• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسپیکرقومی اسمبلی کا حلف آئین کاآرٹیکل53(2)اور 61

میں………………… صد ق دل سے حلف اٹھاتا ہوں کہ میں خلوص نیت سے پاکستان کا حامی اور وفادار رہوں گا۔پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر(سینٹ کا چیئرمین) کی حیثیت سے اور جب کبھی مجھے صدر پاکستان کام کرنے کے لئے کہا جائے گا،میں اپنے فرائض منصبی اور کارہائے منصبی ایمان داری،اپنی انتہائی صلاحیت اورفاداری کے ساتھ،اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور اور قانون کے مطابق اور قومی اسمبلی کے اسپیکر کی حیثیت سے اسمبلی کے قواعد کے مطابق اور ہمیشہ پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت،استحکام اور خوشحالی کی خاطر انجام دوں گا۔میں اسلامی نظریہ کو برقرار رکھنے کے لئے کوشاں رہوں گا جو قیام پاکستان کی بنیاد ہے۔میں اپنے ذاتی مفاد کو اپنے سرکاری کام یا اپنے سرکاری فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہونے دوں گا اور اس کا تحفظ اور دفاع کروں گا۔میں ہر حالت میں ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ بلا خوف و رعایت اور بلا رغبت و عناد قانون کے مطابق انصاف کروں گا۔(اللہ تعالیٰ میری مدد اور رہنمائی فرمائے۔آمین)

پاکستان میں عام انتخابات کے بعد انتقال اقتدار کا مرحلہ شروع ہوچکا ہے۔ 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس 13 اگست کو منعقد ہوا جس میں نو منتخب اراکین نے حلف اٹھایا، جس کے بعد دوسرے مرحلے میں نئی اسمبلی آج 15 اگست کو اپنے 22ویں اسپیکر کا انتخاب کرے گی۔

پاکستان کی قومی اسمبلی کے سب سے بڑے عہدے کو اسپیکر کہا جاتا ہے جوکہ عوام کے منتخب نمائندہ گان پر مشتمل اجلاس کی صدارت کرتا ہے۔ اسپیکر صدر کی جانشینی کی فہرست میں دوسرے درجے پر ہوتا ہے۔ یعنی اگر صدر کاعہدہ خالی ہویا صدر پاکستان غیر حاضر ہویا وقتی طور پر کسی بھی صورت اپنے فرائض انجام دینے سے قاصر ہوتو اسپیکر قائم مقام کی حیثیت سے صدارت سنبھالتا ہے۔ جبکہ اسپیکر کا درجہ رتبے کے اعتبار سے صدر ، وزیر اعظم اور ایوان بالا ( سینیٹ) کے چیئرمین کے بعد چوتھے نمبر پر ہے۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر کاعہدہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ نہ صرف قومی اسمبلی کی صدارت کے فرائض انجام دیتا ہے۔ بلکہ دستور کی روسے قائم مقام صدر کے فرائض بھی انجام دیتا ہے۔ اس کے اختیارات میں ایوان میں نظم وضبط کاقیام ، دستوری معاملات اور جھگڑوں کا تصفیہ اور قانون کے خلاف ہونے والی کسی بھی قسم کی بات کو خاموش کرانا اور ایسی حرکات سے باز رکھنا جو قانون کے مطابق ناجائز ثابت ہوسکتی ہوں ، اور اگر کوئی رکن اسمبلی اسپیکر کے احکامات کی خلاف ورزی کرے تو اس کو وہ ایوان سے باہر کرسکتا ہے۔ اسمبلی کے تمام معاملات میں اس کا عمل دخل کلی طور پر ہوتا ہے۔جب اسمبلی برخاست ہوجاتی ہے تو اس صورت میں اسپیکر اپنے عہدے پر اس وقت تک فائز رہ سکتا ہے جب تک کہ نئی منتخب کردہ اسمبلی میں اس کی جگہ کسی دوسرے شخص کا انتخاب عمل میں نہ لایا جائے۔ پاکستان کی تاریخ میں جن شخصیات نے بطور اسپیکر فرائض انجام دیئے ان کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

پاکستان کی پہلی دستور سازاسمبلی کی صدارت کا شرف قائد اعظم محمد علی جنا ح کو حاصل ہے آپ11اگست1947سے اپنی رحلت گیارہ ستمبر1948 تک اسمبلی کی صدارت کے عہدے پر فائز رہے۔

قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد اسمبلی کی صدارت کا منصب مولوی تمیز الدین کے حصے میں آیا۔آپ 14دسمبر1948سے24اکتوبر1954تک اس عہدے پر فائز رہے۔ انہوں نے مارچ1889بنگلا دیش میں خانخارلور کے ضلع فرید پور میں آنکھ کھولی ، ابتدائی تعلیم آبائی ضلع سے حاصل کی۔ کلکتہ سے ایم اے اور ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد فرید آباد میں وکالت شروع کردی۔ 1938,1937,1926 اور پھر1942کے عام انتخابات میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر بنگال اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1946کے عام انتخابات میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر مرکزی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ ستمبر1948میں قائد اعظم کی وفات کے بعد جب دستور ساز اسمبلی کی صدارت کا عہدہ خالی ہوا تو مولوی تمیز الدین اس عہدے کے لیے منتخب ہوئے۔1954میں جب گورنر جنرل ملک غلام علی نے دستور ساز اسمبلی توڑنے کا حکم صادر کیا تو مولوی تمیز الدین نے بڑی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس اقدام کوسند ھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے ثابت کیا کہ گورنر جنرل کا اقدام غیر آئینی تھا۔ مگر حکومت نے فیڈرل کورٹ میں اپیل دائر کردی جہاں فیصلہ گورنر جنرل کے حق میں ہوا اور اسمبلی توڑنے کا فیصلہ بحال رہا۔ اس کے بعد مولوی صاحب نے کچھ عرصے کے لیے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی جس کی بناء پر انہوں نے دوسری دستور ساز اسمبلی کے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ تاہم 1962میں وہ ایک مرتبہ پھر اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ مولوی صاحب نے اپنی زندگی میں متعدد کتابیں بھی تحریر کیں۔ زندگی کے آخری ایام میں اپنی خود نوشت لکھنے کے سلسلے کو ادھورا چھوڑ کر ،19اگست1963کودنیا سے رخصت ہوگئے۔

پاکستان قومی اسمبلی کے تیسرے اسپیکر عبدالوہاب خان تھے جو 12 اگست 1955 سے7اکتوبر1958تک اس عہدے پر فائز رہے۔آپ مشرقی پاکستان کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہو ئے آخری سالوں میں آپ بنگالی نیشنلسٹ بن چکے تھے۔

عبدالوہاب خان کے بعد چوتھے اسپیکر ایک بار پھر مولوی تمیز الدین منتخب ہوئے اور 6 نومبر 1962سے19اگست1963تک اس عہدے پر فائز رہے۔

قومی اسمبلی کے پانچویں اسپیکرفضل القادر چوہدری تھے جو 29ن ومبر 1963 سے 12جون1965تک اس عہدے پر فائز رہے۔فضل القادر1919میں ضلع چٹاکانگ کے مقام گوہیرا میں پیدا ہوئے۔آپ تحریک پاکستان کے بنگالی رہنما تھے۔ آپ نے پریذیڈنسی کالج کلکتہ اور ڈھاکہ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔1938میں مسلم لیگ میں شمولیت ختیار کر نے کے بعد آخری دم تک مسلم لیگ سے وفا داری نبھاتے رہے۔

قومی اسمبلی کے چھٹے اسپیکرعبدالجبار خان 12 جون 1965 سے 25 مارچ 1969 تک اس عہدے پر فائز رہے۔آپ 1902ء میں ضلع باقر گنج کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کلکتہ یونیورسٹی جب کہ 1925ء میں ڈھاکا یونیورسٹی سے ایم اے اور 1927ء میں قانون کی ڈگری حاصل کی۔ 1929ء میں جج، 1950ء میں سیشن جج اور 1956ء میں ڈھاکا ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے فرائض انجام دئیے۔ 1962ء میں ملازمت سے سبک دوش ہو گئے، بعدازاں مشرقی پاکستان مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔ 1962ء میں ہی متفقہ طور پر قومی اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے۔ اس دوران انہوں نے بنگلہ دیش کے قیام کی مزاحمت کی لیکن کامیابی نہ ہوسکی۔

قومی اسمبلی کے ساتویں اسپیکر ذوالفقار علی بھٹو 14 اپریل 1972 سے 12 اپریل 1973تک اسمبلی کی صدارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ تاریخ سازسیاسی شخصیت ذوالفقار علی بھٹو 5 جنوری 1928کو صوبہ سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں پیدا ہوئے۔انھوں نے 1950میں برکلے یونیورسٹی کیلیفورنیا سے سیاسیات میں گریجویشن اور1952 میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے اصول قانون میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔1953 میں سندھ ہائی کورٹ میں وکالت شروع کی۔1958تا1960صدر ایو ب خا ن کی کابینہ میںوزیر تجارت فرائض انجام دیئے۔1962 میں وزیر اقلیتی امور،قومی تعمیر نو اور اطلاعات مقرر ہوئے۔1962 سے 1965میں وزیر صنعت وقدرتی وسائل فرائض انجام دیئے۔ 1963 سے1966تک وزیر خارجہ رہے۔1967میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ 1970 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ 1971 سے 1973تک صدر مملکت کے عہدے پر فائز رہے۔14اگست1973کو نئے آئین کے تحت وزیر اعظم کا حلف اٹھایا۔

