• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نومنتخب وزیراعظم پاکستان عمران خان نے عہدہ سنبھالنے کے بعد چھٹی (اتوار) کے روز قوم سے ایک گھنٹہ نو منٹ کا پہلا خطاب کیا۔ طویل خطاب میں ملک کو درپیش چیلنجز اور مشکلات کا تفصیلی ذکر توکیا تاہم اپنے ہی اعلان کردہ 100دن کےپلان کا ذکر تک نہ کیا، جس میں تمام قرضوں سےمکمل نجات، ایک کروڑ نوکریوں کی فراہمی اور 50لاکھ مکانات کی فوری تعمیر سمیت کئی ناقابل یقین دعوے اور وعدے شامل تھے۔ نئے پاکستان کے نئے وزیراعظم نے پرانے چہروں والی نئی مشاورتی ٹیم کا تیار کردہ آئندہ پانچ سالہ منصوبہ پیش کردیا جس میں وطن عزیز کو تمام بحرانوں سے نکالنے کی ڈیڑھ سے دو درجن نکات پر مشتمل جادوئی حکمت عملی شامل ہے۔ خان صاحب نے خطاب کے دوران قوم سے بار بار ساتھ دینے کی یقین دہانی حاصل کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہی پرانے چہروں نے اپنی مہارت سےسابق آمر کو بھی نجات دہندہ ثابت کرنے کیلئے ایسی ہی انقلابی تقریر لکھ کر دی تھی لیکن قوم ایک عرصے تک دہائی ہی دیتی رہی۔ اس مرتبہ اس بیانیہ کی جھلک ذرا مختلف اس لئے بھی لگ رہی ہے کہ اس میں منتخب وزیراعظم کی 22 سالہ طویل سیاسی، جمہوری اور احتجاجی جدو جہد کا جذباتی تڑکا بھی شامل ہے۔ کرپشن، بدعنوانی، اقربا پروری، دھوکے بازی، غربت، عدم مساوات اور دہشت گردی سے دل برداشتہ تو ہے لیکن اب دیکھنا ہے کہ وہ ان دل کو چھو لینے والے الفاظ کا کتنا اثر لیتی ہے اور تبدیلی کیلئے کتنا ساتھ دیتی ہے؟ میری ذاتی رائے میں موجودہ حالات میں یہ ایک وعدوں اور دعوئوں سے بھری تقریر ہے جو کسی آئیڈیل معاشرے کے قیام کے حوالے سے انقلابی سوچ کہلا سکتی ہے تاہم خان صاحب کی موجودہ ٹیم کے ساتھ اس کے کسی ایک نکتے پر عمل کرنا اور اہداف کا حصول بہت بڑا چیلنج ہوگا کیونکہ خان صاحب کے مخاطبین میں زیادہ بڑی تعداد تو ان کے اپنے ’’حامیوں‘‘ اور جماعت کے ’’قیمتی اثاثوں‘‘ کی ہے جو اس قوم اور نظام کو اپنا تابع رکھنے کیلئے سب کچھ کرتے رہے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں جس کے بغیر چلنا ان کیلئے محال ہی نہیں ناممکن ہے، گویا خان صاحب کو اقتدار میں لانے کے دعویدار ’’اہل و نااہل‘‘ طاقتور عناصر راستہ صاف کرنے کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتے۔ کمال یہ ہے کہ خان صاحب نے تبدیلی کی خاطر ملک و قوم کی تباہی کے ان ذمہ داروں کے خلاف طمطراق کے ساتھ طبل جنگ بجا کر اپنی سیاسی اننگز کا پہلا وار کردیا ہے جس میں وہ کامیاب ہوگئے تو امر ہو جائیں گے۔ قارئین کرام، انگنت خوش کن اور حیران کن دعوئوں کے درمیان ایک بات جو شاید پہلےاہم ترین خطاب کاڈرا بیک اور مایوس کن پہلو ہوسکتی ہے وہ بطور چیف ایگزیکٹو ملک کے تین بڑے چیلنجز کا ذکر نہ کرنا ہے، جس میں توانائی کا بحران، دہشت گردی و انتہاپسندی کے خطرات سے نمٹنے کی حکمت عملی، خارجہ پالیسی بالخصوص ہمسایہ ملکوں بھارت و افغانستان سمیت امریکہ اور اقوام عالم سےتعلقات کی نئی جہت کا تعین شامل ہے۔ نئے وزیراعظم کے کئی ایک خوش کن اعلانات میں سادگی کی خاطر خود کو وزیراعظم ہائوس اور گورنرز کو گورنر ہائوسز سےنکال باہر کرنا، صرف دو گاڑیاں اور 2ملازم رکھنے اور بلٹ پروف گاڑیوں کے نیلام کا وعدہ شامل ہے، 28ہزار ارب ڈالر کے بھاری قرضے کا ذکر کیا تاہم اتارنے کا حل بتانے کا وعدہ پورا نہ کیا۔ کرپشن کے خاتمے کیلئے نشاندہی کرنے والوں کو واپس ملنے والی رقم کا 25فیصد دینے کا اعلان خطرناک اور پریشان کن صورت حال کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ پولیس کے نظام شفافیت، انصاف کی فوری اور سستی فراہمی، صاف پانی کی دستیابی، سرکاری اسکولوں، اسپتالوں، مدارس اور بلدیاتی نظام کی حالت بہتر بنانے کےدعوے بھی نئے نہیں۔ انسانی حقوق بالخصوص بچوں کو زیادتی کے واقعات سے بچائو کے اقدامات کا دعویٰ قابل تحسین ضرور ہے لیکن لائحہ عمل کیا ہوگا؟ پانی کے مسئلے کی سنگینی اور بھاشا ڈیم بنانے کا اعادہ اچھی بات تاہم ایسا کر دکھانا ممکن کیسے ہوگا؟ مزید قرض یا کچھ اور؟

17 فیصد ڈائریکٹ ٹیکس دینے والے بے چار ے غریبوں کیساتھ ساتھ بےحال کسانوں کا ذکر بھی ہوا اور مزید ٹیکس لگانے کی بھی بات کی لیکن غریب امیر اور کاشت کار خوشحال کیسے ہوں گے اس کا فارمولا نہیں بتایا۔ پچھلی حکومت کے کئی مشیر جو اب کی بار بھی اپنی روایتی سروس جاری رکھتے ہوئے سول سروسز اسٹرکچر ریفارمز کا مشورہ دے رہےہیں، ٹھوس اور قابل حل طریقہ کار بتانے کی بجائے خان صاحب کو بیوروکریسی سے ہی ڈرا رہے ہیں اور اشارہ دے رہے ہیں کہ ان کی عزت نہ کی تو آپ کی خیر نہیں۔ تقریر کے کچھ حصے ایسے ضرور ہیں جس سے عوام کا دل باغ باغ اور آنکھیں خواب خیرہ ضرور ہوگئیں اور وہ تھا پاکستان کے ’’بیچز‘‘ کو آباد کرنا۔ باقی رہ گئی بلوچستان، فاٹا، جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ کی محرومی کےمعاملات تو وہ ایسے نعرہ ہیں جس کی ہردور میں قمیت بڑھی ہے کبھی گھٹی نہیں سو اب بھی دعوے کردیئے گئے ہیں۔ پس عوام یاد رکھیں کہ اگلے پانچ سال میں سرسبز، گرمی و گندگی سے پاک اور یورپ سے صاف پاکستان پرانے پاکستان کی جگہ لے گا اور پاکستانیوں کو اپنی زکوۃ امریکیوں اور مشرق وسطیٰ کےممالک کو بھجوانے کا انتظام بھی کرنا ہوگا.....!

عمران خان کی پہلی زبردست تقریر کا اندرون و بیرون ملک مقیم ہم وطنوں نے خیرمقدم تو کیا ہے اب انہیں نئے پاکستان کے خواب تعبیر کے لئے کسی ٹھوس لائحہ عمل یا قابل عمل طریقہ کار کا انتظار ہے۔ سیاسی مخالفین تو اس کو مشرف کی مارشلائی جمہوری ایجنڈے کی فوٹو کاپی قرار دے رہے ہیں جس پر عملی جامہ پہنانے کیلئے نظر انتخاب بھی نظریاتی کارکنوں کی بجائے انہی چہروں کو وفاقی کابینہ کا حصہ بنانے کی صورت میں بےنقاب ہوچکی ہے۔ نقاد تو ابھی سنجرانی فارمولے کو نہیں بھولے تھے کہ انہیں اسپیکر قومی اسمبلی،گورنر و وزیراعلیٰ کے پی اور اب پنجاب کے وزارت اعلیٰ جیسے اہم ترین منصب کے لئے ’’شخصیات‘‘ کے چنائو میں خان صاحب کے وژن کو سر پکڑ کر ’’داد‘‘ دینی پڑ گئی۔ انہیں شاید خان صاحب کی غیرملکی تعلیم و تہذیب یافتہ اور قابل نوجوانوں کو اقتدار سونپنے کی باتیں یاد آتی ہوں گی اور سوچتے ہوں گے کہ خان صاحب بھی کبھی نظریات کو اقتدار کی بکاو سیاست سےبالاتر قرار دیتے تھے!

قوم کو بڑے دعوئوں اور نئے وعدوں کےحوالے سے گمراہ کن پروپیگنڈے سےمتاثر ہوئے بغیر سوچنا اور یقین کرنا ہے کہ اب کی بار ناکامی آپشن نہیں لہٰذا پوری قوم کو جاگنا اور اپنے مستقبل کےبارے میں فکرمند ہونا ہوگا کہ وہ کیا کرسکتے ہیں؟ ملک و قوم کی ترقی اور فلاحی معاشرے کی تشکیل کیلئے ہر ایک خود کو بدلنے کا تہیہ کرنا ہوگا، اپنی ذات سے نکل کر دوسروں کی بہتری کیلئے خود کو تیار اور تبدیلی کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا، اپنے اندر جھانک کر ہر قسم کے لالچ کو ختم کرنے کی مقدور بھر کوشش کرنا ہوگی، صحت مند نظام زندگی اور عزت و تکریم کی بنیاد پر سماجی ماحول کی تعمیر کا آغاز جب تک ہم سب اپنی ذات سے شروع نہیں کریں گے انقلابی تبدیلی آسکتی ہے نہ کوئی وعدہ پورا ہوسکتا ہے اور نہ ہی مدینہ جیسی ریاست کی بنیاد رکھنے کا سنہری خواب پورا ہوسکتا ہے!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین