• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت اُن مسائل پر بات کی جارہی ہے جن کا ملک کے متوقع وزیر ِاعظم عمران خان کو سامنا کرنا پڑسکتا ہے، لیکن اُنہیں حاصل آسانیوں کا تذکرہ نہیں ہورہا ہے۔ مرکز میں کولیشن حکومت جیسے مسائل ، انتخابی نتائج پر دھاندلی کے کھلے الزامات، قومی اسمبلی میں تگڑی اپوزیشن، سینیٹ میں عددی برتری کا نہ ہوناکسی بھی حکومت کے لیے کٹھن مسائل ہوسکتے ہیں۔ اور پی ٹی آئی کی حکومت تو ویسے بھی اصلاحات اور تبدیلی کے ایجنڈے کے ساتھ آگے آئی ہے ۔ لیکن ان مشکلات کے باوجود عمران خان ایک ایسی حکومت کی قیادت کرنے جارہے ہیں جس کا راستہ بہت حد تک آسان اور سیدھا ہے۔

سب سے پہلے تو مرکزمیں اُن کی حکومت کو تین صوبوں کی حمایت حاصل ہوگی۔ اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ اُن کی پالیسیوں کو ملک گیر سطح پر تعاون میسر آئے گا، خاص طور پر اُس وقت جب اٹھارویں ترمیم نے طاقت کی مرکزیت کوتقسیم کردیا تھا۔ اور پھر کسی جماعت کے پاس بھی ایسی اکثریت اور حمایت نہیں جس کی بازگشت پورے ملک میں سنائی دے ۔ لیکن پی ٹی آئی حکومت کے منصوبوں اور ان کے نفاذ کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کو ملک گیر حمایت حاصل ہوگی۔ سندھ میں البتہ پی پی پی کو واضح اکثریت حاصل ہے ، لیکن عین ممکن ہے کہ پی پی پی بعض اہم معاملات پر مرکز میں پی ٹی آئی سے تعاون کرتی دکھائی دے ۔ چنانچہ ملک میں مرکزیت کی ایسی فضا پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی ۔

یہ بات درست ہے کہ عمران خان اپنے کولیشن پارٹنرز پرانحصار کرتے ہوئے بمشکل اپنی اکثریت برقرار رکھیں گے، لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ دوسری طرف ایسا کوئی متبادل دھڑا موجود نہیں جو ان کی حکومت کی جگہ لے سکے ۔ اس وقت تک ان کے سامنے ایسی کوئی اپوزیشن نہیں جو حکومت سازی کا خواب بھی دیکھ سکے ۔ مستقبل قریب میں ناممکن دکھائی دیتا ہے کہ پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) مل کر کوئی ایسا دھڑا بنا پائیں جو عمران خان اور اُن کے کولیشن پارٹنرز کو کسی آزمائش میں ڈال سکے۔

ممکن ہے کہ تھیوری کے اعتبار سے ایسا ہوسکتا ہو لیکن عملی طور پر اس کاکوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ اس وقت تمام چھوٹی جماعتیں، جیسا کہ ایم کیو ایم اور بی این پی (ایم) پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑی ہیں۔

ان جماعتوں نے پی ایم ایل (ن) اور پی پی پی کے ساتھ بات تک نہیں کی۔ اور پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ پی ایم ایل (ن) نے پی ٹی آئی کو چیلنج کرنے کے لیے حکومت سازی کی کوئی سنجیدہ کوشش کی بھی نہیں۔

جس رفتار سے پنجاب کے تمام آزاد ممبران نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی اور کچھ نے مرکز میں بھی ، اس سے ہمارے وقت کے غالب رجحان کا پتہ چلتا ہے ۔ سیاست کا تجربہ رکھنے والے یہ ماہرین ہواکار خ پہچانتے ہیں۔ وہ جانتے ہیںکہ اس وقت قومی سیاست کا موسم عمران خان کے لیے ساز گار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان کو کولیشن پارٹنرز کے مطالبات کا غیر ضروری بوجھ نہیں اٹھانا پڑے گا۔وہ فیصلہ سازی میں کافی حد تک آزاد ہوں گے ۔