قومی اسمبلی کے آٹھویں اسپیکرفضل الٰہی چوہدری 15 اگست 1972 سے 7 اگست 1973تک اسمبلی کی صدارت پر فائز رہے۔فضل الٰہی چوہدری 1904ء میں ضلع گجرات کے علاقہ مرالہ میں پیدا ہوئے۔ 1924ء میں زرعی کالج فیصل آباد ( زرعی یونی ورسٹی ) سے بی ایس سی اور 1927ء میں ایم اے اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ 1940ء میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس دوران ان کو جیل بھی جانا پڑا۔ 1956ء سے 1958ء تک مغربی پاکستان اسمبلی (ون یونٹ) کے اسپیکر رہے۔ 1962ء اور 1965ء میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر اور 1970ء میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1972ء میں قومی اسمبلی کے اسپیکر اور پھر 1973ء میں صدر مملکت کی حیثیت سے فرائض انجام دئیے۔ انہوں نے 1982ء میں وفات پائی۔

قومی اسمبلی کے نویں اسپیکر صاحبزادہ فاروق علی 9 اگست 1973 سے 27 مارچ 1977تک اسمبلی کی صدارت کرتے رہے۔ملتان سے منتخب ہونے والے فاروق علی کا تعلق طور قبیلے سے تھاجب کہ ان کاآبائی علاقہ وزیر آباد کے علاقے گکھڑ منڈی کا گاؤں ویانوالی تھا۔2002میں انہوں نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ پہلے اسپیکر ہیں جنہوں نے اپنے عہدہ اسپیکرشپ کی مدت پوری کی اور نئے منتخب نمائندوں کے حلف لینے کے بعد پارلیمنٹ کے پہلے سیشن کی صدارت کی جب کہ چیف الیکشن کمیشنر نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا تھا،ان کا کہنا تھا کہ فوجی حکومت کے اسمبلیوں کو توڑ نے کے بعد دیگر اسپیکر الہی بخش سومرو، ملک معراج خالد،سید فخر امام ،سید یوسف رضا گیلانی ،گوہر ایوب اور حامد ناصر چٹھہ کو آمروں نے فارغ کردیا تھا۔

قومی اسمبلی کے دسویں اسپیکر ملک معراج خالد تھے جو اس عہدہ پر 27 مارچ 1977 سے5جولائی1977تک فائز رہے۔20ستمبر1916میں لاہور میں پیدا ہونے والے ملک معراج پاکستان کے نگران وزیراعظم بھی رہے۔آپ پیپلز پارٹی کے سینٹرل ایگزیکٹو کونسل کے بانی اور سنیئر ممبر تھے۔1972میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی رہے۔آپ نے اسلامیہ کالج سے1944میں ایل ایل بی کی ڈگری لی۔1965میں مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔1968میں پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے اور لاہور کے پارٹی صدر بنے۔1970میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 13جون2003کو 86سال کی عمر میں اسلام آباد میں انتقال کر گئے۔

قومی اسمبلی کے گیارہویں اسپیکر سید فخر امام 22مارچ1985 سے 26 مئی 1986 تک اس عہدے پر فائز رہے۔فخر امام 1942ء میں ضلع خانیوال کے علاقے قتال پور کے سید گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے لاہور سے گریجویشن کیا اور اعلیٰ تعلیم کے لئے برطانیہ چلے گئے۔ 1981ء کو جنرل ضیاء الحق کی کابینہ میں شامل ہوئے۔ 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ مارچ1985سے مئی 1988تک حزب اختلاف کی سربراہی کی۔ محمد خان جونیجو کی مسلم لیگ کی حکومت قائم ہونے پر قومی اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے۔ 1986ء میں ان کے خلاف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی جو منظور کرلی گئی۔ ان کی بیوی سیدہ عابدہ حسین بھی معروف سیاستدان ہیں۔

قومی اسمبلی کے بارہویں اسپیکرحامد ناصر چٹھہ31 مئی 1986سے تین دسمبر 1988 تک اس عہدے پر فرائص انجام دیتے رہے۔حامد ناصر چٹھہ 1945ء میںتحصیل وزیر آباد کے علاقے احمد نگر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم چیفس کالج لاہور اور 1966ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے (سیاسیات) کی ڈگری حاصل کی۔ 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور محمد خان جونیجو کی کابینہ میں پہلے وزیر اطلاعات و نشریات مقرر ہوئے بعد میں قومی اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے۔

اسمبلی کے تیرہویں اسپیکر ملک معراج خالد دوسری مدت کے لئے منتخب ہوئے اور تین دسمبر1988سے چار نومبر1990تک اس عہدے پر فائز رہے۔

اسمبلی کے 14ویں اسپیکر گوہر ایوب خان چار نومبر 1990 سے 17 اکتوبر 1993 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ گوہر ایوب 1937ء کو ضلع ایبٹ آباد کے مقام ریحانہ میں سابق فوجی آمر فیلڈ مارشل ایوب خان کے گھرپیدا ہوئے۔ رائل ملٹری اکیڈمی سندھرسٹ سے فوجی تربیت اور گریجویشن کیا۔1959میں فوج میں کمیشن حاصل کیا اور1962میں کیپٹن کے عہدے سے ریٹائرمنٹ لے لی۔ 1965ء سے مسلسل قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے رہے اور کسی بھی عام انتخاب میں شکست نہیں کھائی۔ 1990ء میں قومی اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے۔1997میں وزیر خارجہ بھی رہے۔2007سے انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔

پاکستان کی قومی اسمبلی کے 15ویں اسپیکر یوسف رضا گیلانی 17اکتوبر1993سے 16فروری 1997تک اس عہدے پر فائز رہے۔9جون1952میں کراچی میں پیدا ہونے والے یوسف رضا گیلانی ملتان منتقل ہوگئے تھے۔ 1976میں پنجاب یونی ورسٹی سے پولیٹیکل جرنلزم میں ماسٹرز کیا۔ 1978سے سیاسی سفر کا آغا ز کرنے والے گیلانی مارچ2008سے اپریل2012تک پاکستان کے وزیر اعظم بھی رہے۔مشرف دور میں انہیں کرپشن کے الزامات میں اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا۔

قومی اسمبلی کے16ویں اسپیکر الٰہی بخش سومرو 16فروری 1997 سے 20 اگست 2001تک اس عہدے پر فائز رہے۔الٰہی بخش سومرو کا تعلق شکارپور کے سیاسی اثرورسوخ کے حامل سومرو خاندان سے ہے جس نے مسلسل کئی سال سندھ پر حکومت کی۔ آپ پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پہلی مرتبہ وفاقی وزیر بنے۔ 1985ء میں بلامقابلہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1990 اور 1997ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1997ء میں قومی اسمبلی کے بطور اسپیکر بھی مقرر ہوئے۔

قومی اسمبلی کے 17ویں اسپیکر چوہدری امیر حسین 19نومبر2002سے19مارچ 2008تک اس عہدے پر فائز رہے۔22جون1942کو مقبوضہ جمو ں کشمیر میں پیدا ہونے والے امیر حسین پنجاب کے ایک گجر خاندان سے ہے۔ وہ 1985، 1988، 1990،1997تک مسلسل قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے رہے۔ پیشے کے لحاظ سے وہ سپریم کورٹ کے وکیل ہیں۔انہوں نے پنجاب یونی ورسٹی سے بی اے اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔وہ مختلف وفاقی وزارتوں پر بھی رہے۔2002 میںسیالکوٹ سے منتخب ہوئے۔ فروری 2008کے عام انتخابات میں انہیں شکست ہوئی۔

قومی اسمبلی کی 18ویں اور پہلی خاتون اسپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا تھی جو 19 مارچ 2008 سے تین جون 2013تک اسپیکر کے عہدے پر فائز رہی۔ آپ 2008 میں پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی اسپیکر مقرر ہوئیں۔ 1982سے لیاقت میڈیکل کالج جامشورو سے ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کا تعلق حیدرآباد کے ایک سیاسی گھرانے سے ہے۔ آپپانچ بار مسلسل عام انتخابات1997،2002 ، 2008،2013اور2018 میںکامیاب ہوئیں۔

قومی اسمبلی کے19ویں اسپیکر ایاز صادق ہیں۔ایاز صادق 2002، 2008، 2013 اور 2018کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرچکے ہیں۔لاہور سے تعلق رکھنے والے سردار ایاز صادق سترہ اکتوبر انیس سو چون میں پیدا ہوئے اور ایچی سن کالج سے ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے ہیلے کالج آف کامرس سے بی کام کی ڈگری حاصل کی۔پاکستان تحریک انصاف سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کرنے والے سردار ایاز صادق نے1998میں پی ٹی آئی کو خیر باد کہہ دیا اور 2001میں مسلم لیگ نواز میں شمولیت اختیار کی۔ ایاز صادق سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس سردار اقبال کے داماد ہیں۔ پیپلز پارٹی کے بانی رہنما ملک معراج خالد کے بعد دوسرے ا سپیکر قومی اسمبلی ہیں جن کا تعلق لاہور سے ہے۔2015میں عمران خان کی طرف سے ان کے حلقے میں دھاندلی کے الزامات کے بعد الیکشن کمیشن نے انہیں ڈی سیٹ کردیا۔تاہم اکتوبر2015میں ایاز صادق کو دوبارہ کامیاب قرار دیا گیا،اس عرصے کے دوران وہ اسپیکر نہیں تھے،اس دوران مرتضیٰ جاوید عباسی22اگست سے9 نو مبر2015تک اسپیکر رہے۔ ایاز صادق کی دوبارہ کامیابی کے نوٹیفیکیشن کے بعد9 نو مبر2015کو دوبارہ اسپیکر منتخب ہوئے اور یوں ان کو ایک ہی اسمبلی اور اسی حکومت میں دو بار اسپیکر منتخب ہونے کا اعزاز ملا۔

نوٹ: تاہم یہاں واضح کرنا ضروری ہے کہ اگر ترتیب کے لحاظ سے دیکھا جائے تو 20ویں اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی ہیں اور21ویں اسپیکر پھرایاز صادق ہیں۔ اس لحاظ سے اب15ویں قومی اسمبلی 22ویں اسپیکر کا انتخاب کرنے جارہی ہے۔

قومی اسمبلی کااسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر(آئین کاآرٹیکل 53)

جب عام انتخابات کا انعقاد ہوجاتا ہے تو قومی اسمبلی ایک اسپیکر اور ایک ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب اپنے پہلے ہی اجلاس میں کرتی ہے۔ ان دونوں عہدوں کے امیدواروں کا ممبر قومی اسمبلی ہونا ضروری ہوتا ہے۔ دونوں عہدے دار اپنا عہدہ سنبھالنے سے پہلے مقررہ الفاظ میں حلف اٹھاتے ہیں۔

اگر قومی اسمبلی میں اسپیکر حاضر نہ ہو تو پھر ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی صدارت کرتا ہے۔ بالفرض اگر اسپیکر قومی اسمبلی اور ڈپٹی اسپیکر بھی کسی وجہ سے یہ فریضہ ادا کرنے سے قاصر ہو تو پھر اسمبلی قواعد کے مطابق کوئی دوسرا رکن اسمبلی اسپیکر کے فرائض ادا کر سکتا ہے۔ مگر یہ ضرور ہے کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر اس اجلاس کی صدارت نہیں کرسکتے جس اجلاس میں خود اس کے خلاف برطرفی کی قرارداد زیر غور ہو۔ اگر اسپیکر اپنے فرائض سے سبکدوش ہونا چاہے تو وہ صدر مملکت کر تحریراً اپنا استعفیٰ پیش کر سکتا ہے مگر ڈپٹی اسپیکر اگر استعفیٰ دینا چاہے تو وہ اسپیکر قومی اسمبلی کو اپنا استعفیٰ دے کر اپنا عہدہ چھوڑ سکتا ہے۔

اسپیکر کے فرائض

مجلس قانون ساز اسمبلی میں اسپیکر کے روایتی فرائض کی بجا آوری قومی اسمبلی کے اسپیکر کے واسطے بھی ضروری ہے جو کہ کچھ اس طرح سے ہیں۔

قومی اسمبلی کے اجلاس کی صدارت اسپیکر کرتا ہے۔ ایوان میں نظم وضبط قائم رکھنا بھی اس کی ذمہ داری ہے اور نظم وضبط برقرار رکھنے کے سلسلہ میں اسے کافی وسیع اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کرنے والے ارکان اسمبلی کو وہ خبردار کرتا ہے اور اسمبلی کی کارروائی معطل یا ملتوی کرنے کا حکم دینے کا بھی مجاز ہوتا ہے۔

اسپیکر قومی اسمبلی ایوان کی کارروائی کے متعلق قواعد وضوابط کے نفاذ اور ان کی تشریح کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔ اسپیکر کی رولنگ ہر ہر ضابطہ کے متعلق حتمی ہوا کرتی ہے۔ اگر ایسے مسائل درپیش ہوں جن کے بارے میں قواعد موجود نہ ہوں تو اسپیکر قومی اسمبلی رواجات کو پیش نظر رکھتے ہوئے وہ مسائل حل کرتا ہے۔ پوائنٹ آف آرڈر پر فیصلہ دینے کا اختیار اسے حاصل ہوتا ہے۔ دوران اجلاس اسپیکر ایوان میں بحث وتمحیص کو پوری طرح سے کنٹرول کرتا ہے۔ وزیروں کے تمام سوالات اسپیکر کی وساطت سے ہی ہوتے ہیں۔ کوئی سوال اگر اسپیکر مسترد کرنا چاہے تو اسے سوال مسترد کرنے کا اختیار بھی حاصل ہوتا ہے۔ اسی کے حکم پر ہی کسی مسئلہ پر ایوان میں رائے شماری کی جا سکتی ہے اور رائے شماری کے نتائج کا اعلان بھی اسپیکر ہی کرتا ہے۔ اگر اسپیکر مناسب سمجھے تو غیر پارلیمانی الفاظ کو کارروائی میں سے حذف کرنے کا حکم بھی دے سکتا ہے اس کے علاوہ کسی بھی رکن اسمبلی کو قابل اعتراض تقریر سے روکنے کا مجاز ہے۔

قومی اسمبلی کے اسپیکر کو یہ انوکھا اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ اراکین کی طرف سے پیش کردہ ترامیم میں سے جسے چاہے ایوان کے سامنے پیش کرے۔ عموماً اسپیکر خود ہی ترامیم اسمبلی کے روبرو پیش کرتا ہے۔ کوئی بھی تحریک وہ منظور یا مسترد کر سکتا ہے۔ 1973ء کے آئین کی دفعہ 72 کی رو سے صدر مملکت، اسپیکر اور چیئرمین کے مشورے سے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے متعلق قواعد و ضوابط جاری کرسکتا ہے۔ یاد رہے کہ مشترکہ اجلاس کی صدارت بھی اسپیکر ہی کرتا ہے۔ آئین کی دفعہ 73 شق 5 کے تحت کسی مسودہ کو مالیاتی قرار دینے کا اختیار بھی اسپیکر کی طرف سے جاری کردہ ایک سرٹیفکیٹ منسوب کیا ہوتا ہے یہ سرٹیفکیٹ اس بات کی توثیق کرتا ہے کہ متعلقہ مسودہ مالی نوعیت رکھتا ہے۔ یہ سرٹیفکیٹ اسپیکر کی طرف سے جاری شدہ ہے۔ اس کی قانونی حیثیت کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ ہم مختصر الفاط میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی کے دوران اسپیکر مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔

غیر جانبداری کی روایات: عموماً اسپیکر کا عہدہ اعلیٰ روایات کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ اس عہدہ پر متعین ہونے سے پہلے گو کہ ایک شخص جماعتی سیاست میں کسی جماعت کا کافی ہم خیال ہوتا ہے۔ مگر اس کے اسپیکر منتخب ہونے کے بعد اس سے امید کی جاتی ہے۔ کہ وہ جماعتی سیاست میں حصہ کم ہی لے گا اگر چہ آئینی طور پر اس سے عملی سیاست سے دستبردار ہونے کی توقع نہیں کی جاتی۔ مگر عملاً اس سے امید کی جانی ہے کہ وہ ہر قسم کے پارٹی پروپیگنڈا سے احتراز کرنے اور ایسی رائے قائم کرنے سے گریز کرے جس رائے کے اظہار سے اس کی غیر جانبداری مشکوک ہوتی ہے۔

اسپیکر کی غیر جانبداری کے لئے آئین 1973ء میں شقیں شامل ہیں۔

1۔ اسپیکر کوکافی مراعات حاصل ہیں جن میں سرکاری رہائش گاہ، دیگر سہولیات کے ساتھ فراہم کی جاتی ہیں۔ اس کی تنخواہ وزیر مملکت کے برابر ہوتی ہے جس کی ادائیگی وفاقی اجتماعی فنڈ سے ہوتی ہے۔ تنخواہ اور دیگر مراعات میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے عہدہ پر فائز شخص کے لئے کمی نہیں کی جا سکتی۔ جب تک اس کا عہدہ ختم نہ ہو جائے اس سے اس کے عہدہ کی توقیر برقرار رکھی گئی ہے۔ بدیں وجہ اسپیکر اپنے عہدہ کے وقار کو ملحوظ رکھنے کی روایات کا پابند رہتا ہے۔

2۔اسپیکر کا عہدہ اس لحاظ سے بھی کافی مضبوط پوزیشن میں ہوتا ہے کہ اس کی برطرفی آسان نہیں ہوتی ،اس کو برطرف کرنے کیلئے لازمی ہے کہ قومی اسمبلی کی مجموعی تعداد میں سے نصف سے زیادہ ارکان اس کی برطرفی کی قرار داد کی منظوری دیں۔

3۔ عام حالات میں اسپیکر ایوان میں ہونے والی ووٹنگ (رائے شماری) میں شریک نہیں ہوتا ،وہ فقط ایسی صورت حال میں کاسٹنگ ووٹ استعمال میں لاسکتا ہے جب ایوان میں کسی مسئلہ پر موافقت اور مخالفت میں ووٹوں کی تعداد برابر ہو۔ ووٹنگ میں حصہ دار نہ ہونے کی بنا پر وہ باآسانی اپنی آئینی جانبداری برقرار رکھ سکتا ہے۔

خصوصیات: ایک مثالی اسپیکر میں بہت سی خصوصیات ہونی ضروری ہوتی ہیں۔ وہ ایک بڑے ایوان کے اجلاس کی صدارت کرتا ہے اور تمام مکاتب فکر کو اپنے طرز عمل کو اس کے مطابق ڈھالتا ہے ایک مثالی اسپیکر کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ ایوان کے اجتماعی احساسات ورجحانات کا اندازہ لگا کر اپنا طرز عمل اس کے مطابق ڈھال لیتا ہے۔ اس میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ متعلقہ فرائض ادا کرنے کا وسیع تجربہ اور مشاہدہ اس عہدے کی کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے۔ اسپیکر کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں سمجھ سکتا ہو اور اسے یہ احساس ہو کہ اسے ایک غیر جانبدار جج کی مثل اپنے فرائض ادا کرتے ہیں۔ اسپیکر کے لئے ضروری ہے کہ وہ موقع شناس بھی ہو مخصوص حالات میں وہ فیصلہ کر سکے کہ قواعد بااثر ہونے چاہیے تاکہ وہ اپنے اختیارات آزادی کے ساتھ اور موثر طور پر استعمال میں لاسکے مگر یہ بات نہایت ضروری ہے کہ اختیارات استعمال کرتے وقت وہ غیر جانبدار رہے، کیونکہ اس کا عہدہ اسی بات کا متقاضی ہے ایک عام سا فرد اس عہدہ پر فرائض بطریق احسن سر انجام نہیں دے سکتا۔

میعاد: اسپیکر قومی اسمبلی کا رکن ہوتا ہے اور جب تک قومی اسمبلی چاہے اس کو اس عہدہ پر برقرار رکھ سکتی ہے جب نئی اسمبلی منتخب ہوتی ہے تو وہ اسپیکر بھی نیا منتخب کر لیتی ہے ایک ہی شخص کئی بار اس عہدہ پر فائز ہو سکتا ہے نئی اسمبلی کے پہلے اجلاس کی صدارت بھی اسی کے فرائض میں شامل ہوتی ہے۔

اسپیکر کی نشست خالی ہونے کی چند صورتیں

قومی اسمبلی کی میعاد کی تکمیل سے پہلے بھی اسپیکر کو اس کے عہدہ سے الگ کیا جا سکتا ہے اسپیکر کی نشست خالی ہونے کی چند صورتیں اس طرح ہو سکتی ہیں۔

1۔ اگر اسپیکر استعفیٰ دے تو ایسی صورت میں وہ اپنا استعفیٰ صدر مملکت کو بھیجتا ہے۔

2۔ اگر اسپیکر انتقال کر جائے

3۔ اگر کسی وجہ سے اس کی قومی اسمبلی کی رکنیت کا خاتمہ کر دیا جائے۔

4۔اس کے علاوہ اسپیکر کے خلاف مواخذہ کی کارروائی ہو اور قومی اسمبلی میں اراکین کی اکثریت اس پر عدم اعتماد کا اظہار کر دے تو ایسی صورت میں اس اسپیکر اپنے عہدہ سے الگ ہو جاتا ہے جس وقت اسپیکر کے خلاف قومی اسمبلی میں قرارداد زیر غور ہو تو وہ خود اسمبلی کی صدارت کرنے کا اہل نہیں ہوتا۔

ارکان کا حلف (آئین کاآرٹیکل65)

