کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں ن لیگ کے رہنما رانا ثناء اللہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپوزیشن کا اتحاد جتنا موثر ہوگا اتنا ہی آصف زرداری کے لئے بہتر ہو گا۔ پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی کے تشدد سے متاثرہ شخص داؤد چوہان نے کہا کہ معاملہ اللہ اور اس کے بعد عمران خان پر چھوڑ دیا ہے سنا ہے کہ وہ سخت ایکشن لیتے ہیں۔وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ملک میں لاکھوں کیسز زیر التوا ہیں مگر کوئی جے آئی ٹی نہیں بنتی ۔رانا ثناء اللہ نے کہا کہ حکومتی اتحاد اسپیکر کے انتخاب میں پورازور لگانے کے باوجود درکار اکثریت سے صرف چار ووٹ زیادہ لے سکا ہے، حکومتی اتحاد چوں چوں کا مربہ ہے پی ٹی آئی کے علاوہ اتحاد میں شامل جماعتوں کے تین ، چار، پانچ ووٹوں سے زیادہ نہیں ہیں، ان میں سے کوئی پارٹی بھی اِدھر سے اُدھر ہوئی تو حکومت ڈراپ ہوجایا کرے گی، ہوسکتا ہے فی الوقت لوگوں کا ضمیر انگڑائی نہ لے کیونکہ انہیں شاید عہدوں کا لالچ ہو، ایک مہینے بعد جب عہدے تقسیم ہوجائیں گے تو ضمیر بھی انگڑائیاں لینا شروع کردیں گے۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کے مختلف ایشوز ہوتے ہیں، بعض معاملات پر اپوزیشن متحد تو بعض معاملات پر سب کی اپنی رائے ہوتی ہے، انتخابات میں دھاندلی اور انتخابی نتائج کومسترد کرنے پر تمام اپوزیشن متفق ہے، پیپلز پارٹی نے ہمیں کہا تھا کہ آپ کی تعداد زیادہ ہے وزارت عظمیٰ کا امیدو ا رآپ دیں، وزیراعظم کا امیدوار ن لیگ، اسپیکر کا امیدوار پیپلز پارٹی اور ڈپٹی اسپیکر کا امیدوار متحدہ مجلس عمل سے لینے کا طے ہوا تھا، ہر جماعت کو اپنے امیدوار کا فیصلہ خود کرنا تھا، ن لیگ میں پارٹی صدر کو وزیراعظم کے امیدوار کیلئے نامزد کرنے سے متعلق تذبذب تھا، خورشید شاہ اور یوسف رضا گیلانی نے شہباز شریف پر وزیراعظم کا امیدوار بننے کیلئے زور دیا تو ہم نے انہیں نامزد کردیا، اب پیپلز پارٹی کے مطابق آصف زرداری کہتے ہیں کہ شہباز شریف نے میر ے خلاف بہت سخت بیانات دیئے اس لئے میں ووٹ کاسٹ نہیں کروں گا یعنی پارٹی بھی ووٹ نہیں ڈالے گی، ن لیگ کیلئے پارٹی صدر کو وزیراعظم کا امیدوار نامزد کرنے کے بعد ان کا نام واپس لینا ممکن نہیں ہے، ن لیگ نے شہباز شریف کو وزیراعظم کا امیدوار نامزد کیا ہے اور ان کے ساتھ جائے گی،پیپلز پارٹی کو وزیراعظم کیلئے شہبازشریف کو ووٹ دینا چاہئے،اپوزیشن نے اکٹھے ہو کر یہ فیصلہ کیا جس کی انہیں لاج رکھنی چاہئے، ن لیگ کے وفد نے آصف زرداری سے ملاقات کیلئے وقت مانگا ہے، شہباز شریف نے ہی نہیں عمران خان نے بھی آصف زرداری کیخلاف سخت بیانات دیئے لیکن بعد میں دونوں نے ہاتھ ملالیے، پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے ایک دوسرے کے قائدین سے متعلق سخت بیانات دیئے ہوئے ہیں، فیصلے بیانات پر نہیں حالات کو پیش نظر رکھ کر کئے جاتے ہیں، آصف زرداری اس طرح جو رعایت چاہتے ہیں وہ انہیں نہیں ملے گی، اپوزیشن کا اتحاد جتنا موثر ہوگا اتنا ہی آصف زرداری کیلئے بہتر ہوگا، اس طرح راستہ تلاش کرنے کی کوشش بیکار ہے کیونکہ شاید راستہ نہ ملے۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ جو لوگ پارلیمنٹ میں عوامی مینڈیٹ کے بغیر کسی اور مینڈیٹ سے آئے ہیں وہ گھس بیٹھئے ہیں، ایسے لوگوں سے پارلیمنٹ کو پاک کرنے، صاف وشفاف انتخا با ت اور جمہوریت کو جمہوری و آئینی اصولوں پر آگے بڑھا نے کیلئے جدوجہد کررہے ہیں، اس میں کون ہمارا ساتھ دیتا ہے یا نہیں دیتا یہ ان کی اپنی پالیسی ہے، اپوزیشن جتنا بھی ہمارے ساتھ چلے ان کا شکریہ بھی ادا کریں گے۔ وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ پاناما کیس میں نواز شریف نے جے آئی ٹی بنانے پرا عتراض نہیں کیا جس میں ایجنسی کے افسران بھی شامل تھے، اس طرح کے کیسوں میں جے آئی ٹی بننے سے اعتراض اٹھتے ہیں کہ ملک میں لاکھوں کیسز زیرالتوا ہیں مگر ان میں کوئی جے آئی ٹی نہیں بنتی، ایک یا دو مخصوص کیسوں میں جے آئی ٹی بن جائے تو مناسب نہیں لگتا ہے، قانون کے سامنے عام اور خاص کیسوں کی تفریق نہیں ہوتی ہے، معاملات کو سسٹم کے تحت نہیں چلائیں گے تو یہ بانجھ ہوجائے گا، بعض حلقوں سے اعتراض آسکتا ہے کہ پاناما کیس میں جے آئی ٹی بنی تھی تو جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں بھی بننی چاہئے اور جس طرح پاناما جے آئی ٹی میں ایجنسیوں کے لوگ شامل تھے جعلی اکاؤنٹس کیس جیسے بڑے کیسوں میں بھی ایجنسیوں کے افسران شامل ہونے چاہئیں۔ پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی کے تشدد سے متاثرہ شخص داؤد چوہان نے کہا کہ جب یہ واقعہ پیش آیا تو میں اسپتال جارہا تھا، میری گاڑی ایک دوسری گاڑی سے ہلکی سی ٹچ ہوئی تھی، ان صاحب نے اتر کر اپنی گاڑی دیکھی اور مجھے دیکھ کر گاڑی چلانے کو کہا اور پھرآگے چلے گئے، اس کے بعد جو کچھ ہوا اس سے بہت زیادہ ڈ سٹر ب تھا، مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ مجھ سے کیا ہوگیا ہے، میں تھپڑ کھانے کے بعد بھی مسلسل پوچھ رہا تھا کہ آپ کون ہیں، میں اس وقت کوئی غلط بات کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں تھا کیو نکہ میرے ساتھ چار بچے تھے جس میں سب سے چھوٹے بچے کی عمر ساڑھے تین سال اور بڑے بچے کی عمر چھ سال ہے، فردوس نقوی اور نجیب ہارون مجھے جانتے ہیں انہوں نے ویڈیو دیکھ کر مجھ سے رابطہ کیا اوربہت زیادہ افسوس کا اظہار کیا، عمران اسماعیل نے بھی بہت افسوس کا اظہار کیا اور بہت دیر مجھے فون پر سمجھایا۔