قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے نامزد کردہ سپیکر اسد قیصر کی کامیابی پر ایوان میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی جانب سے جو ہنگامہ آرائی ہوئی وہ پہلے سے طے شدہ حکمت عملی کے تحت تھی یا مسلم لیگ (ن) نے اپوزیشن کے متفقہ امیدوار سید خورشید شاہ سے اتنی توقعات وابستہ کرلی تھیں کہ اس کا شدید ردّعمل سامنے دیکھنے میں آیا۔ یہاں یہ بات بھی غیر معمولی نظر آتی تھی کہ شکست پاکستان پیپلزپارٹی کے سید خورشید شاہ کو ہوئی تھی اور ایوان میں احتجاج مسلم لیگ (ن) کے اراکین کررہے تھے ۔اس بحث سے قطع نظر اس موقع پر جو کچھ ہوا وہ کسی طور پر بھی مناسب نہیں تھا اور اس ساری صورتحال نے اس پارلیمانی ماحول کو گہنا دیا جو قومی اسمبلی کے ارکان کی حلف برداری کے موقع پر دیکھنے میں آیا تھا۔ بہرحال اس بدمزگی کا اب کیا ذکر۔۔اُسی خوشگوار ماحول کا ذکر کیا جائے جو حلف برداری کے موقع پر تھا۔
ملک میں سابقہ دو جمہوری ادوار کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے جس باوقار اور خوشگوار ماحول میں قومی اسمبلی کے منتخب اراکین نے جن میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندےشامل تھے ایوان کی رکنیت کا حلف اٹھایا اورافہام وتفہیم کی فضا میں جن پارلیمانی روایات اور اخلاقی اور سماجی روایات کی پاسداری کی وہ ہراعتبار سے جمہوریت کے لیے خوش آئند ہے وہ ارکان جنہیں ان کی شکست خوردہ اور ناراض قیادت نے حلف نہ اٹھانے یاایوان میں نہ جانے کا پہلے حکم دیا اور پھر ہدایت کی وہ بھی ایوان میں موجود تھے اپوزیشن کے جن ارکان کو بطور خاص کالی پٹیاں فراہم کی گئی تھیں کہ وہ ایوان میں اپنے بازئوں پر یہ پٹیاں باندھ کر انتخابات میں دھاندلی کے خلاف علامتی احتجاج کریں انہوں نے یہ کالی پٹیاں بازوں پر باندھنے کی بجائے لپیٹ کرجیب میں رکھ لیں اور انتخابی نتائج پر دھاندلی کا طوفان اٹھا دینےوالی جماعتوں کے اراکین حلف برداری کے افتتاحی اجلاس میں انتہائی خوش و خرم، ہشاش بشاش اپنے سیاسی مخالفین سے بھی معانقے کرتے، مصافحے کرتے نظر آرہے تھے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ملک میں جمہوریت کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت سازی کے لیے پہلا مرحلہ یعنی اراکین کی حلف برداری پاکستان کے یوم آزادی کی سالگرہ14اگست سے محض ایک دن پہلے ہوا اور اس طرح بقول تحریک انصاف نئے پاکستان کا آغاز بھی ایک تاریخی موقعہ پر ہو رہا ہے۔ اس بات پر بھی حیرت کا اظہار یا استفسارات کرنے کی بجائے کہ جو جماعتیں اور ارکان انتخابات میں دھاندلی کے خلاف مسلسل شور و غوغا ٹی۔وی ٹاک شوز میں آہ و بکا اور احتجاج کررہے تھے انہوں نے قومی اسمبلی کے ایوان میں اس حوالے سے خاموشی کیوں اختیار کی ہوئی تھی؟ ان کے اس شائستہ طرز عمل پر ان کےتحمل یا حکمت عملی کی ہی سہی لیکن تعریف کرنی چاہیے کیونکہ ان کے اس طرز عمل کے باعث ہی پورے پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بیرون ممالک بھی پاکستان میں جمہوریت کے حوالے سے ایک مثبت پیغام گیا ہے۔ قومی اسمبلی کے موجودہ ایوان میں جہاں مولانافضل الرحمان، چوہدری نثار علی خان، محمود خان اچکزئی ( ان کے خیالات سے قطع نظر) سمیت متعددسینئر تجربہ کار اورآئین و قانون پر دسترس رکھنے والے پارلیمنٹرینز موجودہ ایوان میں موجود نہیں ہیں۔ لیکن سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، قومی اسمبلی کے سابق سپیکر سید فخرامام سمیت کئی نئے چہرے ایوان میں آئے ہیں جن میں سرفہرست پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور محترمہ بے نظیربھٹو کے صاحبزادے بلاول بھٹو میں شامل ہیں۔ ایوان کو پُرشوراورکارروائی کو ہنگامہ خیزبنانے والے مسلم لیگ(ن) کے دوارکان خواجہ سعد رفیق اور عابد شیر علی کی کمی بھی اس حوالے سے محسوس ہوگی تاہم دیکھنایہ ہوگا کہ پہلی مرتبہ قومی اسمبلی میں آنے والے پنجاب کے سابق وزیرقانون رانا ثنا اللہ اس کمی کو کس طرح پوراکرتے ہیں۔ لیکن خواجہ محمد آصف اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے بھی کئی ایسے مسلم لیگی ارکان کی کمی پوری کرنے کے لیے کافی ہیں۔
حلف برداری کے موقع پر ایوان میں دیکھے جانے والے بعض مناظر بالخصوص عمران خان کے آصف علی زرداری، بلاول بھٹو اور پیپلزپارٹی کے بعض دیگر راہنمائوں کے ساتھ مصافحوںنے کئی نئے مباحثوں، امکانات اور خدشات کوجنم دیاہے۔ قیاس کیاجارہاہے کہ باالخصوص قومی اسمبلی کے ایوان میں پاکستان پیپلزپارٹی کا کردار وہی ہوگا جو اس سے پہلے مسلم لیگ(ن) کی حکومت میں تھا یعنی ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘کاکیونکہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے ارکان آنے والے دنوں میں حکومتی بنچوں کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں لیکن یہ اسی صورتحال میں نتیجہ خیز اور مؤثر ثابت ہوگا جب ایوان کی تیسری بڑی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی ان کے ساتھ ہو اگر پیپلزپارٹی کے ارکان ایسے مرحلوں پر ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کا کردارادا کرتے ہوئے مسلم لیگ(ن) کا ساتھ دیتے ہیں تو اس کا فائدہ حکومتی جماعت یعنی پاکستان تحریک انصاف کو ہی جائے گا اس طرح جہاں ایوان میں پاکستان تحریک انصاف کو پیپلزپارٹی کی ضرورت ہے وہیں پیپلزپارٹی کو بعض معاملات میں حکومتی جماعت کی بالخصوص سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ، فریال تالپور پر منی لانڈرنگ اور بدعنوانیوں کے الزامات ہیں جبکہ آصف علی زرداری پر بعض ایسے سنگین الزامات بھی ہیں جن کا انکشاف عزیر بلوچ نے بھی کیا اور پھر تحقیقاتی اداروں نے تحقیقات کرنے کے بعد ان کی تعریف بھی کی اور ناقابل تردید شواہد بھی حاصل کر لیے۔
قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلزپارٹی کے ارکان کی تعداد کم سہی لیکن سینٹ میں بہرحال ایسا نہیں ہے اس لیے یہ کہاجاسکتا ہے کہ آصف علی زرداری اگر ایک بار پھر نئی حکومت میںصدرکا منصب حاصل کرنے کے خواب ہی نہیںدیکھ رہے بلکہ تعبیر حاصل کرنے کی بھی کوشش کررہے ہیں تو شاید غلط نہ ہو۔ ’’برسبیل تذکرہ یا ازرہ تفنن‘‘ یہ بات بھی درست ہے کہ مولانا فضل الرحمان بھی الیکشن سے پہلے اور بعد میں بھی اس جستجو میں مصروف رہے ہیں اور انہوں نے ابھی حوصلہ نہیں ہارا اور وہ بنوں کے ضمنی انتخابات لڑنے کی تیاریوں میں مصروف تھے تاہم اب انہوں نے ضمنی انتخاب میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیاہے۔لیکن وہ موجودہ وفاقی حکومت کے خلاف احتجاجی اور مزاحمتی سیاست کرکے اپنا سیاسی وزن ضروربڑھائیں گے تاہم آصف علی زرداری اس حوالے سے خاصے سنجیدہ ہیں حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپنی صحت کے پیش نظر وہ اب آرام کرتے اور بلاول کی راہنمائی کا فریضہ انجام دیتے لیکن بادی النظرمیں ان کی اس خواہش کی وجہ منصب کی شان و شوکت نہیں بلکہ وہ استثنیٰ حاصل کرنا ہے جو صدارت کے منصب پر متمکن ہو کر انہیں حاصل ہوجائے گا۔ پھر عدالتیں، نیب اور ایف آئی اے ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔
تین مرتبہ رہنے والے سابق وزیراعظم نواز شریف کو جو ان دنوں اپنی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کے ہمراہ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں اسیری کی زندگی گزار رہے ہیں ایک ماہ بعد انہیں جیل سے بکتر بند گاڑی میں جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں واقع احتساب عدالت میں لایا گیا۔ جب انہیں لندن سے وطن واپسی پر لاہور ایئر پورٹ سے گرفتار کرکے راولپنڈی اڈیالہ جیل میں منتقل کیا گیا تھا تو ابتدائی طور پر یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا یافتہ نواز شریف کے خلاف مقدمے کی سماعت جیل میں ہی لگائی جایا کرے گی جس پر اسے انتہائی اقدام قرار دیتے ہوئے غیر جانبدار حلقوں نے بھی اس فیصلے کی مذمت کی جس کے بعد نظرثانی کے بعد فیصلہ تبدیل کردیا گیا لیکن جس انداز سے پولیس، رینجرز اور ایلیٹ فورس کی گاڑیوں کے حصار میں احتساب عدالت لایا گیا اس طرح کے اقدامات تو کلبھوشن یادیو کو ایئرپورٹ سے اسلام آباد لائے جانے کے موقع پر بھی نہیں کئے گئےتھے۔ انہیں شدید گرمی اور حبس کے عالم میں بکتر بند گاڑی میں ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع احتساب عدالت میں لے جانا شاید تین مرتبہ ملک کے وزیراعظم کے ساتھ قدرے زیادتی ہے پھر عدالت تو کجا جوڈیشل کمپلیکس کے احاطے میں ہی میڈیا کے داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور پورے کمپلیکس میں کرفیو کا سا سماں تھا جس پر میڈیا کے نمائندوں نے شدید احتجاج بھی کیا۔
یہ سیاسی ’’طرہ امتیاز‘‘ پاکستان کو ہی حاصل ہے جہاں ملک میں عام انتخابات کے انعقاد سے قبل نگران حکومت قائم کی جاتی ہے اوریہ منفرد اعزاز بھی کہ انتخابات میں ایک امیدوار چار چار نشستوں پر الیکشن لڑتا ہے اور پھر ایک نشست اپنے پاس رکھ کر باقی پر دوبارہ ضمنی انتخابات ہوتا ہے جن پر خطیر رقوم کے اخراجات ہوتے ہیںاور متعلقہ علاقوں میں ایک بار پھر انتخابی ماحول سے نظام درہم برہم ہوجاتا ہے اس ناپسندیدہ روایت کے تحت اب ملک بھر میں قومی اسمبلی کی 11نشستوں پر ضمنی انتخابات آئندہ دو ماہ کے دوران منعقد ہوں گے ان گیارہ نشستوں میں سے 9 نشستیں ایسی ہیں جن پر انتخابی امیدواروں نے اضافی طور پر الیکشن لڑ کر کامیابی حاصل کی تھی جنہیں اب واپس کردیاگیا ہے جبکہ دو نشستوں میں راولپنڈی کی NA 60 جس پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حنیف عباسی نااہل ہوگئے تھے اور فیصل آباد کے حلقے NA 103 جہاں امیدوار کے انتقال کے باعث انتخابات ملتوی ہوگئے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران ان امیدواروں میں سرفہرست ہیں جنہوں نے بیک وقت پانچ نشستوں سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور پانچوں پر کامیاب ہوکر پاکستان کی سیاست میں ایک منفرد ریکارڈ قائم کیا عمران خان نے میانوالی کی نشست اپنے پاس رکھی جبکہ بنوں، اسلام آباد، لاہور اور کراچی کی نشستیں واپس کر دیں۔ ضمنی انتخابات کا ماضی تو یہی ہے کہ یہ نشستیں حکومتی جماعت کو ہی واپس مل جاتی ہیں اس طرح یہ چار نشستیں بھی تحریک انصاف کے حصے میں ہی آئیں گی۔