• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے بین الاقوامی سطح پر بہت سے ممالک اور مختلف تنظیموں کے ساتھ دو طرفہ اور کثیر الجہتی بارآور تجارتی تعلقات چلے آرہے ہیں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن سمیت مختلف عالمی اور علاقائی تنظیموں کے توسط سے ہم رکن ممالک کے ساتھ سفارتی، تجارتی، ثقافتی سطحوں پر اہم رابطوں میں ہیں۔ اس کے باوجود بہت سے ممالک ایسے ہیں جن کے ساتھ موجودہ اور مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے تجارتی تعلقات قائم کرنا یا بڑھانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس حوالے سے متوقع وزیر خزانہ اسد عمر کا یہ بیان حوصلہ افزا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت دنیا کے اہم حصوں میں سرمایہ کاری کے لئے نئی حکمت عملی اپنائے گی۔ اس بیان کی روشنی میں مقتدر حلقوں کو سرجوڑ کر بیٹھنا چاہیئے اور خصوصاً اس ضمن میں عالمی منظر نامے کو ملحوظ رکھا جانا چاہیئے تاہم پاکستان ایسا ہی ایک بہت اچھا تجربہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد وجود میں آنے والی وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ کرچکا ہے جس میں اسے غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی اور آج سفارتی، تجارتی اور ثقافتی سطحوں پر تعلقات میں بہت مفید پیشرفت ہو چکی ہے سرمایہ کاری کے بعض قلیل المدتی اور طویل المدتی منصوبے اس کا بین ثبوت ہیں۔ بلاشبہ چین پاکستان کا دیرینہ اور اس وقت سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ دیگر ہمسایہ ممالک ایران، افغانستان اور بھارت کے ساتھ دو طرفہ تجارت ہو رہی ہے۔ روس کے ساتھ تیزی سے بڑھتے ہوئے دو طرفہ تعلقات ہمارے لئےانتہائی اہمیت کے حامل ہیں پاکستان کا برآمدی ڈھانچہ بلاشبہ انتہائی وسعت کا حامل ہے لیکن موثر منصوبہ بندی کے فقدان اور بے ہنگم درآمدات نے قومی معیشت کو انتہائی نازک مقام پر لاکھڑا کیا ہے۔ ان حالات میں پی ٹی آئی کی حکومت پر جو بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے اس کے پیش نظر بلاتاخیر اور بلا تفریق ماہرین کو ایک میز پر لایاجانا چاہیئے اور سردست بڑھتی ہوئی مہنگائی کے طوفان سے قوم کو نکالا جائے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین