• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


دنیا کی ہر آزاد قوم اورآزاد ملک کی شناخت دو امور سے ہوتی ہے ۔ایک اس کا قومی پرچم اور دوسرا اس کا قومی ترانہ ، یہ دونوں امورملک و قوم کی آزادی، اس کی عزت و حرمت اور نظر یہ حیات کی علامت سمجھی جاتی ہیں ۔

جب بھی ہمارے قومی ترانے کی دھن پر قومی پرچم لہرایاجاتاہے تو ہم سب احتراماً کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کے قومی ترانے کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی دھن پہلے منظور ہوئی بعد میں اس کو لکھا گیا ۔۔14 اگست 1947 کو جب پاکستان قائم  ہوا تو اس وقت اس کا اپناقومی ترانہ نہیں تھا ۔ہمارا قومی ترانہ کس طرح تیار کیا گیا  اور اسے مکمل کرنے میں کس کس نے اپنا کردار ادا کیا آئیے نظر ڈالتے ہیں ۔

ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی ایماء پر 1949 میں قومی ترانہ تیارکرنے کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی ،کمیٹی کا پہلا اجلاس یکم مارچ 1949 کو کراچی میں سردار عبدالرب نشتر مرحوم کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا۔جس کے بعد اخبارات کے ذریعے اعلان کیا گیا ، ملک کے شعراء اور موسیقار حضرات کو قومی ترانہ لکھنے اور اس کی دھن ترتیب دینے کی دعوت دی گئی ۔

اس دعوت عام کے نتیجے میں ترانہ کمیٹی کو سینکڑوں ترانے موصول ہوئے ، کمیٹی کا دوسرا اجلاس 4 جولائی 1949 کو کراچی میں منعقد ہوا۔جس میں موصول ہونے والے تمام قومی ترانوں کا جائزہ لیا گیا مگر کوئی بھی ترانہ کمیٹی کے  وضع کردہ معیار پر پورا نہیں اترا۔

قومی ترانے کی دھن :

قومی ترانے کی اس کمیٹی کے اجلاس میں دو ذیلی کمیٹیاں بنائی گئیں ۔ایک کو ترانے کے بول لکھوانے اور دوسری کمیٹی کو اس کی دھن تیار کرنے کا کام سونپا گیا ۔ کچھ عرصے کی کاوشوں کے بعداحمد جی چھاگلہ سے ترانے کی ایک دھن بنوائی گئی ۔احمد جی چھاگلہ ایک تجربے کار موسیقار تھے ، وہ قومی ترانے کی اہمیت اور اس کے جملہ تقاضوں کو خوب سمجھتے تھے ۔

قومی ترانے کی کمیٹی کا تیسرا اجلاس 23 اگست 1949 کو ہوا جس میں چھاگلہ صاحب کی بنائی ہوئی دھن کو کمیٹی کے سامنے پیش کیا گیا ، جسے کمیٹی نے بغیر کسی اختلاف رائے کے منظور کرلیا ۔ قومی ترانے کی دھن کی تشکیل کا ایک مرحلہ مکمل ہوا۔اس دھن کو ریڈیو پاکستان میں بہرام رستم جی نے اپنے پیانو پر بجاکر ریکارڈ کروایا تھا ۔ قومی ترانے کی اس دھن کا دورانیہ اسی سیکنڈ تھا اور اسے بجانے میں اکیس آلات موسیقی اور 38 ساز استعمال ہوئے تھے ۔

قومی ترانے کی شاعری :

اب اگلا مرحلہ اس دھن کے حوالے سے الفاظ کے چنائو کا تھا ، پاکستان کے قومی ترانے کا خالق بننا بھی ایک بہت بڑا اعزاز تھا ہر شاعر کی یہ خواہش تھی کہ قومی ترانے کی شاعری کا اعزاز اسے حاصل ہوجائے ۔کمیٹی نے ملک کے تمام نامور شعرا ئے کرام کو ترانے کی دھن بھجوائی اور ہر رات ایک مخصوص وقت پر ریڈیو پاکستان سے اس ترانے کی دھن نشر کرنے کا اہتمام بھی کیا گیا تاکہ وہ اس کی دھن سے ہم آہنگ ترانہ تحریر کرسکیں ۔

قومی ترانہ کمیٹی کو مجموعی طور پر 723 ترانے موصول ہوئے ان ترانوں میں سے کمیٹی کو جو ترانے پسند آئے وہ حفیظ جالندھری ، حکیم احمد شجاع اور زیڈ اے بخاری کے لکھے ہوئے تھے ۔4 اگست 1954 کو پاکستان کی مرکزی کابینہ نے حفیظ جالندھری کے لکھے ہوئے ترانے کو پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر منظور کرلیا۔ 13 اگست 1954 کو یہ ترانہ پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا اور یوں دنیا کے قومی ترانوں میں ایک خوب صورت اضافہ ہوگیا ۔پاکستان کے قومی ترانے کی دھن کو پہلی مرتبہ یکم مارچ 1950 کو پاکستان میں ایران کے سربراہ مملکت کی آمد پر بجایا گیا تھا ۔

قومی ترانے کی تشریح:

ہمارا قومی ترانہ کل تین بندوں پر مشتمل ہے اور ہر بند میں پانچ مصرعے ہیں ،اس طرح پورا ترانہ پندرہ مصرعوں پر مشتمل ہے ۔تمام مصرعے عام نظموں کے مصرعوں کی طرح ایک جیسے نہیں ، بلکہ چھوٹے بڑے ہیں ، کیونکہ اصل مقصد شاعری کےاصولوں پر چلنا نہیں بلکہ موسیقی کے تقاضوں کو پورا کرنا تھا اور دھن کے اتار چڑھائو ، موسیقی کے بہائو اور ٹہرائو کے ساتھ ساتھ لفظوں کا  ساتھ ملنا بھی ضروری ہے ۔اگر اس کا لحاظ نہ رکھا جاتا تو ترانے کی دھن بے مزہ سپاٹ اور جوش و جذبہ سے خالی ہوجاتی ۔

اس ترانے میں چھاگلہ صاحب نے کل اڑتالیس ساز استعمال کیے اور اسے گیارہ فنکاروں نے مل کر گایا ۔اس کا کل دورانیہ ایک منٹ بیس سیکنڈ ہے ۔قومی ترانے کے تین بند ہیں ۔ ۔پہلے بندمیں ہمارے اس عزم ویقین کی نشاندہی کی گئی ہے ، جو قیام پاکستان کی روح ہے ۔

قومی ترانے کے دوسر ےحصے یا بند میں ہماری اسلامی اخوت، قومی یکجہتی اور اس ملی اتحاد کی نشاندہی کی گئی ہے جو ہمارے ملکی و قومی نظام کی بنیاد اور ہماری قوت و توانائی کا سر چشمہ ہے ۔ تیسرے بند میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہمارا چاند ستارے والا پرچم، ہمارے شاندار ماضی ، روشن حال اور تابناک مستقبل کی نشاندہی کرتاہے ، یہ پرچم ہمارے سروں پر اللہ تعالی کی رحمتوں کا سایہ ہے ۔اگر ہم نے اس کو سر بلند رکھا تو ہم ترقی کرتے رہیں گے اور منزل کمال تک پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔

تازہ ترین