عکّاسی:اسرائیل انصاری
فوری طور پر فارن کرنسی کے مسائل بہت اہم ہیں، اس کے لئے انٹرنیشنل اداروں سے بات چیت کے ساتھ دوست ممالک سے بھی رابطہ کرنا ہو گا، یہ شارٹ ٹرم پالیسی ہو گی۔ لانگ ٹرم میں برآمدات میں اضافہ کرنا ہو گا۔ غیرملکی ترسیلات زر پر فوکس کرنا ہو گا کہ ان میں نہ صرف اضافہ ہو بلکہ وہ بینکنگ چینل سے ملک میں آئیں۔ پاکستان کی امپورٹس بہت زیادہ ہیں، ہمیں ملک میں ان کے متبادل کی تیاری پر توجہ دینی ہو گی اس کے لئے مقامی اور بیرونی سرمایہ کاری کی ترغیب دینا ہوگی 50لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں کا دعویٰ بھی بہت بلند ہے، اس کے لئے صوبائی حکومتوں کو ساتھ لینا ہو گا، بیوروکریسی کو متحرک کرنا ہو گا، اس کے لئے سیاسی عزم کے ساتھ مہارت کی بھی ضرورت ہے، نئی حکومت کو چیلنجز بہت زیادہ ہیںپاکستان میں انڈسٹری کو بلند پیداواری لاگت کا سامنا ہے، خطے میں ہماری پیداواری لاگت سب سے زیادہ ہے جس کے باعث ہماری اشیاء عالمی مارکیٹ میں ان کا مقابلہ نہیں کر پاتیں
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہ پاکستانی معیشت پر بڑا بوجھ ہے۔ ان کی ایل سیز اور ترسیلات کے لئے اوپن مارکیٹ سے ڈالر خرید کر دیئے جاتے ہیں۔ اس کو روکنا ہو گا۔ اس سے ہمارا ہی ڈالر خرچ ہوتا ہے اور ہم کو امپورٹ ڈیوٹیز بھی نہیں ملتیں۔ اسی طرح انڈر انوائسنگ میں بھی ڈالر مارکیٹ سے خرید کر باہر بھیجے جاتے ہیں اور ڈیوٹی بھی نہیں ملتی۔ یہ چار پانچ بلین کا فرق ڈالتے ہیں جو پاکستان کو نہیں ملتا اور ان کی ڈیوٹیز بھی۔ اسی طرح بیرون ملک مقیم پاکستانی19ارب ڈالر ملک بھیجتے ہیں
فوری طور پر تو امپورٹ ڈیوٹی میں اضافہ کرنا ہو گا۔ تین سے چار بلین ڈالر امپورٹ بل کو کم کریں اور تین سے چار بلین ڈالر ایکسپورٹ میں اضافہ کریں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں اتنا ہی اضافہ ہو۔ اسی طرح ہم فوری طور پر اس بارہ بلین ڈالر کے گیپ کو پورا کر سکتے ہیں معیشت کے ایک بڑے حصے کو ٹیکس سے چھوٹ حاصل ہے۔ جب آپ اس20فیصد کو شامل کر لیں تو ٹیکس جی ڈی پی ریشو بڑھ جائے گا، پالیسی یہ ہونی چاہئے کہ جہاں انکم وہاں ٹیکس۔ دوسرا یہ کہ کچھ ایسے سیکٹرز ہیں جن پر ٹیکس ہے لیکن وہ وصول نہیں ہو رہا ہے۔ دکاندار، پروفیشنلز، کمیشن ایجنٹس وغیرہ کی اچھی آمدنی ہوتی ہے لیکن یہ ٹیکس میں حصہ نہیں ڈال رہے ہیں۔ تیسرا یہ کہ خود ایف بی آر میں کرپشن بہت ہے، وہ مک مکا کر کے بہت سی جگہوں سے ٹیکس وصول نہیں کرتے
پاکستان میں انتخابات کے بعد نئی حکومت کے قیام کا مرحلہ خوش اسلوبی سے مکمل ہو چکا ہے، نئے منتخب وزیراعظم عمران خان اپنی کابینہ کے ساتھ حکومتی فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے کئے گئے بلند بانگ دعوئوں کی گونج اب امید اور توقعات میں بدل چکی ہے۔ عوام اب نئی حکومت سے مسائل کا حل چاہتے ہیں، 100دن کے وعدے اور گیارہ نکاتی ایجنڈے کی روشنی میں وہ نئی حکومت سے بڑے فیصلوں کے منتظر ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کو ان دنوں بڑے معاشی مسائل کا سامنا ہے۔ بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ، قرضوں میں اضافہ، روپے کی گرتی ہوئی قدر، زرمبادلہ کے ذخائر، صنعت کاری اور نئی سرمایہ کاری میں رکاوٹیں، برآمدات میں اضافہ، پیداواری لاگت وہ اہم مسائل ہیں جو فوری طور پر حل طلب ہیں۔ یہ مسائل کیسے حل ہوں گے؟ نئی حکومت کی معاشی پالیسی کیا ہونی چاہئے؟ وہ انتخابی منشور پر کیسے عملدرآمد کریں گے؟ قوم کو عمران خان سے کیا توقعات ہیں اور وہ کیسے پوری ہوں گی۔ یہ سب جاننے کے لئے ہم نے عارف حبیب گروپ کے چیئرمین جناب عارف حبیب سے ایک خصوصی گفتگو کی جس کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔
جنگ:پاکستان میں ایک نئی سیاسی پارٹی نے حکومت بنائی ہے، عمران خان ورلڈ کپ کے فاتح اور اس کے قائد اب وزیراعظم ہیں۔ آپ اس تبدیلی کو کیسے دیکھتے ہیں اور آپ کو کیا امیدیں ہیں؟
عارف حبیب:یہ درست ہے کہ ماضی میں دو سیاسی پارٹیوں کی حکومتیں رہی ہیں، لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ اب کسی اور کو آزمانا چاہئے کیونکہ ان کے نزدیک ان کے مسائل حل نہیں ہو رہے تھے۔ اب عمران خان کو موقع ملا ہے اور لوگوں کی ان سے توقعات بھی بہت ہیں۔ انہوں نے وعدے بھی بہت کئے ہیں، ان کا سو دن کا ایجنڈا اور انتخابی منشور پر لوگوں کی نگاہیں ہیں۔
جنگ:معاشی لحاظ سے فوری طور پر توجہ طلب مسائل کون سے ہیں؟
عارف حبیب:فوری طور پر فارن کرنسی کے مسائل بہت اہم ہیں، اس کے لئے انٹرنیشنل اداروں سے بات چیت کے ساتھ دوست ممالک سے بھی رابطہ کرنا ہو گا، یہ شارٹ ٹرم پالیسی ہو گی۔ لانگ ٹرم میں برآمدات میں اضافہ کرنا ہو گا۔ غیرملکی ترسیلات زر پر فوکس کرنا ہو گا کہ ان میں نہ صرف اضافہ ہو بلکہ وہ بینکنگ چینل سے ملک میں آئیں۔ پاکستان کی امپورٹس بہت زیادہ ہیں، ہمیں ملک میں ان کے متبادل کی تیاری پر توجہ دینی ہو گی اس کے لئے مقامی اور بیرونی سرمایہ کاری کی ترغیب دینا ہوگی۔ یہ ناممکن نہیں ہے، پاکستان کی معیشت میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پیداواری لاگت میں کمی لائیں گے، اس کے لئے بجلی، گیس کی قیمتیں کرنا ہوں گی اور وسائل میں اضافہ کرنا ہو گا۔ 50لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں کا دعویٰ بھی بہت بلند ہے، اس کے لئے صوبائی حکومتوں کو ساتھ لینا ہو گا، بیوروکریسی کو متحرک کرنا ہو گا، اس کے لئے سیاسی عزم کے ساتھ مہارت کی بھی ضرورت ہے، نئی حکومت کو چیلنجز بہت زیادہ ہیں لیکن ناممکن نہیں ہے۔ یہ بھی کہنا ٹھیک نہیں ہے کہ آتے ہی بٹن دبا کر یہ مسائل حل ہو جائیں گے، ٹائم لگے گا لیکن سمت اگر درست ہو تو حوصلہ پیدا ہو گا کہ چیزیں بہتری کی طرف گامزن ہیں، نیا چہرہ ہے تو لوگ وقت بھی دیں گے اور سپورٹ بھی کریں گے، عالمی سطح پر بھی پذیرائی ملے گی۔ پاکستان کو علاقائی تعاون اور بڑی طاقتوں کے ساتھ مل کر چلنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان، ایران، بھارت، امریکا کے ساتھ بہتر تعلقات ملک کے لئے مفید ثابت ہوں گے جس کا وعدہ بھی انہوں نے کیا ہے۔
جنگ:فنانس منسٹر اسد عمر ہیں، ان سے کوئی خاص توقع آپ کو؟
عارف حبیب:اسد عمر معاشی میدان کے شہ سوار ہیں، مہارت ہے ان کو، ایک بڑی کارپوریشن میں رہ چکے ہیں، کام جانتے ہیں، کام کرنا چاہتے ہیں، محب وطن ہیں، عمران خان کی یہ ایک اچھی چوائس ہے۔
جنگ:اسد عمر نے بزنس ایڈوائزری کونسل اور اکنامک ایڈوائزری کونسل کے قیام کی بھی بات کی ہے، آپ کے خیال یہ کتنی مفید ثابت ہو گی، ماضی میں بھی یہ تجربہ ہو چکا ہے۔
عارف حبیب:جی انہوں نے بڑے بزنس مینوں اور معیشت دانوں سے رابطے کئے ہیں، یہ ایک مشاورتی فورم ہوتا ہے جس میں سب کی تجاویز سامنے آتی ہیں اور آپ کو عمل کرنے میں آسانی ہوتی ہے لیکن یہ بات بھی ہے کہ مسائل کا سب کو پتہ ہے، اصل بات عملدرآمد کی ہے۔
جنگ:آپ کا گروپ پاکستان کا میجر بزنس گروپ ہے، آپ کے نزدیک اس وقت ملک کے لئے اہم مسائل کون سے ہیں۔
عارف حبیب:پاکستان میں انڈسٹری کو بلند پیداواری لاگت کا سامنا ہے، خطے میں ہماری پیداواری لاگت سب سے زیادہ ہے جس کے باعث ہماری اشیاء عالمی مارکیٹ میں ان کا مقابلہ نہیں کر پاتیں۔ ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ برآمدات میں اضافہ کیا جائے تو اس پیداواری لاگت کے ساتھ برآمدات کیسے بڑھ سکتی ہیں۔ لوگ تب ہی اشیاء تیار کریں گے یا صنعت لگائیں گے جب ان کی لاگت کم ہو گی، مہنگی اشیاء بنا کر وہ کم نرخوں پر تو فروخت نہیں کر سکتے۔ عمران خان نے دعویٰ تو کیا ہے کہ وہ انرجی پرائس کو خطے کے برابر کریں گے۔ اب دیکھیں اس پر عمل کب ہوتا ہے؟ اس کے ساتھ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہ پاکستانی معیشت پر بڑا بوجھ ہے۔ ان کی ایل سیز اور ترسیلات کے لئے اوپن مارکیٹ سے ڈالر خرید کر دیئے جاتے ہیں۔ اس کو روکنا ہو گا۔ اس سے ہمارا ہی ڈالر خرچ ہوتا ہے اور ہم کو امپورٹ ڈیوٹیز بھی نہیں ملتیں۔ اسی طرح انڈر انوائسنگ میں بھی ڈالر مارکیٹ سے خرید کر باہر بھیجے جاتے ہیں اور ڈیوٹی بھی نہیں ملتی۔ یہ چار پانچ بلین کا فرق ڈالتے ہیں جو پاکستان کو نہیں ملتا اور ان کی ڈیوٹیز بھی۔ اسی طرح بیرون ملک مقیم پاکستانی19ارب ڈالر ملک بھیجتے ہیں لیکن سرمایہ کاری کے لئے نہیں بلکہ پلاٹ وغیرہ خریدنے کے لئے، ان کے لئے ترغیبات دی جائیں کہ وہ سرمایہ کاری اسٹاک مارکیٹ میں کریں، ڈالر بانڈز جاری کر دیں تاکہ ان کو اچھا منافع ملے اور وہ پلاٹ اور ڈالر کی بجائے ان میں سرمایہ کاری کریں، ان کو روپے کی قدر میں کمی کا بھی نقصان نہیں ہو گا، اس سے پاکستان کے ڈالر کے ذخائر میں بھی اضافہ ہو گا۔
یہ بات مدنظر رہے کہ پاکستان میں روپے کی کمی نہیں تب ہی لوگ مہنگی امپورٹ اشیاء خریدتے ہیں، مسئلہ ڈالر کی کمی کا ہے، وہ اس طرح حل ہو سکتا ہے یا پھر آپ برآمدات میں اضافہ کریں۔ پاکستانی بیرونی قرضے بھی بہت زیادہ ہیں ان کی ادائیگی تو مشکل ہے لیکن ہم اپنے وسائل بڑھا کر یعنی جی ڈی پی میں اضافہ کر کے ان میں کمی لا سکتے ہیں اور ان کی شرح جی ڈی پی سے کم بھی کر سکتے ہیں اگر ہم8فیصد سے جی ڈی پی گروتھ میں اضافہ کریں تو ہماری جی ڈی پی300بلین ڈالر سے400یا500تک جا سکتی ہے، جی ڈی پی گروتھ پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، اس کے لئے حکومت کے اپنے پروجیکٹس بھی ہیں اور نج کاری کا سہارا بھی لیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ حکومت نے پاور پروجیکٹس ترقیاتی بجٹ سے لگائے جس کے لئے ترقیاتی بجٹ کا سائز بڑھانا پڑا جس کی وجہ سے بجٹ خسارے میں اضافہ ہوا۔ اس طرح سرمایہ کاری خود کی اور ایل سیز فارن کرنسی ریزرو سے کھولیں جب کہ پاور پروجیکٹس کے لئے پرائیوٹ سیکٹر تیار ہے حکومت کو ان کی سرمایہ کاری کرانا چاہئے تھی، ان کی سپورٹ کرنی تھی، یہ کام اب بھی ہو سکتا ہے، حکومت نجی شعبے کو آگے لائے اور ان پروجیکٹس میں ان کی سرمایہ کاری کرائے۔ اس کے علاوہ آئی ٹی، کنسٹرکشن اور زرعی سیکٹر ایسے شعبے ہیں جہاں آپ کو فارن ایکسچینج کی ضرورت نہیں پڑتی، اس میں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے اور ان سے منسلک انڈسٹریز بھی چلیں گی، تعمیراتی صنعت میں اگر حکومتی اداروں کی مداخلت اور رکاوٹیں دور کر دی جائیں تو اس انڈسٹری میں تیزی سے کام ہو سکتا ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ منصوبوں کی منظوری میں مگرمچھ لوگ منہ پھاڑے بیٹھے ہوتے ہیں اور جب تک پہیہ نہ لگایا جائے اس وقت تک کام آگے نہیں بڑھتا۔ اس عمل کو سادہ اور آسان بنانا ہو گا تب ہی 50لاکھ گھروں کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔ ان گھروں کی ضرورت ہے۔ مقامی اور صوبائی اداروں اور وفاقی پالیسی میں ہم آہنگی اور یکسانیت ہونی چاہئے۔
جنگ:پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں کا دبائو ہے، تجارتی خسارہ بھی بڑھ رہا ہے، روپے پر دبائو ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانا ہو گا، یہ درست فیصلہ ہوگا؟
عارف حبیب:پاکستان آئی ایم ایف کے تحت ڈسپلن میں رہتا ہے۔ اس سے ہٹ کر خرابیاں جنم لیتی ہیں۔ پاکستانی معیشت میں استحکام تب ہی رہتا ہے جب ہم آئی ایم ایف پروگرام میں رہتے ہیں۔ چاہے شوکت عزیز ہوں یا اسحاق ڈار، ہم جب بھی آئی ایم ایف پروگرام سے نکلے مسائل نے جنم لیا، اس وقت آئی ایم ایف ہماری ضرورت بھی ہے۔
جنگ:ایک طرف ہم پیداواری لاگت اور انرجی پرائس میں کمی کی بات کر رہے ہیں اور دوسری طرف آئی ایم ایف کے پاس جانے کی تو ان کی شرائط تو انرجی قیمتیں بڑھانا ہوں گی؟
عارف حبیب:ہمارے ہاں انرجی سبسڈی گھروں کے لئے ہے، انڈسٹری کے لئے نہیں۔ گیس اور بجلی میں چوری اور نقصان بھی زیادہ ہے اس کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈومیسٹک کو حکومت سبسڈی کرنا چاہتی ہے تو اپنی جیب سے کرے انڈسٹری پر لاد کر نہیں کرنی چاہئے۔
جنگ:سرکاری اداروں کا خسارہ ایک ٹریلین سے زیادہ ہے اور مزید خرابی یہ کہ اس کو چالاکی سے گزشتہ حکومت نے بجٹ سے باہر رکھا ہے تاکہ بجٹ خسارہ کم دکھایا جا سکے، اس کو کیسے مینج کریں گے؟
عارف حبیب:آپ نے درست نشاندہی کی۔ اس کو بجٹ سے باہر رکھا گیا ہے، ان کو گارنٹی دے کر کہا جاتا ہے کہ آپ قرض لے لیں تو وہ ریکارڈ نہیں ہوتا۔ اب ان اداروں سے جان چھڑانی چاہئے۔ حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ ان اداروں کو اچھا کر کے نج کاری کرے۔
میرا کہنا ہے کہ جو ادارے اچھے ہیں انہیں تو فروخت کر دیں اور اپنے وسائل میں اضافہ کریں۔ نئے ادارے بنائو اور اچھے داموں میں فروخت کرو، یہ تو بہتر پالیسی ہے، ہم بھی یہی کرتے ہیں، اس سے نئے نئے ادارے بھی قائم ہوتے ہیں اور روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔ یہ روزگار کی سبیلیں ہیں حکومت نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کرے ان سبیلوں کے لگانے میں اور چلانے میں۔ اس سے حکومت کی آمدنی میں اضافہ بھی ہوتا ہے، ٹیکس بھی ملتا ہے، حکومت کا مقصد یہ بھی ہونا چاہئے کہ سرکاری اداروں سے جان چھڑانا ہے، پہلے بہتر کریں پھر فروخت کریں۔
جنگ:ایف بی آر میں اصلاحات کی بات کی جا رہی ہے، یہ تو حقیقت ہے کہ ایف بی آر ٹیکس ریونیو میں اضافے میں ناکام رہا ہے، ہمارا ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو بہت کم ہے، ہم ٹیکس نیٹ بڑھانے میں بھی ناکام رہے ہیں۔
عارف حبیب:اس حوالے سے تین پہلو بہت اہم ہیں۔ پہلا یہ کہ معیشت کے ایک بڑے حصے کو ٹیکس سے چھوٹ حاصل ہے۔ جب آپ اس20فیصد کو شامل کر لیں تو ٹیکس جی ڈی پی ریشو بڑھ جائے گا، پالیسی یہ ہونی چاہئے کہ جہاں انکم وہاں ٹیکس۔ دوسرا یہ کہ کچھ ایسے سیکٹرز ہیں جن پر ٹیکس ہے لیکن وہ وصول نہیں ہو رہا ہے۔ دکاندار، پروفیشنلز، کمیشن ایجنٹس وغیرہ کی اچھی آمدنی ہوتی ہے لیکن یہ ٹیکس میں حصہ نہیں ڈال رہے ہیں۔ تیسرا یہ کہ خود ایف بی آر میں کرپشن بہت ہے، وہ مک مکا کر کے بہت سی جگہوں سے ٹیکس وصول نہیں کرتے۔ ان سب کو ٹھیک کرنا ہو گا، ایمنسٹی میں اچھا رسپانس بھی اسی وجہ سے نہیں آیا کہ وہ ایف بی آر کو قابل اعتبار نہیں گردانتے۔ حکومت کو ایف بی آر میں اصلاحات لانی ہوں گی، ان کی صلاحیت، اہلیت بڑھانا ہو گی۔
جنگ:پاکستانی معیشت اس وقت قرضوں میں ڈوبی ہوئی ہے، گزشتہ تیس برسوں میں ان میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اب ری پیمنٹس بھی آ رہی ہیں، آپ کیا دیکھ رہے ہیں، ان میں مزید اضافہ ہو گا؟
عارف حبیب:جی ہمیں جلد کچھ قرضوں کی ادائیگی بھی کرنی ہے اور قرض کوئی بھی کم نہیں کر سکتا۔ ہمارا بجٹ خسارہ اگر5سے7فیصد ہو تو15سے21ارب روپے ہو گا تو یہ رقم تو ہر سال آپ کو چاہئے اس کے لئے قرضہ ہی لینا پڑے گا۔ قرضوں کو اتارنا مشکل ہے، ہاں ہم اپنی جی ڈی پی میں اضافہ کر کے اس کو ہینڈل کر سکتے ہیں۔ میری تجویز یہ ہے کہ ہمارے ترقیاتی بجٹ سے زیادہ ہمارا بجٹ خسارہ نہیں ہونا چاہئے۔ اگر ہم ہزار بلین کا خسارہ رکھیں تو پھر یہ سرمایہ کاری ہو گی لیکن قرضہ ترقیاتی منصوبوں میں جائے گا۔ اس سے آپ کے اثاثے بنیں گے جنہیں کسی بھی وقت فروخت کر کے قرضہ واپس کیا جا سکتا ہے لیکن جاری اخراجات کے لئے قرض لینا درست نہیں۔ آپ گھر خریدنے کے لئے قرض لیں وہ تو ٹھیک ہے لیکن کھانے پینے کے لئے قرض لینا بالکل درست نہیں، اس کے لئے اداروں کو درست کرنا ہو گا، کھلے عام کرپشن کو روکنا ہو گا، یہ مثال قائم کرنا ہو گی، اگر کوئی کرپشن کرے گا تو وہ بچ نہیں سکے گا، تب لوگوں میں اعتماد آئے گا اور سرمایہ کار آئیں گے اور چیزیں درست ہوں گی۔
جنگ:تجارتی خسارہ اس وقت ہمارا بڑا مسئلہ ہے، امپورٹس60بلین ڈالرز ہیں اور برآمدات مشکل سے24پر ہیں جس کی وجہ سے روپے پر دبائو ہے۔ یہ ایشو کیسے حل ہو گا۔
عارف حبیب:فوری طور پر تو امپورٹ ڈیوٹی میں اضافہ کرنا ہو گا۔ تین سے چار بلین ڈالر امپورٹ بل کو کم کریں اور تین سے چار بلین ڈالر ایکسپورٹ میں اضافہ کریں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں اتنا ہی اضافہ ہو۔ اسی طرح ہم فوری طور پر اس بارہ بلین ڈالر کے گیپ کو پورا کر سکتے ہیں۔ پھر افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور انڈر انوائسنگ جیسے ایریاز سے بھی دو دو، تین تین بلین ڈالرز بچائے جا سکتے ہیں۔ لانگ ٹرم میں آپ اپنی برآمدات میں اضافہ کریں۔ امپورٹ متبادل اشیاء پیدا کریں، لوگوں میں یہ سوچ پیدا کریں کہ اپنے ملک کی بنی ہوئی اشیاء خریدیں، باہر گھومنے کی بجائے ملک میں گھومیں، آپ کا ڈالر بچے گا، عوام کی سوچ میں مثبت تبدیلی لا کر بھی ہم مسائل کو کم کر سکتے ہیں۔ مقامی اشیاء کی فروخت سے انڈسٹری بھی گرو کرے گی، روزگار میں بھی اضافہ ہو گا۔
جنگ:گزشتہ کئی برسوں میں ٹیکسٹائل سیکٹر پر بہت دبائو ہے اور یہ ہی سیکٹر برآمدات میں بہت آگے تھا۔ ٹیکسٹائل کی وجہ سے ہماری برآمدات میں کمی ہوئی۔ اس سیکٹر کی بحالی کیسے ممکن ہے؟
عارف حبیب:سب سے پہلے ہمیں کاٹن کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہو گا، ہماری پیداوار ہماری طلب سے کم ہے جس کے سبب ہم کاٹن امپورٹ بھی کر رہے ہیں۔ ایک زرعی ملک ہونے کے ناتے یہ ظلم ہے۔ ایک وقت تھا کہ ہم بڑی مقدار میں کاٹن برآمد کرتے تھے۔ حکومت اس طرف توجہ دے۔ کپاس کا مقابلہ گنے کی کاشت سے ہے۔ حکومت اس پر بہتر پالیسی بنائے۔ کاٹن سیکٹر پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، اس کے لئے حکومت کو ترغیبات دینا ہوں گی۔ لوگوں نے اس سیکٹر سے کما کر ری انوسٹمنٹ نہیں کی بلکہ بیرون ملک جائیدادیں بنائیں۔ جب کہ انہیں نئی مشینری، نئی ٹیکنالوجی کی طرف جانا چاہئے تھا جو آپ کی کوالٹی بھی بہتر کرتی اور آپ کے معیار کو بھی۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کو ویلیو ایڈڈ پر توجہ دینی ہوگی۔ اس سے آپ کی آمدنی میں اضافہ بھی ہو گا اور روزگار بڑھے گا۔ اس حوالے سے بنگلہ دیش ماڈل کو دیکھنا ہو گا جو کاٹن امپورٹ کر کے ٹیکسٹائل گڈز کی برآمدات میں ہم سے آگے ہے۔ ہماری معیشت کے لئے دنیا میں کئی کامیاب ماڈل موجود ہیں، ہمیں ان کی اسٹڈی کرنی چاہئے اور ان کو اپنانا چاہئے۔
جنگ:بزنس مین کمیونٹی کا ایک بڑا مسئلہ ریفنڈز ہے، کئی برسوں سے اس کی ادائیگی کے لئے آوازیں اٹھ رہی ہیں لیکن یہ مسئلہ برقرار ہے۔ ریفنڈز کی کیا اہمیت ہے اور یہ حل کیوں نہیں ہو رہا؟
عارف حبیب:آپ نے درست کہا ریفنڈز بزنس کمیونٹی کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ دور حکومت میں ڈار صاحب نے بہت زیادتی کی۔ وہ اپنے بجٹ اہداف کے لئے اس کو جان بوجھ کر روکتے رہے تاکہ ان کے نمبرز متاثر نہ ہوں لیکن یہ مناسب نہیں ہے، اگر آپ لوگوں کا ورکنگ کیپٹل روک لیں گے تو وہ کیسے کام کریں گے۔ انہیں اپنے خام مال، مشینری، لیبر کے لئے پیسے درکار ہوتے ہیں، انہیں ری انویسٹ کرنا ہوتا ہے اگر یہ روک دیئے جائیں تو یہ سب بھی رک جائے گا۔ یہ بہت اہم ایشو ہے، اسد عمر کہتے رہے ہیں کہ یہ لوگوں کے پیسے ہیں، انہیں دیا جانا چاہئے۔
جنگ:ماضی کی حکومتوں کی ترجیحات پر عمران خان نالاں رہے ہیں اب ان کی حکومت ہے، ان کی ترجیحات کیا ہونی چاہئے؟
عارف حبیب:عوام کے لئے روزگار کے مواقع ترجیحات میں سرفہرست رکھنا چاہئے اور یہ ہر حکومت کے لئے ہونا چاہئے۔ اس سے آپ معیشت میں اضافے کے لئے کام کررہے ہوتے ہیں۔ روزگار کے لئے تعمیراتی، زرعی اور آئی ٹی سیکٹر بہت اہم ہیں اس سے ان شعبوں میں پیداوار بڑھے گی۔ ملکی وسائل میں اضافہ ہو گا اور بجٹ خسارہ کا مسئلہ بھی حل کی طرف جائے گا۔ گھروں کی قلت بھی کم ہوگی۔ تعمیراتی صنعت سے وابستہ انڈسٹریز کا پیسہ بھی چلے گا اور حکومت کو آمدنی ہوگی۔ اس کے علاوہ لوگوں کے لئے پانی، بجلی، ٹرانسپورٹ، تعلیم اور صحت کے لئے کام کرنا چاہئے اور ان میں کوالٹی لانی چاہئے۔ ان مسائل کے حل کرنے میں نجی شعبے کی شراکت سے بھی منصوبے تیار کئے جا سکتے ہیں۔ حکومت اچھی منصوبہ بندی کرے تو یہ مسائل نجی شعبے کے تعاون سے حل کئے جا سکتے ہیں۔ ترقیاتی پروجیکٹس اور ترقیاتی اخراجات میں ہم اس کی ویلیو پر توجہ نہیں دیتے۔ بہت زیادہ اخراجات کر جاتے ہیں۔ ہمیں اس میں بھی اہلیت لانی ہوگی، کم مالی وسائل سے عمدہ منصوبے تیار کرنے چاہئیں۔ اس طرح ہم ایک طرف رقوم بچا سکتے ہیں بلکہ ان کی مدد سے زیادہ منصوبے سامنے لائے جا سکیں گے۔
جنگ:شمشاد اختر نگراں دور میں وزیر خزانہ تھیں، انہوں نے گزشتہ حکومت کی معاشی پالیسی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ آپ کتنا اتفاق کرتے ہیں؟
عارف حبیب:ابتدا میں تین برس میں معاشی استحکام کا ایجنڈا تو ٹھیک رہا۔ اس وقت ہم آئی ایم ایف پروگرام میں بھی تھے۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں بہت نیچے رہیں۔ افراط زر بھی کم رہا۔ معاشی نمو میں اضافہ ہوا۔ ڈار صاحب نے ڈالر کو اسٹیبل رکھنے یا فکس رکھنے کی پالیسی اپنائی جو ٹھیک ثابت نہیں ہوئی ان کے جانے کے بعد روپیہ تیزی سے گرا یا گرا دیا گیا۔ یہ پالیسی بھی درست نہیں تھی۔ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ اگر بتدریج گرتا تو شاید اتنا برا نہ ہوتا۔ اصل میں حکومتیں شارٹ ٹرم میں ٹھیک دکھانا چاہتی ہیں اس کے لئے وہ عارضی نوعیت کی پالیسیاں اختیار کرتی ہیں جو معیشت کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ تاہم رئیل اسٹیٹ سیکٹر، اسٹاک مارکیٹ نے اچھا پرفارم کیا۔ افراط زر کنٹرول میں رہا۔ ایک طرح سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سوائے نان ریزرو کے باقی معیشت ٹھیک رہی۔ ٹیکس ریونیو بھی19ارب سے38ارب پر گیا، یہ بہتر کارکردگی ہے۔ 2000ء میں ٹیکس کے نمبرز2000ارب تھے آج ہم4000پر ہیں، یہ ایک اچھی گروتھ ہے لیکن ہمارے اخراجات درست نہیں ہیں۔ ہم نے بجٹ سے کہیں زیادہ اخراجات کئے اور وہ بھی درست شعبوں میں نہیں کئے۔ 400ارب روپے بجٹ سے زیادہ خرچ ہو گئے اس پر پارلیمنٹ میں بات ہونی چاہئے تھی۔ پھر گزشتہ حکومت نے آخری انتخابی سال میں ٹیکس شرح میں کمی کی جس کا بوجھ خزانے پر پڑے گا۔ نئی حکومت کے لئے اس کو جاری رکھنا ایک چیلنج ہو گا۔ کارپوریٹ ٹیکس بہت ہائی ہے، یہ سب سیاسی فیصلے تھے، یہ نہیں دیکھا گیا کہ ان کے معیشت پر اور ملک پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
جنگ:ڈالر تیزی سے اوپر گیا ہے، اب آپ اسے کہاں دیکھتے ہیں؟
عارف حبیب:اس کا انحصار اس پر ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس کب جاتے ہیں اور کیا پروگرام لیتے ہیں۔ دوسرے دوست ملکوں سے ہمیں کیا امداد ملتی ہے۔ یا انڈر انوائسنگ اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی خریدوفروخت پر ہم کنٹرول کیسے کرتے ہیں۔ ویسے روپیہ کافی ڈی ویلیو ہو چکا ہے اس سے زیادہ روپے کا گرنا مناسب نہیں ہو گا۔ 125کے لگ بھگ روپیہ رہنا چاہئے۔
جنگ:پاکستان کا ایک اہم مسئلہ سرکلر ڈیٹ ہے۔ اس کے اعدادوشمار کوئی ساڑھے پانچ بلین ڈالر آئے ہیں۔ یہ کتنا سنگین ہے اور اس سے کیسے نکلیں گے؟
عارف حبیب:میرے نزدیک اس کی ری پیمنٹ بڑا ایشو نہیں ہے بلکہ اس کا جاری رہنا اور بڑھنا بڑا مسئلہ ہے۔ اس کو رکنا چاہئے۔ اس کے لئے وصولیاں ٹھیک کی جائیں، انرجی ریٹس مناسب کئے جائیں، لاگت میں کمی کی جائے مثلاً جی آئی ڈی سی وصول کی جا رہی ہے اس کو ہٹا کر ریٹ بہتر ہو سکتے ہیں۔ ایسے ہی بجلی میں کچھ ٹیکسز ہیں جن کو کم یا ختم کیا جا سکتا ہے اور انہیں کمپنیوں کے منافع میں لے جائیں۔ ان ڈائریکٹ ٹیکسز کم کئے جائیں تو پہلے سرکلر ڈیٹ کو روکیں اور پھر ان کی قسطیں کر دیں۔ سالانہ سو، دو سو ارب کی ادائیگی کی جا سکتی ہے اس طرح یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
جنگ:سی پیک کا مستقبل آپ کیا دیکھ رہے ہیں؟
عارف حبیب:سی پیک ایک بہت اچھا موقع ملا ہے لیکن ہم نے اس کو درست استعمال نہیں کیا، ہماری اسپیڈ درست نہیں ہے، 60ارب میں سے20ارب حکومت سے حکومت تک ہیں جس میں سے حکومت نے ساڑھے تین بلین ہی حاصل کئے ہیں، 8بلین کی ریلوے کی بات ابھی چل رہی ہے۔ پاکستان کا اپنا سالانہ ترقیاتی بجٹ صوبائی اور وفاقی ملا کر14بلین ہے۔ حکومت کو چاہئے اس میں فوری طور پر شامل کر کے انفرا اسٹرکچر میں لگا دے اور آئندہ کے ترقیاتی بجٹ سے ان کی ادائیگی کرے۔ اس طرح منصوبے سستے تیار ہوں گے۔ اس طرح نجی شعبے میں بھی سی پیک کی رفتار سست ہے۔ اس پروجیکٹ میں20سال کا قرض دو فیصد پر چل رہا ہے جو نہایت کم ہے، اگر درست خرچ کیا جائے تو یہ انتہائی مفید ثابت ہو گا۔
جنگ:پاکستان میں معیشت سیاست کے گرد گھومتی ہے۔ فیصلے معاشی بنیادوں پر نہیں سیاسی بنیادوں پر کئے جاتے ہیں، اداروں کے سربراہوں کا تقرر بھی سیاسی ہوتا ہے جس کا خمیازہ ملک کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ہم اس پریکٹس سے کب اور کیسے نکلیں گے۔ ادارے خودمختار کب ہوں گے؟
عارف حبیب:حکومتوں کو یہ خود سوچنا ہو گا کہ ادارے خودمختار ہوں، میرٹ پر تقرریاں ہوں، میرٹ پر فیصلے ہوں، سیاست سے نکالا جائے تاکہ یہ قوم و ملک اور معیشت کے لئے بہتر پرفارم کر سکیں۔