• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بابا فرید شکر گنج کے سالانہ عرس کے محرم کے اوائل میں ہونے سے کچھ عجیب سا لگتا تھالیکن پھر جب ان کی زندگی کو تھوڑا گہرائی سے دیکھا تو پتہ چلا کہ ایک ایسا مردقلندر جس نے زندگی کو کربلا کا میدان سمجھ کر جیا ہو اس کا عرس عاشورے کے دنوں میں نہیں ہوگا تو کب ہوگا۔ انہی کا مصرع ”چنت کٹھولا وان دکھ برہ وچھاون لیف “ ( چنتا یاپریشانی میری چارپائی ہے جسے دکھوں کے بان سے بنا گیا ہے اور مسلسل درد ہجر میرا توشک (گدا)ہے“۔لاکھوں عقیدت مند عرس کے موقع پرجان کی بازی لگا کر بہشتی دروازے سے گزریں گے لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ جب بابا فرید نے اس جہان فانی کو الوداع کہا تو ان کی قبر پر چننے کیلئے اینٹیں بھی میسر نہیں تھیں۔ چنانچہ ان کی درگاہ کے دروازے سے اینٹیں اکھاڑ کر مزار بنایا گیا۔ یہ تھا اصلی مرد مومن اور خاک نشین درویش کا حاصل زندگی۔ بہشتی دروازہ تو بعد میں خواجہ نظام الدین اولیاء نے بنوایا تھا جن کو بابا فرید نے اپنے بیٹوں کی ناراضی کے باوجود اپنا جانشین بنایا تھا۔
بابا فرید جب ملتان کے ایک گاوٴں کھوتوال میں ایک امام مسجد کے گھر پیدا ہوئے ہوں گے تو کون جانتا تھا کہ یہ بچہ پنجابی اور سندھی کا اولین شاعر ہونے کے علاوہ ہندوستان کے روشن خیال روحانی سلسلہ چشتیہ کا ایسا تیسرا مرشد اعلیٰ ہوگا جس کے سامنے دہلی دربار کے امراء بھی جھکیں گے۔ بابافرید اپنے گھر سے ابتدائی تعلیم لیکر ملتان کے بہت بڑے مدرسے میں طالب علم تھے تو چشتیہ سلسلے کے دوسرے مرشد حضرت بختیار کاکی نے ان کے جوہر کو پہچانتے ہوئے حلقہ ارادت میں لے لیا۔ انہی کے مشورے پر بابا فرید افغانستان اور وسط ایشیا میں مطالعہ جہان میں پانچ سال مصروف رہے، واپس آکر کچھ دیر اپنے گاوٴں میں رہے اور چشتیہ سلسلے کی نظامت سنبھالنے تک جھانسی میں بیس سال رہے۔ مزید برآں ان کے بارے میں یہ کہنا قطعاً بے بنیاد ہے کہ انہوں نے ایک شہزادی سے شادی کی۔ تاریخی حوالوں کے مطابق انہوں نے پہلی شادی جھانسی میں کی جس سے ایک بیٹی پیدا ہوئی جو مشہور و معروف صوفی صابر کلیری سے بیاہی گئیں۔ آپ نے دوسری شادی پاکپتن میں کی اور تیسری اپنے ایک مرحوم خلیفہ کی بے پرسان حال بیوی سے۔ آپ کی اولاد میں پانچ بیٹے اور تین بیٹیوں کا ذکر آتا ہے۔
زندگی کے سفر میں حضرت بختیار الدین کاکی نے جب بابا فرید کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا تو ان کو جھانسی سے نقل مکانی کرکے دہلی جانا پڑا۔ روایت ہے کہ کچھ دیر وہاں رہنے کے بعد جب آپ ایک دن باہر گلی میں تشریف لے گئے تو جھانسی کے ایک خاک نشین نے آپ سے کہا کہ حضرت وہاں تو آپ کی روز زیارت ہو جاتی تھی لیکن یہاں دربان اندر ہی گھسنے نہیں دیتے۔ کہا جاتا ہے کہ اس واقعے کا آپ پر اتنا اثر ہوا کہ آپ نے دہلی چھوڑ کر چھوٹے سے شہر اجودھن (پاکپتن) میں ڈیرہ جما لیا۔ دلی کے شہرت و دبدبہ اور خوشحالی کو چھوڑ کر نیم صحرائی شہر پاکپتن میں جانے کا فیصلہ ایک مومن اور درویش ہی کر سکتا تھا۔دہلی چھوڑنے کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہاں کے شرفاء ملتان کے ایک دیہاتی کو مرشد اعلیٰ تسلیم نہ کرتے ہوئے سازشیں کر رہے تھے۔ بابا فرید چشتیہ سلسلے کے رہنما اپنی اہلیت کی بنا پر مقرر کئے گئے تھے جو دہلی کی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے چشتیوں کیلئے ہضم کرنا تھوڑا مشکل تھا۔ چشتیہ اور بہاؤ الدین ذکریا کے سہروردی سلسلے میں فرق ہی یہ تھا چشتیہ سربراہ اہلیت کی بنا پر اپنا جانشین مقرر کرتے تھے جبکہ سہروردیہ میں یہ وراثتی حق تھا۔ دونوں سلسلوں میں ایک اور بھی فرق تھا کہ چشتیہ درگاہوں پر ہر مذہب کے لوگ جاسکتے تھے جبکہ سہروردیہ اس کی اجازت نہیں دیتے تھے۔
اس پس منظر میں یہ سمجھنا آسان ہے کہ دلی کی پُرسازش فضاوٴں سے دور پاکپتن میں بھی آپ کی زندگی آسان نہ تھی، غرضیکہ آپ کوفے میں آگئے تھے۔ حضرت نظام الدین اولیاء کی ڈائری ”فوائد الفوائد“ ہی بابا فرید کی زندگی کے بارے میں واحد مستند ذریعہ ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ درگاہ پر جس دن ابلے ہوئے ڈیلوں (کریر کا پھل) میں نمک ہوتا تو وہ درویشوں کے لئے عید کے دن جیسا ہوتا تھا۔بابا فرید اپنے صاحب خانہ کو بھی درویشوں کا ہی کھانا کھلاتے تھے۔ انہوں نے اپنے ایک دوہے میں جس غربت اور امارت کے فرق کے بارے میں کہا ہے وہ ان کا اپنا ذاتی تجربہ بھی تھا کہ ”اکناں آٹا اگلّا اکناں ناہیں لون“ (کچھ کے پاس آٹے کے انبار ہیں اور کچھ کو نمک بھی میسر نہیں ہے)۔
معاشی تنگ دامانی کے ساتھ ساتھ شہر کا حاکم اور قاضی آپ کے اتنے بڑے جانی دشمن تھے کہ انہوں نے سازشی طریقے سے ان کے سب سے چھوٹے بیٹے کو شہید کروا دیا تھا۔ قاضی نے اس زمانے کے تعلیمی مرکز ملتان کے علماء اور فقہاء کو لکھا کہ یہ کیسے پڑھے لکھے عالم ہیں جو مسجد میں بیٹھ کر گانا سنتے ہیں اور کبھی کبھی رقص بھی کرتے ہیں۔ جب ملتان میں یہ پتہ چلا کہ یہ بابا فرید کے بارے میں کہا جا رہا ہے تو سب نے خاموشی اختیار کر لی۔ قاضی پھر بھی باز نہیں آیا اور آپ کے بیٹوں کو طرح طرح سے آزار دیتا رہا جس پر آپ کے بیٹے آپ سے شکایت کرتے تھے اور نالاں تھے۔ بابا فرید ان کو صبر کی تقلین کرتے کیونکہ ان کو علم تھا کہ عوام کے ساتھ بھی نہایت ظالمانہ سلوک کیا جاتاہے۔
میں جانیا دکھ مجھی کو دکھ سبھائے جگ
اوپر چڑھ کے ویکھیا گھر گھر ایہو اگ
(میں سمجھا تھا کہ میری ہی زندگی دکھی ہے لیکن جب اوپر چڑھ کر دیکھا تو ہر گھر میں یہی آگ نظر آئی)
چشتیہ سلسلے کا اپنے روحانی پیشواوٴں کے بارے میں اصول تھا کہ وہ آج کا جمع شدہ آج ہی صرف کریں گے اور کل کیلئے کچھ بچا کے رکھا نہیں جائے گا۔چنانچہ جب خواجہ نظام الدین اولیاء کا آخری وقت قریب آیا تو انہوں نے بیت المال کے انچارج سے پوچھا کہ کیا کچھ جمع ہے۔ جواب میں جب یہ بتایا گیا کہ درویشوں کیلئے چالیس دن کا غلہ وغیرہ ہے تو آپ بہت خفا ہوئے اور گلی میں جا کر اعلان کر دیا کہ یہ غلہ لوٹ لیا جائے۔خواجہ نظام الدین اولیاء نے تہی دستانہ روایت اپنے مرشد بابافرید سے ہی سیکھی تھی۔ آج ان کے مزار کے ساتھ ملحق گدی کی زمینیں ان کے پوتوں نے تغلق شاہی کا ساتھ دے کر لی تھیں، اپنی زندگی میں بابا فرید نے جاگیریں لینے سے صاف انکار کردیا تھا۔
ایک مرتبہ جب طغرل خان (جو بعد میں تغلق بادشاہ کہلایا) لشکر کے ساتھ ملتان جا رہا تھا تو اس نے پاکپتن کے قریب پڑاوٴ ڈالا۔ اس نے اپنے نمائندوں کے ذریعے نقدی اور کئی گاوٴں کی جاگیریں ان کو پیش کیں۔ بابا فرید نے یہ کہہ کر نقدی رکھ لی کہ یہ درویشوں کے کام آئے گی اور جاگیریں یہ کہہ کر لوٹا دیں کہ اس کے مجھ سے زیادہ دوسرے حقدار ہیں۔ طغرل خان کی فوج کے افسر اور سپاہی ان کی زیارت کے خواہاں تھے لیکن انہوں نے سرکاری افسروں سے ملنے سے انکار کر دیا۔ جب اصرار بڑھا تو بابا فرید کی قمیص کا دامن باہر دیوار سے لٹکا دیا گیا جسے فوجی بوسہ دیتے گزر جاتے۔ شام تک وہ کپڑا چیتھڑے بن چکا تھا۔اس موقع پر فوج کا ایک خاکروب کسی طرح سے اندر پہنچنے میں کامیاب ہو گیا اور اس نے کہا کہ ”حضرت آپ کو جو خدا نے دیا ہے اسے خلقت سے دور کیوں رکھتے ہیں“ بابا فرید نے اٹھ کر اسے گلے لگایا اور کہا کہ یہ پابندی تمہارے جیسے مسکینوں کیلئے نہیں ہے“۔
بابا فرید سے بہت سی ماورائی کہانیاں منسوب ہیں کہ وہ بارہ سال کوئیں میں لٹکے رہے یا اتنی ہی دیر جنگل میں لکڑی کو چبا کر زندہ رہے۔ غالباً عوام نے ان کے اس شعر سے یہ کہانی تخلیق کی ہے:
روٹی میری کاٹھ دی لاون مینڈی بھکھ
جنہاں کھاہدی چوپڑی گھنے سہن گے دُکھ
(میری روٹی لکڑی کی اور بھوک میرا سالن ہے۔ جو چُپڑی ہوئی کھا رہے ہیں آگے جا کر بڑے دکھ اٹھائیں گے)۔
تاریخ کا یہ پہلو بھی دلچسپ ہے کہ بابا فرید کا کلام ہم تک گرو گرنتھ صاحب کے ذریعے پہنچا ہے۔ بابا گورو نانک نے بابا فرید کے دوہے جمع کئے تھے جن کو گرو ارجن جی نے گرنتھ کا حصہ بنا دیا۔اب بھی گردواروں میں ”فرید بانی“ کا گا کر ورد کیا جاتا ہے۔ حیرت ہے کہ مسلمانوں میں بابا فرید کو ایک پیر کی حیثیت سے تو بہت بڑا مقام دیا گیا لیکن ان کی شاعرانہ عظمت کے بارے میں مکمل لاعلمی کا اظہار کیا گیا۔ آج بھی ان کے مزار پر دوسرے پنجابی و اردو شاعروں کا تو کلام گایا جاتا ہے لیکن نہیں گایا جاتا تو ان کا اپنا کلام !افسوس تو یہ ہے کہ بابا فرید کے دوہے عظیم شاعری کا نمونہ ہی نہیں بلکہ موسیقی کی بندشوں میں آ کر جو سماں پیدا کرتے ہیں وہ کم شاعروں کو ہی نصیب ہو سکتا ہے۔ بابا فرید کی شاعری کی لاانتہا فلسفیانہ، فنکارانہ اور سماجی جہتیں ہیں مثلاً وہ اپنے اردگرد کے معاشی، سیاسی اور سماجی نظام کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں”ویکھ فریدا جو تھیا سکر ہوئی وِس“ (فرید دیکھو کس طرح سے شکر میں زہر ملا دیا گیا ہے)۔ لیکن وہ نظام کی خرابیوں کو تقدیر کا لکھا سمجھنے کی بجائے انسانوں کے افعال کا نتیجہ مانتے تھے۔ اسی کو واضح کرنے کے لئے کہتے ہیں ”لوڑے داکھ بجوڑیاں ککر بیجے جٹ “ (جاٹ بو تو کیکر رہا ہے اور امید باجوڑ کے انگوروں کی کر رہا ہے)۔ اسی طرح انہوں نے معاشی استحصال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ فصلیں بوتے ہیں اور کچھ اس کو لوٹتے ہیں لیکن ان سب کے باوجود ان کا فلسفہ حیات یہ تھا کہ
فریدا برے دا بھلا کر، غصہ من نہ ہنڈائے (او فرید بُرے کا بھلا کرنا چاہئے تاکہ غصہ آپ کی روح کوہڑپ نہ لے) ۔
جیسا کہ شروع میں کہا گیا بابا فرید نے زندگی کو کربلا کا میدان سمجھ کر گزارا۔ ان کے اشعار سے واضح ہوتا ہے کہ زندگی میں شہرت، حسن اور دولت فانی ہیں، ان کے لئے مصلحتوں سے کام لینا عبث ہے:
جیں لوئن جگ موہیا سو لوئن میں ڈٹھ
کجل ریکھ نہ سہندیاں پنکھی سوئے بٹھ
(میں نے وہ آنکھیں دیکھی ہیں جنہوں نے ایک جہان کو مسحور کیا ہوا تھا اور جن کی آنکھیں کجلے کا ایک ذرہ بھی برداشت نہیں کرتی تھیں اور پھر انہیں آنکھوں پر پرندوں کو بیٹ گراتے بھی دیکھا)۔
اسی بے یقین دنیا میں غرور ، تکبر کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
فریدا خاک نہ نندئیے خاکو جیڈ نہ کو
جیوندیاں پیراں تھلے مویاں اوپر ہوئے
(او فرید خاک کو گھٹیا مت سمجھو کیونکہ یہی زندگی میں پاوٴں پر کھڑا ہونے کی قابل بناتی ہے اور موت کے بعد لباس کی طرح ڈھانپتی ہے)۔
تازہ ترین