عمران خان اور عام طور پر ناقابل ِ اعتبار سمجھے جانے والے کولیشن پارٹنرز کے درمیان تعلق کو مرکزی دھارے کی اپوزیشن کے معاملات مضبوط کریں گے ۔ پی پی پی پر آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کے خلاف مقدمات کا بوجھ ہے ۔ اس کے نوجوان لیڈر، بلاول بھٹو انتخابی نتائج کے بعدسے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وہ پی ٹی آئی حکومت کے کاموں میں روڑے اٹکانے کی کوشش نہیں کریں گے ۔ وقتاً فوقتاً پی پی پی شور مچاتے، اور ایک دو پریس کانفرنسیں کرتی دکھائی دے گی، لیکن جب تک مذکورہ مقدمات ہیں، پی پی پی کی طرف سے راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ یہ مرکز میں کوئی گربڑ کرنے کی بجائے صوبے میں آرام سے اپنی حکومت چلانے کو غنیمت جانے گی۔ ہر قسم کے دبائو کے مقابلے میں اس کے مرد ِ بحران، آصف علی زرداری کے پاس ایک ہی پالیسی ہے۔ سر جھکاکےبائونسر کو گزار دو، اور اگلی گیند کا انتظا ر کرو۔ آنے والے برسوں میں پی پی پی اپنی سیاسی اننگز اسی طرح کھیلے گی۔

پنجاب اور قومی اسمبلی میں کافی بڑی تعداد میں نشستیں لینے کے باوجود پی ایم ایل (ن) کے سامنے بھی ایسی ہی صورت حال ہے۔ شہباز شریف کو کئی قسم کی تحقیقات کا سامنا ہے۔ ان کے سامنے سیاسی ڈیش بورڈ پر جلتے بجھتے سرخ بلب آرام سے بیٹھے رہنے اور کچھ نہ کرنے کی وارننگ دے رہے ہیں۔ بہرحال اُنھوں نے اپنے پتے واضح طو رپر کھیل دیئے ہیں۔ نواز شریف اور مریم کی لندن واپسی دراصل شہباز شریف کی سیاسی سکت کا امتحان تھی۔ اُس روز پیش آنے والے واقعات، جب پی ایم ایل (ن) کا کوئی کارکن بھی ائیرپورٹ پر نہ پہنچ سکا، کا معروضی تجزیہ بتاتا ہے کہ شہباز شریف اپنے بھائی اور بھتیجی کے بیانیے کے ساتھ چلنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ۔ جب وہ بے مقصد لاہور کی گلیوں میں ادھر اُدھر گھوم رہے تھے، اُن کے بہت سے ساتھی اُن کی ہدایات کے منتظر تھے، لیکن اُنھوںنے لب کشائی کی جسارت تک نہ کی۔ ایسا کرتے ہوئے وہ اُن رہنماؤں کی صف میں شامل ہوگئے جو اپنے گھوڑے کی لگام نہیں چھوڑتے۔

مزید یہ کہ ایک خائف رہنما کی قیادت میں پی ایم ایل (ن)بہت تبدیل شدہ جماعت دکھائی دے رہی ہے۔ اس کے زیادہ ترجوشیلے رہنمامیدان سے دور ہیں اور وہ جو مرکزی کمیٹی میں شامل ہیں، وہ اتنے خائف ہیں کہ احتجاج کا نام تک لینے کے روادار نہیں۔ درحقیقت اُن کے بہت سے سابق وزراء پر یہ بات آشکار ہوئی ہے کہ اگر نواز شریف اور مریم نواز کا جارحانہ بیانیہ نہ ہوتا تو وہ ایک بار پھر حکومت میں ہوتے ۔ درحقیقت شہباز شریف خود اس رویے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اُنہیں یقین ہے کہ وہ اپنے بھائی کے بیانیے سے دور ہوکر نہایت پرامن رویہ دکھاتے ہوئے اپنا سیاسی بچاؤ کرسکتے ہیں۔

