• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ خلا میں زبردست جنگ جاری ہے، جو دو سیّاروں کی’’ اسپیس آرمی‘‘ کے درمیان لڑی جا رہی ہے۔ فوجیں ایسی خوف ناک ٹیکنالوجی سے لیس ہیں کہ جس کا زمین پر تصوّر بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ خلائی مخلوق انسانوں کی شکل سے مختلف، لیکن حرکات اور فطرت میں کچھ ویسی ہی ہے۔ بادشاہ بھی ہیں اور حکم ران بھی۔ سازشیں ہو رہی ہیں اور وہ اقتدار کے لیے اپنے دشمنوں کو تہس نہس کرنےپر بھی تُلے ہوئے ہیں۔ اُن کے اسلحہ خانے میں ایسے ہتھیار موجود ہیں، جن کے سامنے ایٹمی ہتھیار تو محض پٹاخے معلوم ہوتے ہیں۔ جنگ میں حصّہ لینے والے جوان ہاتھوں میں ایسے پستول پکڑے ہوئے ہیں، جن سے نکلنے والی شعائیں، پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہیں۔نیز، خلائی جہازوں کی گنز سے نکلنے والی شعائیں بستیوں کو پَلک جھپکتے راکھ میں تبدیل کر دیتی ہیں۔ 

ہر طرف آگ ہے، تباہی ہے۔‘‘ گھبرائیے مت، یہ مناظر’’ اسٹارز وار‘‘ نامی بلاک بسٹر فلم کے ہیں، جو پانچ عشرے قبل ایک خلقت نے سینما اسکرینز پر دیکھے۔ اب اس طرح کی اسپیس وارز، بچّوں کی کارٹون فلمز کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ بچّے اُنہیں آنکھیں گاڑے، اپنے موبائلز، ٹی وی یا کمپیوٹر اسکرینز پر دیکھ دیکھ کر تالیاں بجاتے ہیں، لیکن اُن کے تصوّر میں بھی نہیں ہوگا کہ اس قسم کی خلائی جنگیں، کبھی حقیقت کا رُوپ بھی دھار سکتی ہیں۔ شاید اب یہ سائنس فِکشن حقیقت کا رُوپ دھارنے جارہا ہے، کیوں کہ اسپیس فورس کا قیام عمل میں آنے والا ہے۔ یہ فوجی قوّت میں اضافے کی ایک نئی اصطلاح ہے، لیکن یہ کوئی اسٹار وارز یا کسی سائنسی فِکشن کی خیالی فوج نہیں اور نہ ہی کسی سیّارے پر قائم کی جا رہی ہے۔ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے حکم دیا کہ امریکی افواج اپنی چَھٹی شاخ کے لیے کام شروع کردیں، جو’’ اسپیس فورس‘‘ یا’’ خلائی فوج‘‘ ہوگی۔ اُنہوں نے کہا کہ’’ اس نئی فوج کے قیام سے قومی سلامتی کے ساتھ معیشت مضبوط کرنے میں مدد ملے گی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔‘‘

خلا کی تسخیر، آج کی سوچ نہیں، بلکہ سائنس کی ترقّی کے ساتھ ہی اس خیال نے انسانی ذہن میں جگہ بنانی شروع کر دی تھی۔ دوسو سال قبل، ایچ جی ویلز اور جولس ورنز جیسے سائنس فِکشن ماسٹرز نے اپنے ناولز میں خلائی تسخیر کا تصوّر پیش کیا۔ ’’دی فرسٹ مین اِن دی مون‘‘ اور’’ فرام دی اَرتھ ٹو دی مون‘‘ جیسی لاجواب کہانیاں تخلیق کیں، جن میں پہلی مرتبہ انسان کو وہ ٹیکنالوجی استعمال کرتے دِکھایا گیا، جس سے چاند پر پہنچنا ممکن ہوا۔ نیوٹن اور آئن اسٹائن جیسے سائنس دانوں کی تھیوریز اور قوانین نے اس تصوّر کو حقیقت میں ڈھالنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔علاوہ ازیں، دوسری جنگِ عظیم میں راکٹ کی ایجاد نے اسے مزید تقویّت دی۔ جنگ کے فوراً بعد خلا کی تسخیر، بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ چاند پر کمند ڈالنے کی دوڑ شروع ہوگئی۔ امریکا اور روس، دونوں نے اپنے خلائی پروگرامز کو ترقّی دینا شروع کی، لیکن یہ جنگ امریکا نے جیت لی، جب اس کے خلاباز، نیل آرم اسٹرانگ نے چاند پر پہلا قدم رکھتے ہوئے کہا’’ انسان کا یہ چھوٹا سا قدم، انسانیت کی ایک بہت بڑی چھلانگ ہے۔‘‘ خلا کی یہ تسخیر، صرف چاند پر قدم رکھنے تک ہی محدود نہیں رہی، بلکہ اس نے انسان کو مزید آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔ اسی وجہ سے اسپیس سٹیلائیٹس یا مواصلاتی سیّاروں کا دَور شروع ہوگیا، جس سے اطلاعات تک انسانی رسائی کی کوئی حد ہی نہ رہی۔ آج ٹی وی، موبائل فون، کمپیوٹر، انٹرنیٹ سب ہی اس کے مرہونِ منّت ہیں۔ کیا پچاس برس قبل یہ تصوّر بھی ممکن تھا کہ اپنے ہاتھوں میں پکڑے ایک چھوٹے سے موبائل فون کی اسکرین پر دنیا بھر کے لائیو نظارے دیکھے جاسکیں گے؟ پاکستان کے ایک پس ماندہ گائوں میں بیٹھا شخص، چھے ہزار میل دُور کسی امریکی قصبے میں موجود اپنے کسی دوست یا عزیز سے گھنٹوں بات کرسکے اور وہ بھی تقریباً مفت…؟؟ یہ سب نہ صرف یہ کہ ممکن ہوا، بلکہ اب اتنا عام ہے کہ اَن پڑھ سے اَن پڑھ آدمی کو بھی اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں لگتی۔ کہتے ہیں، جتنی ترقّی انسان نے زمین کے وجود میں آنے سے اب تک کی، اس سے زیادہ صرف گزشتہ ایک سو برسوں میں کر لی۔یہی وجہ ہے کہ اب تو خلا میں کمرشل فلائیٹس بھی کوئی عجوبہ نہیں رہیں۔ اگر آپ کے پاس پیسا ہے، تو خلا میں سیر کرسکتے ہیں۔ اسی لیے اگر امریکا کی جانب سے’’ اسپیس فورس‘‘ کے قیام کی بات کی گئی ہے، تو یہ کوئی ناممکن ہدف نہیں۔ صرف عزم اور سرمائے کی ضرورت ہے، جو امریکا کے پاس وافر مقدار میں موجود ہے۔

لوگ ابھی تک خلا سے آنے والے جہازوں،’’ یو ایف اوز‘‘ کو نہیں بھولے ہوں گے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ اُنھیں کوئی خلائی مخلوق زمین کی جانب بھیجتی ہے۔ اُنہی جہازوں کے سبب Aliens یا خلائی مخلوق کا تصوّر سامنے آیا۔ تاہم، چار سال قبل’’ ناسا‘‘ اور امریکی ائیر فورس نے انکشاف کیا کہ خلا سے نمودار ہونے والے وہ جہاز، درحقیقت امریکی خفیہ ہوائی اڈّوں سے اڑتے تھے اور اُن کا کام، انتہائی بلندی سے جاسوسی کرنا تھا۔ اُن جہازوں کی جھلک کبھی کبھار لوگوں کو نظر آجاتی اور وہ اُنھیں دوسری دنیا کے جہاز سمجھتے۔ دراصل، یہ بھی ایک قسم کی خلائی فورس ہی تھی، جو فوجی مقاصد کے لیے کام میں لائی جاتی تھی۔ سٹیلائیٹ کے وسیع استعمال کے سبب اُن جہازوں کی ضرورت ختم ہوگئی، کیوں کہ اب ایسے مواصلاتی سیّارے مختلف مُلکوں کی جانب سے خلا میں موجود ہیں، جو خلا سے’’ جاسوس آنکھ‘‘ کا کام دیتے ہیں۔ ایک ایسی ہی آنکھ کا قصّہ1974 ء کی عرب، اسرائیل جنگ کے بعد مِصر کے صدر، انور سادات کے ساتھ پیش آیا۔ عرب، اسرائیل جنگوں میں مِصری افواج کی کارکردگی بہتر رہی تھی، جس پر صدر سادات کو بہت ناز تھا۔ اسی پس منظر میں وہ امریکی صدر سے بات چیت کے لیے واشنگٹن پہنچے، تو اُنہیں ایک دن پینٹاگون کا دَورہ کروایا گیا۔ اُن کے سامنے ایک اسکرین تھی، جس پر دسمبر کی سردیوں کی دھند میں( انور سادات دسمبر ہی میں واشنگٹن گئے تھے) ایک گاؤں نظر آیا۔ گاؤں میں ایک گھر، اُس کا گیراج اور اُس میں کھڑی پُرانی کار۔ کیمرا زوم کرکے اُس کار کی نمبر پلیٹ پر لایا گیا۔ مِصر کے صدر نے اپنا گائوں، گھر اور کار کی نمبر پلیٹ پہچان لی۔ اُنہیں بتایا گیا کہ یہ لائیو تصاویر، ایک امریکی جاسوس سیّارے سے لی جا رہی ہیں۔ یہ سب دِکھانے کا مقصد یہ تھا کہ امریکی خلائی سیّاروں کی آنکھ سے کوئی فوجی نقل وحرکت پوشیدہ نہیں۔ یہ واقعہ مِصر کے مشہور اخبار،’’ الاہرام‘‘ کے ایڈیٹر، حُسین ہیکل نے اپنی کتاب میں قلم بند کیا ہے۔ بلاشبہ اسے اُسی اسپیس فوج کا حصّہ کہا جاسکتا ہے، جسے اب باقاعدہ طور پر تشکیل دیا جارہا ہے۔

اسپیس فورس کے وجود میں آنے کا مطلب، امریکا کی چَھٹی فورس کا قیام ہے۔ اِس وقت اُس کی افواج، یو ایس آرمی، یو ایس میرین، یو ایس نیوی، یو ایس ائیر فورس اور یو ایس کوسٹ گارڈز پر مشتمل ہیں۔ یو ایس ائیر فورس کی ذمّے داری ہے کہ وہ فضائی جنگ سے متعلق حکمتِ عملی تشکیل دے، تاہم اس کی جانب سے ابھی تک’’ خلائی فوج‘‘ کے حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ البتہ، امریکی نائب صدر، مائیک پینس نے حال ہی میں کہا کہ’’ ہم چاہتے ہیں کہ 2020ء، یعنی صدر ٹرمپ کی صدارت کے اختتام سے قبل ہی اسپیس فورس کا قیام عمل میں آجائے۔‘‘ جب کہ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ’’ اس سلسلے میں ایوان مناسب کارروائی اور فنڈز مختص کرے۔‘‘ اس وقت خلا سے متعلق امریکا کے تین اہم پروگرام جاری ہیں، جنہیں اس کا خلائی تحقیقاتی ادارہ’’ ناسا‘‘ دیکھ رہا ہے۔ اس میں چاند پر دوبارہ اُترنا، مریخ اور سورج کے تحقیقاتی مشنز شامل ہیں۔ ان میں سے اگست میں بھیجا جانے والا سورج مشن تو انتہائی حیرت انگیز ہے۔ یہ ایک مواصلاتی سیّارہ ہے، جس کا نام91 برس کے سائنس دان’’ پارکر‘‘ کے نام پر رکھا گیا ہے، کیوں کہ اُنہوں نے ہی سورج سے اٹھنے والی ہوائوں پر تحقیق کی ہے۔12 اگست کو خلائی سیّارہ سورج کی جانب روانہ کیا گیا، جس کا مشن سات سال جاری رہے گا۔ اس کی رفتار 4 لاکھ ،پچاس ہزار میل فی گھنٹہ ہے، یعنی وہ واشنگٹن سے ٹوکیو کا سفر، صرف ایک منٹ میں طے کرسکتا ہے۔ یہ سیّارہ، سورج سے تقریباً 61 ملین کلومیٹر کے فاصلے پر رہ کر اُس کا جائزہ لے گا اور اُس کی اندرونی آگ کی بھٹی کی تصویریں بھیجے گا۔ یہ سورج کے گرد چوبیس چکر لگائے گا اور اس دَوران سورج سے اٹھنے والی اُن شعائوں کا بھی جائزہ لے گا، جو زمین پر اثر انداز ہوتی ہیں۔’’پاکر‘‘ پر ڈیڑھ ارب ڈالرز لاگت آئی اور یہ تیرہ سو سینٹی گریڈ تک کا درجۂ حرارت برداشت کرسکتا ہے۔ اس کی بھجوائی گئی تصاویر سے سورج کی بڑھتی، گھٹتی گرمائش اور روشنی سے متعلق نئے انکشافات متوقّع ہیں،جن سے موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ سورج، نظامِ شمسی کا مرکز ہے، جس کے گرد زمین سمیت مختلف سیّارے اور اُن کے چاند گردش کرتے ہیں۔ روشنی، کششِ ثقل، گرمی، سردی، موسموں کی تبدیلی اور بہت سے خلائی تغیّرات کا تعلق اسی سے ہے۔ لہٰذا، کسی بھی خلائی فوجی پروگرام میں سورج سے متعلق معاملات انتہائی اہم ہوں گے اور امریکی سورج مشن کو اس تناظر میں بھی دیکھا جانا چاہیے۔

گو کہ اس مجوّزہ’’ اسپیس فورس‘‘ کے خدّوخال ابھی تک سامنے نہیں آئے، تاہم امریکی صدر نے اس کے دو مقاصد بیان کیے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ’’ صرف یہ کافی نہیں کہ خلا میں امریکی موجودگی ہو۔ ہم پر لازم ہے کہ امریکی غلبہ ہو۔‘‘ صدر ٹرمپ نے مزید کہا’’ یہ قابلِ قبول نہیں کہ چین اور روس کو خلا میں سبقت ہو۔اس لیے متعلقہ ادارے خلا میں ٹریفک مینجمنٹ سسٹم کے لیے جدید فریم ورک تیار کریں۔‘‘ چاند پر دوبارہ قدم رکھنے کے پروگرام سے متعلق اُنہوں نے کہا’’ محض امریکی جھنڈا لگانے اور قدموں کے نشانات چھوڑنے پر اکتفا نہیں کروں گا۔ ہم خلا میں طویل مدّتی پروگرام پر عمل کریں گے۔ معیشت کو فروغ دیں گے اور مریخ پر بھی ایسا ہی نظام قائم کریں گے۔ معاشی سرگرمیوں کو اسپیس پرگرام میں شامل کرنے کے لیے امیر امریکیوں کو سہولتیں دی جائے گی کہ وہ کمرشل بنیادوں پر خلائی سفر کو ممکن بنائیں۔‘‘ اسپیس فورس کے حامیوں کا تو کہنا ہے کہ اس سے پینٹاگون کو بہت فائدہ ہوگا، تاہم کچھ سینئر افسر اس پر تنقید بھی کرتے ہیں کہ کہیں یہ غلط سمت میں جانے والا قدم نہ ہو ۔ سائیبر وار فیئر، جو کچھ عرصے قبل ناممکنات میں سے تھی، اب جنگ کی سب سے جدید اور خطرناک قسم بن چکی ہے۔ اس میں جہاں فوجوں نے باقاعدہ سائیبر وارز ڈیپارٹمنٹ قائم کیے ہیں، وہیں اُن نوجوانوں کا بھی بڑا کردار سامنے آیا ہے، جو انٹرنیٹ ٹولز کے ذریعے دشمن کے خلاف اطلاعات کی جنگ کرتے ہیں۔ اس میں دشمن کو مس گائیڈ کرنا اور خیالات، سوچ اور نظریات میں تبدیلی لانا بھی شامل ہے۔ اسی سائیبر وار کے ذریعے کمپیوٹر وائرس، سسٹمز میں بھیجے جاتے ہیں اور ہیکنگ کی جاتی ہے۔ صدر اوباما کے دَور میں ایران کی ایٹمی تنصیبات کے سنٹری فیوجز کو اسی طرح کے وائرس کے ذریعے ناکارہ بنایا گیا، جسے’’ آپریشن اولمپکس گیمز‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ جب کہ شمالی کوریا نے امریکا کی سونی پکچرز کے سسٹم کو ہیک کر کے دونوں مُمالک کے درمیان جنگ کی سی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ یہ ہیکنگ، اُس مشہور کارٹون فلم کے خلاف کی گئی تھی، جس میں سونی پکچرز نے شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کو ایک قاتل ڈکٹیٹر کے رُوپ میں پیش کیا اور اُن کا مذاق اڑایا تھا۔

سائبر وار، سائبر اسپیس میں لڑی جاتی ہے، جب کہ خلائی جنگ تو اصل خلا میں لڑی جائے گی۔ سائبر جنگ میں حکومتوں اور اداروں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا جاتا ہے، لیکن اصل خلائی جنگ میں کیا قیامت برپا ہوسکتی ہے، وہ شاید فِکشن فلمز ہی میں کچھ کچھ نظر آسکتی ہے، کیوں کہ یہ آبادی پر ہوگی۔ اس وقت خلائی سیٹلائیٹ بھی موجود ہیں، جو ہر وقت جاسوسی اور نگرانی کا کام کرتے ہیں۔ شاید ہی کوئی بڑی فوجی نقل وحرکت ہو، جو اُن کی نظر سے چُھپی رہ سکتی ہو۔ یقیناً دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انٹیلی جینس شئیرنگ کے لیے اس سے بڑا کام لیا جاتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی دشمن کے ٹھکانوں کی صحیح صحیح نشان دہی بھی کی جاتی ہے۔ نیز، ڈرون حملوں میں بھی سیٹلائیٹ نشان دہی سے کام لیا جارہا ہے۔ ان سب چیزوں سے انسانی جان کو خطرے میں ڈالے بغیر دشمن کو تباہ کرنا ممکن ہوگیا ہے۔ تاہم دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ خلائی اسٹیشن پہلے ہی سے موجود ہیں، جہاں خلاباز اب برسوں قیام کرتے ہیں۔ یہ خلائی اسٹیشن ہر وقت زمین کے گرد چکر لگاتے رہتے ہیں۔ ملٹری اسپیس کے ماہرین کے مطابق، ممکن ہے کہ اگلے برسوں میں انہی اسٹیشنز کو خلا سے حملوں کے لیے بھی استعمال کیا جائے۔ اسپیس فورس کے قیام اور اس کے لاجسٹک مقاصد میں یہ اسٹیشنز بہت اہم ہوسکتے ہیں۔ تاریخ دانوں کے مطابق، ایٹمی دَور کو گزرے تو نصف صدی ہو چکی، اب ہم اسپیس سیٹلائیٹ دَور میں جی رہے ہیں۔’’ اسٹار وارز‘‘ کے مصنّف کا یادگار جملہ،’’ space, the final frontiers of mankind ‘‘ یعنی ’’خلا ، انسان کی تسخیر کی اخری سرحدیں،‘‘ شاید اسی کی عکّاسی کرتا ہے۔

تازہ ترین