کسی ایوان کے لئے منتخب شدہ کوئی شخص اس وقت تک نہ اپنی جگہ سنبھلے گا اور نہ ووٹ دے گا جب تک کہ وہ ایوان کے سامنے جدول سوم میں مندرج عبارت میں حلف نہ اٹھا لے۔ حلف اٹھائے بغیر کوئی منتخب رکن ایوان میں اپنے ووٹ کا حق استعمال نہیں کرسکے گا۔

قومی اسمبلی کی میعاد(آئین کاآرٹیکل 52)

قومی اسمبلی اگر قبل از وقت توڑ نہ دی جائے اپنے پہلے اجلاس کے دن سے پانچ سال کی میعاد تک برقرار رہے گی اور اپنی معیاد پوری ہونے پر ٹوٹے گی۔

پارلیمنٹ(مجلس شوریٰ) کا اجلاس طلب اور برخاست کرنا(آئین کاآرٹیکل 54)

1۔ صدر وقتاً فوقتاً کسی ایک ایوان یا دونوں ایوانوں کا یا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ایسے وقت اور مقام پر طلب کرسکے گا جسے وہ مناسب خیال کرے اور اسے برخاست بھی کرسکے گا۔

2۔قومی اسمبلی کے سالانہ کم از کم تین اجلاس ہوں گے اور اسمبلی کے ایک اجلاس کی آخری نشست اور دوسرے اجلاس کی پہلی نشست کے لیے مقرر کردہ تاریخ کے درمیان ایک سو بیس دن سے زیادہ وقفہ نہ ہوگا۔مگر شرط یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے ایام کار سے کم کے لیے اجلاس نہیں کرے گی۔ایام کار میں کوئی دن جب مشترکہ اجلاس ہو اور کوئی مدت جو دو دن سے زائد نہ ہو جس کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا جائے،اس میں شامل ہے۔

3۔قومی اسمبلی کی رکنیت کی کم سے کم ایک چوتھائی تعداد دستخطوں کے ذریعے قومی اسمبلی کے اسپیکر سے اجلاس بلانے کا مطالبہ کرے گی قومی اسمبلی کا اسپیکر ، مطالبے کی وصولی سے 14دن کے اندر ایسے وقت اور مقام پر اجلاس طلب کرے گا جسے وہ مناسب خیال کرے اور جب اسپیکر نے اسمبلی کا اجلاس طلب کیا ہو صرف وہی اسے برخاست کرے گا۔

اسمبلی میں رائے دہندگی اور کورم(آئین کاآرٹیکل55)

1۔ دستور کے تابع قومی اسمبلی کے تمام فیصلے حاضر اور ووٹ دینے والے ارکان کی اکثریت سے کئے جائیں گے لیکن صدارت کرنے والا شخص ووٹ نہیں دے گا سوائے اس صورت کہ ووٹ مساوی ہوں۔

2۔ اگر کسی قومی اسمبلی کے کسی اجلاس کے دوران صدارت کرنے والے شخص کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائی جائے کہ اسمبلی کی کل رکنیت ایک چوتھائی سے کم ارکان حاضر ہیں تو وہ یا تو اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردے گا یا اجلاس کو اس وقت تک کے لیے معطل کردے گا جب تک ایسی رکنیت کے کم سے کم ایک چوتھائی ارکان حاضر نہ ہوں۔

صدر کا خطاب(آئین کاآرٹیکل56)

1۔صدر کسی ایک ایوان یا یکجا دونوں ایوان ہائے سے خطاب کرسکے گا اور اس غرض کیلیے ارکان کو حاضری کا حکم دے سکے گا۔

2۔صدر کسی بھی ایوا ن کو خواہ پارلیمنٹ میں اس وقت تک زیر غور ہو کسی بل کی نسبت یا بصورت دیگر پیغامات بھیج سکے گا اور کوئی ایوان جسے کوئی پیغام بھیجا جائے تو مناسب مستعدی کے ساتھ کسی ایسے معاملہ پر غور کرے گا جس پر غور کرنے کے لئے پیغام کے ذریعے حکم دیا گیا ہو۔

3عام انتخابات کے بعد اسمبلی کے پہلے اجلاس سے اور پھر سالانہ ہر پہلے اجلاس کے آغاز پر صدر یکجا دونوں ایوان ہائے سے خطاب کرے گا اور پارلیمنٹ کو اس اجلاس کی طلبی کی وجوہ سے آگاہ کرے گا۔

4۔کسی ایوان کے ضابطہ کار اور اس کی کارروائی کے انصرام کو باضابطہ کرنے کے لئے قواعد میں صدر کے خطاب میں معاملات پر بحث کرنے کے لئے وقت کا تعین کرنے کے لیے حکم وضح کیا جائے گا۔

تازہ ترین