شہباز شریف مرکز میں ، اور اُن کے بیٹے پنجاب میں قائد ِ حزبِ اختلاف ہوں گے تو پھر اندازہ ہے کہ ایوانوں میں کس قسم کی اپوزیشن ہوگی۔ یہ کمزور، بے جان اور بے صدا اپوزیشن ایک نیام زدہ تلوار کی طرح ہوگی۔ چنانچہ عمران کی حکومت کو یہاں بھی کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

یہ ضرور ہے کہ کچھ شور برپا کیا جائے گا، غصے کا اظہار بھی ہوگا، مکے لہرائے جائیں گے، لیکن خاطر جمع رکھیں، شہباز شریف کی قیادت میں اپوزیشن حکومت کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گی اور یہ عمران خان کے لیے ایک بہت بڑی آسانی ہے۔ وہ نہایت طمانیت سے اپنے وعدے پورے کرسکتے ہیں۔ کوئی بھی ایوان اُن کے سامنے رکاوٹ پیدا نہیں کرے گا۔

عمران خان کو منتخب شدہ اداروں سے باہر کی طاقتوں کی بھی حمایت حاصل ہے ۔ اُن کی پارٹی کا ووٹ بینک دوگنا ہوچکا ہے ۔ قوم گزشتہ پانچ سال کی ماردھاڑ(ستم ظریفی یہ ہے کہ ا س کے مرکزی کردار خود عمران تھے) سے تنگ آچکی ہے۔ اب لوگ چاہتے ہیں کہ حکومت کو آرام سے کام کرنے دیا جائے۔ عالمی برادری،خاص طور پر سرمایہ کار اور وہ جن کے پاکستان میں اونچے اسٹیک ہیں، پاکستان میں ایک مستحکم حکومت چاہتے ہیں۔ ایسی حکومت جو مشکل فیصلے کرسکے۔ چونکہ وہ پہلی مرتبہ حکومت سنبھالنے جارہے ہیں، چنانچہ اُن کے دامن پر ماضی کے کوئی داغ نہیں۔ وہ دنیا کے کئی ایک دارالحکومتوں میں پاکستان کو قدم رکھنے کے قابل بنا سکتے ہیں۔

گویا یہ بات پورے اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ عمران خان کو کسی قسم کی محلاتی سازشوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اُن کی ایسی نایاب حکومت ہوگی جو روز اول سے ہی صاف اور شفاف مانی جائے گی۔ اُنہیں اپنی شفافیت ثابت کرنے کی بھی ضرورت نہیں ۔ یہ بات عوام کو باور کرائی جاچکی ہے اور اتنا کافی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ عمران خان کی حکومت کا قیام کس طرح کےانتخابات کا نتیجہ ہے، اب زیادہ اہم نہیں رہی ۔ملک کے ہر ادارے نے انتخابات کو قبول کرلیا ہے۔ اب جب کہ وہ اپنی اننگز کا آغاز کرنے جارہے ہیں، تمام ریاستی ادارے اُن کے ساتھ کھڑے ہیں۔

یہ منفرد پوزیشن عمران خان کو فیصلہ کرنے اور اپنی پالیسی کو سکون سے آگے بڑھانے کا موقع دیتی ہے ۔ وہ خوش قسمت ہیںکہ اُنہیں ایسا ہموار راستہ مل گیا ہے جس پر قدم بڑھاتے ہوئے وہ اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دے سکتے ہیں۔ ہمارے جیسے ملک میں جہاں سیاسی فساد اور نہ ختم ہونے والی چالبازی کی رت کبھی نہیں گزرتی، عمران خان کو ایسا صاف موسم میسر آنا کسی خوش بختی سے کم نہیں۔ اس سے زیادہ کسی کو کیا چاہیے ؟ اس سے پہلے ہم نے اتنے صاف افق کبھی نہیں دیکھے تھے ۔ چنانچہ اُن سے کارکردگی کی توقع ہے ۔ امید ہے کہ وہ اپنے تمام وعدے پورے کریں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین