• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شفقت تنویر مرزا صاحب بھی چلے گئے۔ نرم لہجے میں مضبوط دلائل کے ساتھ بات کرنے والے مرزا صاحب ہمارے ان بزرگوں میں شامل تھے جن سے ہم زمانہ ٴ طالب علمی میں متاثر تھے۔ مجھے آج بھی لاہور میں مظہر علی خان صاحب کے ویکلی ویو پوائنٹ کا وہ دفتر یاد ہے جہاں شفقت تنویر مرزا صاحب، ایلس فیض، آئی اے رحمن، حسین نقی اورظفریاب احمدکے ساتھ کام کرتے تھے۔ ایک دن میرا دوست آغا نوید انگریزی میں کوئی مضمون لکھ کرلایا۔ ہم نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کی کینٹین پر بیٹھ کر اس مضمون پر تبادلہ خیال کیا۔ آغا نوید نے شاہی قلعے لاہور میں اپنے آپ پر کئے جانے والے ریاستی تشدد کے تناظرمیں جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف اپنی نفرت کااظہارکیا تھا۔اس نے یہ مضمون کئی اخبارات کو بھجوایا لیکن کہیں شائع نہ ہوا۔آخرکار اس نے یہ مضمون اردو سے انگریزی میں ترجمہ کیااور کچھ انگریزی اخبارات کوبھیجا لیکن پھر بھی شائع نہ ہوا۔ میں نے اسے مشورہ دیاکہ یہ مضمون ویوپوائنٹ کو دیتے ہیں شاید وہ شائع کردیں۔ آغا نوید نے جھٹ سے کہا کہ شفقت تنویر مرزا صاحب وہاں کام کرتے ہیں وہ ان کوجانتا تھا۔ ہم آغانوید کی موٹرسائیکل پرسوار ہو کر ریگل چوک لاہور کے قریب ویوپوائنٹ کے دفتر پہنچے۔ اس دفترمیں مکمل خاموشی تھی۔ سب لوگ سر جھکائے اپنا اپنا کام کرنے میں مگن تھے۔ ایک بڑے کمرے کے کونے میں شفقت تنویر مرزا بیٹھے تھے۔ ہمیں بڑی خوش دلی سے ملے اور آغا نوید سے اس کی ٹانگ کے زخموں کے بارے میں پوچھا۔ آغا نوید کو تحریک بحالی ٴ جمہوریت میں حصہ لینے کی پاداش میں شدید جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے باعث اس کی ایک ٹانگ بہت متاثر ہوئی تھی۔ مرزا صاحب نے پوچھا ٹانگ کا علاج کرا رہے ہو؟ آغا نوید نے کہا کہ علاج بہت مہنگا ہے۔ مرزا صاحب نے کہا کہ علاج تو کرانا ہوگا۔ اس بحث میں آغا نوید نے اپنا مضمون نکال کر مرزا صاحب کے سامنے رکھ دیا۔ مرزا صاحب نے بڑے غورسے مضمون پڑھا۔ آغا نوید کو کچھ تبدیلیاں تجویز کیں اور تاکید کی کہ جو سیاسی قیدی بدستور جیلوں میں ہیں ان کی رہائی کا مطالبہ بھی مضمون میں شامل کرو۔ ویوپوائنٹ کے دفتر سے واپسی پر ہم پاک ٹی ہاؤس میں رک گئے اور یہاں آغا نوید نے بتایا کہ شفقت تنویر مرزا کو 1978 میں صحافیوں کی تحریک کے دوران گرفتار کیا گیا تھا اور انہوں نے سنٹرل جیل کراچی، کوٹ لکھپت جیل لاہور اورسنٹرل جیل بہاولپور میں قید کاٹی۔ یہ سن کرمیرے دل میں مرزاصاحب کے لئے عزت مزید بڑھ گئی۔
1987 میں عملی صحافت میں قدم رکھا تو نثار عثمانی صاحب، احمد بشیرصاحب اور شفقت تنویر مرزا صاحب ہمارے آئیڈیل ہوا کرتے تھے۔عثمانی صاحب ہمیشہ مجھے زبان وبیان کی غلطیوں پرقابو پانے کے لئے کہتے۔ احمد بشیرصاحب آمریت کے خلاف خود بھی مردانہ وار لکھتے تھے اور ہم جیسوں کوبھی لڑنے مرنے پراکساتے جبکہ مرزا صاحب نرم لہجے میں مختلف کتابیں پڑھنے کی تاکیدکرتے اور کہتے کہ اگر اچھا صحافی یا لکھاری بنناہے تو اپنامطالعہ وسیع کرو۔ شفقت تنویر مرزا نے اپنی صحافت کاآغاز روزنامہ ”تعمیر“ راولپنڈی سے کیا تھا۔ 1956 میں وہ ریڈیوپاکستان سے وابستہ ہوگئے۔ 1958میں جنرل ایوب خان نے مارشل لا نافذ کیا تو مرزا صاحب اس مارشل لاکے خلاف بولنے والوں میں آگے آگے تھے لہٰذا انہیں ریڈیو پاکستان سے نکال دیاگیا۔ انہوں نے سول اینڈ ملٹری گزٹ کے علاوہ روزنامہ ”امروز“میں بھی کام کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ایوب خان کی وزارت ِ خارجہ چھوڑ کر پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی توکچھ عرصہ تو مرزا صاحب نے حنیف رامے کے ہفت روزہ ”نصرت“ میں پیپلزپارٹی کے حق میں مضامین لکھے۔ پھر رامے صاحب اور منوبھائی کے ساتھ مل کرروزنامہ ”مساوات“ شروع کیا۔ کچھ عرصے کے بعد اپنے پرانے اخبار ”امروز“ میں چلے گئے۔جنرل ضیاء الحق کے دورمیں انہیں ”امروز“ سے نکال دیا گیا تھا۔ ضیاء دور کے خاتمے کے بعد وہ پھر”امروز“ میں واپس آئے لیکن اس وقت تک یہ اخبار تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا تھا۔ پچھلے بیس سال سے شفقت تنویر مرزا ”ڈان“ میں کالم لکھ رہے تھے۔ انہوں نے اردو، انگریزی اور پنجابی زبان میں کئی کتابیں تحریر کیں۔ شاہ حسین پران کی کتاب کو ناقدین ایک شاہکار قرار دیتے ہیں۔مرزا صاحب ترجمے میں بہت مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے فرانسیسی دانشور ژاں پال سارتر کا اردو میں بہت خوبصورت ترجمہ کیا۔ مرزا صاحب تمام عمر پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے لئے کوشاں رہے لیکن دوسری زبانوں سے بھی محبت کرتے تھے۔ کچھ عرصے قبل ان سے جی ایم سید کی کتاب کا اردو سے انگریزی میں ترجمہ کرنے کی فرمائش کی گئی تو انہوں نے یہ فرمائش پوری کردی۔
شفقت تنویر مرزا نے اپنی جوانی پاکستان میں جمہوریت اور آزادی ٴ صحافت کے لئے جدوجہد میں گزار دی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور ِاقتدار میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب مرزا صاحب آزادی ٴ صحافت کے لئے جیل میں تھے۔ان کی اہلیہ تمکنت آرا جمہوریت کی خاطرجیل میں تھیں اور ان کی اکلوتی بیٹی کو قریبی عزیزو اقارب نے سنبھالا۔ آج کے کئی نوجوان صحافی اورٹی وی اینکرز شفقت تنویر مرزا صاحب کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ یہ وہ شخص تھا جس نے آمریت کی مخالفت کی تو 1958 میں نوکری سے نکال دیاگیا۔ ایک دفعہ پھر آمریت کی مخالفت کی تو 1978 میں انہیں جیل میں ڈال دیاگیا۔ قید و بند کی صعوبتوں کے باوجود مرزا صاحب جیسے بہادر صحافیوں نے کسی ڈکٹیٹر کے سامنے سر نہ جھکایا۔ آج پاکستان میں میڈیا کو جتنی بھی آزادی حاصل ہے اس آزادی کے پیچھے شفقت تنویر مرزا، نثار عثمانی، احمد بشیر اور بہت سے دیگر بزرگوں کی جدوجہد اور قربانیوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
پچھلے سال شفقت تنویر مرزا صاحب لنگز کینسر کا شکار ہوگئے۔ کچھ دوستوں نے علاج کے لئے حکومت سے رابطے کی تجویز پیش کی تو مرزا صاحب نے منع کر دیا۔ وہ آخری عمر میں بھکاری بننے کے لئے تیار نہ تھے۔ ایک دوست کو کہا کہ”امروز“ میں طویل عرصہ گزارنے کے باعث وزارت ِ اطلاعات کے ذمہ کچھ واجبات بنتے ہیں وہ ادا کردیئے جائیں تو قبول ہوگا کیونکہ ”امروز“ اور ”پاکستان ٹائمز“ نیشنل پریس ٹرسٹ کی ملکیت میں چلے گئے تھے۔ بدقسمتی سے مرزا صاحب کو یہ واجبات نہیں ملے۔ مرزا صاحب کو یہ واجبات اس لئے بھی نہیں ملے کہ آج کی پیپلزپارٹی نہ شفقت تنویر مرزا کو جانتی ہے نہ تمکنت آرا کو جانتی ہے۔ چند دن پہلے میں نے مرزا صاحب کے ایک قریبی عزیز سے کہا کہ ہم اپنے طور پرعلاج کا بندوبست کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جواب ملاکہ مرزا صاحب ہر قسم کی پیشکش ٹھکرا چکے ہیں۔ صرف اپنے واجبات مانگتے ہیں۔ نرم لہجے میں مضبوط دلائل کے ساتھ بات کرنے والے مرزا صاحب نے ایک موذی بیماری کا مقابلہ بڑی جرأت کے ساتھ کیااورحقدار ہونے کے باوجود سرکاری خرچ پرعلاج کے لئے کوئی فریاد نہیں کی۔ انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے انتہائی مشکل دور میں سچ بول کرجیل کی ہواکھائی، سچ بولنا آج بھی مشکل ہے لیکن اتنا مشکل نہیں جتنا مرزا صاحب کے لئے تھا۔ مرزا صاحب آپ ہمیشہ ہمیں یاد رہیں گے۔ آپ کی جدوجہد ہمارے لئے مشعل راہ رہے گی۔ تھینک یو مرزاصاحب!
تازہ ترین