچپن سے جوانی کا سفر شروع کیا، برصغیر پاک و ہند میں ان دنوں انگریز وںکی حکومت تھی۔ اس دور میں یہ رواج عام تھا کہ لوگ سر شام چوپالوں میں اکٹھے ہو جایا کرتے تھے۔ ان بیٹھکوں میں لوگ عارفانہ کلام اور لوک داستانیں سناتے اور داد وصول کرتے تھے۔ انہی محافل میں بیٹھے بیٹھے عالم لوہار کے دل میں بھی لوک داستانیں گانے کا شوق پیدا ہوا۔ یہی شوق آگے چل کر ان کی پہچان بنا۔ ابتدائی طور پر اپنے گاؤں میں لوک گیت سنا کر داد سمیٹنے والے عالم لوہار نے اپنے فن کو پروان چڑھانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اپنے اس شوق کی تکمیل کے لئے اپنا گھر بار چھوڑا اور تھیٹر کمپنیوں سے وابستہ ہوگئے اور یوں وہ نہایت کم عمری میں ہی بہت مقبول ہوگئے۔ یہی فن ان کا ذریعہ معاش بھی بن گیا۔ انہوں نے اپنی گائیکی میں چمٹے کا بھی خوب استعمال کیا۔

انہیں بجا طور پر جگنی کا خالق بھی کہا جاسکتا ہے۔ ان کی گائی ہوئی ’’جگنی‘‘آج بھی لوک موسیقی کا حصہ ہے۔ ’’جگنی ‘‘اس قدر مشہور ہوئی کہ ان کے بعد آنے والے متعدد فنکاروں نے اسے اپنے اپنے انداز سے پیش کیا لیکن جو کمال عالم لوہار نے اپنی آواز کی بدولت پیدا کیا وہ کسی دوسرے سے ممکن نہ ہوسکا۔ ’’جگنی‘‘ کی شہرت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس دور کی اردو اور پنجابی فلموں میں بھی اسے خصوصی طور پر شامل کیا گیا جبکہ اس کی پکچرائزیشن بھی انہی پر ہوئی۔ ’’جگنی ‘‘کے علاوہ عالم لوہار نے کئی اورمنفرد دھنیں بھی تخلیق کیں جن میں

’’دھرتی پنج دریاواں دی‘‘

بہت مقبول ہوئی۔ عالم لوہارکی گائیکی کا انداز منفرد اور اچھوتا تھا جو اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک جہاں پنجابی اور اردو زبان نہیں سمجھی جاتی وہاں بھی لوگ ان کی خوبصورت دھنوں پر جھوم اٹھتے تھے۔ چمٹا بجانے کے ساتھ ساتھ گلوکاری کا فن اگرچہ محدود ہوگیا ہے اور چمٹا بجانے والوں کی تعداد تقریباً ختم ہوتی جارہی ہے لیکن عالم لوہار کے بیٹے عارف لوہار نے چمٹے سے چھڑنے والی نئی سے نئی دھنوں کے ذریعے نہ صرف اپنے والد کے فن کو زندہ رکھا ہوا ہے بلکہ وہ خود بھی اس فن میں دوسروں سے ممتاز ہیں۔ ان کے معروف ترین گانوں میں

’’واجاں ماریاں بلایا کئی وار ‘‘

’’دل والا دکھ نئیں کسی نوں سنائی دا‘‘

’’مونڈھا مار کے ہلا گئی‘‘

اور

’’بول مٹی دیا باویا‘‘

قابل ذکر ہیں۔ انہیں صوفی شعراء کے کلام کے علاوہ لوک داستانیں، جگنی، بولیاں اور ماہئیے زبانی یاد تھے اور وہ انہیں انتہائی روانی سے گایا کرتے تھے۔ عالم لوہار نے لوک موسیقی میں نئی جہت روشناس کروائی۔ انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے ہیر وارث شاہ کو متعدد طریقوں سے گایا۔ پنجاب کی دھرتی کے یہ عظیم لوک گلوکار تین جولائی 1979ء کو ٹریفک کے ایک حادثے میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ حکومت پاکستان نے ان کے فنی خدمات کے اعتراف میں انہیں بعد از مرگ صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کے اعزاز سے بھی نوازا۔ اب ان کا فنی ورثہ ان کے صاحبزادے عارف لوہار نے سنبھال لیا ہے، جن کا شمار پاکستان کے معروف لوک فن کاروں میں ہوتا ہے۔

سندھی زبان کے لوک فنکار الن فقیر صوبہ سندھ کے ایک چھوٹے سے علاقے جامشورو میں 1922ء میں پیدا ہوئے۔ الن فقیر نے صوفیانہ کلام گاکر ملک گیر شہرت حاصل کی۔ ان کی گائیکی کا ایک انوکھا انداز تھا جو انہیں دوسرے لوک فنکاروں سے منفرد کرتا ہے۔

انہوں نے اپنی گائیکی کی بدولت کئی ایوارڈ حاصل کئے۔

علی بخش عرف الن فقیر سندھی لوک اور صوفی گلوکار تھے جنہیں صوفی شاعری کی خاص صنف کافی میں ملکہ حاصل تھا۔ الن فقیر1932 کو جامشورو، سندھ میں پیدا ہوئے۔ اصل نام علی بخش تھا لیکن الن فقیر کے نام سے مشہور ہوئے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر یکساں مقبول تھے۔ الن فقیر کو فنی دنیا میں متعارف کرانے کا سہرا سندھ کے ادیب، دانشور اور ماہرثقافت ممتاز مرزا کے سرجاتا ہے۔ الن فقیر نے سندھی، پنجابی، اردو، سرائیکی اور دوسری بہت سی زبانوں میں گانے اور صوفیانہ راگ گائے لیکن محمد علی شہکی کے ساتھ گایا جانے والا نغمہ

’’تیرے عشق میں جو بھی ڈوب گیا‘‘

الن فقیر کی فنی شہرت میں اضافے کا باعث بنا۔ اس کے علاوہ ان کا ایک ملی نغمہ

اتنے بڑے جیون ساغر میں تو نے پاکستان دیا

بھی بہت مشہورہوا۔

الن فقیر کی گائیکی نے فلسفیانہ عشق الٰہی کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی، انہوں نے روایتی لوک گائیکی کو ایک نیا انداز بخشا۔ ان کے والد ایک ڈھولچی تھے جو شادی اور دیگر تقریبات میں ڈھول بجانے کے علاوہ گانے بھی گایا کرتے تھے۔ وہ بنیادی طور پر ان پڑھ تھے لیکن خدا نے انہیں کمال کا حافظہ عطا کیا تھا وہ جو بات ایک بار سن لیتے انہیں حفظ ہوجاتی تھی۔

انہوں نے شاہ عبد الطیف بھٹائی کی شاعری کو بھی اپنی آواز میں پیش کیا۔انہیں80کی دہائی میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کا انتقال4 جولائی 2000ء کو ہوا مگروہ آج بھی اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین