پروفیسر شاداب احمد صدیقی،حیدرآباد
سندھ میوزیم حیدر آباد، سندھ کی قدیم تاریخ، تہذیب و تمدن اور ثقافت کا ایک اہم معلوماتی مرکز ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ آج تک جن قوموں نے اپنی ثقافت کو فروغ دیا، وہ ہمیشہ تاریخ کے اوراق میں زندہ رہتی ہیں۔وادیٔ سندھ بھی اپنے دامن میں دُنیا کا قدیم ترین تہذیبی ورثہ اور ثقافت سموئے ہوئے ہے۔ ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے کے لیے میوزیم یا عجائب گھر قائم کیے جاتے ہیں۔ میوزیم کسی بھی جگہ کے رسم و رواج اور پرانی تہذیب کو نمایاں کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے تاکہ عوام کو قدیم تہذیب و تمدن، تاریخ، رہن سہن، مقامی فن و ہنر اور نام ور ہستیوں کے حوالے سے روشناس کروایا جا سکے۔ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ورثہ دو طرح کا ہوتا ہے، مرئی اور غیر مرئی۔ مرئی اشیاء وہ ہوتی ہیں ،جنہیں ہم ٹھوس شکل میں اپنے سامنے دیکھ سکتے ہیں، مثلاً فن ِ تعمیر، مصوری، صنم تراشی، ثقافتی، کندہ کاری، زردوزی وغیرہ، جب کہ غیر مرئی ثقافتی ورثے میں شعر و ادب وغیرہ آتے ہیں۔ ٹھوس شکل میں نظر آنے والا ثقافتی ورثہ خود بخود محفوظ نہیں رہ سکتا، جب تک میوزیم میں محفوظ نہیں کیا جائے۔ بالکل اسی طرح سرمئی شاموں اور ٹھنڈی ہوائوں کے شہر حیدر آباد کے پرُفضا مقام پر 1971ء میں’’سندھ میوزیم‘‘ قائم کیا گیا۔
یہ رانی باغ، ڈاکٹر دائود پوتہ لائبریری کے قریب واقع ہے، سندھ میوزیم کا باقاعدہ افتتاح 9؍اپریل 1993ء میں اُس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ سید مظفر حسین شاہ نے کیا۔ یہ میوزیم سندھ کی ثقافتی تاریخ، رہن سہن، ہنر، لباس کو ایک جگہ جمع کر کے محفوظ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہاں قدیم سندھی تہذیبوں کے نوادرات اور آثار قدیمہ سے حاصل ہونے والی تاریخ اشیاء رکھی گئی ہیں۔ سیاحوں اور مقامی لوگوں کی بڑی تعداد سندھ میوزیم آتی ہے۔ایک اندازےکے مطابق یہاںہر سال 15000سے 20000سیاح آتے ہیں۔خاص طور پر ایران، چین، ترکی، جرمنی، آسٹریلیا اور جاپان کے سفراء یہاں کا دورہ کر چکے ہیں۔ اس کے علاو ہ یورپ، ایشیاء اور امریکاسے بھی سیاح آتے ہیں۔
سندھ میوزیم کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے 1۔ ڈسپلے گیلریز 2۔ اوپن ایئر سیکشن۔سندھ میوزیم کے داخلی دروازے کے پاس سب سے پہلے ممتاز مرزا آڈیٹوریم ہے، اس کے ساتھ ہی چند قدموں کے فاصلے پر سندھ میوزیم کا داخلی دروازہ ہے۔ اندر داخل ہوتے ہی سندھی گھر کی ثقافت کو انتہائی خوب صورتی سے اُجاگر کیا گیا ہے، جسے دیکھ کر حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔ گھر میں سات کرداروں کو زندگی بسر کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ گھر کا ہر فرد اپنے کام میں مشغول نظر آ تا ہے۔یہاں گھریلو اشیاء کو انتہائی سلیقے سے اپنی جگہ رکھا گیا ہے۔ منظر میں دکھایا گیا ہے کہ ایک پلنگ پر ایک بزرگ اور چھوٹا بچہ بیٹھا اپنی پڑھائی میں مشغول ہے اور تختی پر کچھ لکھ رہا ہے۔ ساتھ ہی بیٹھے بزرگ گھر والوں سے مخاطب ہیں۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ بچے کو پڑھائی میں مشغول دکھانے کا مقصد گائوں ، دیہات میں تعلیم کا شعور بیدار ہو چکا ہےبتانا ہے۔ شخصیات کا روپ دھارے سندھی مجسمے بالکل حقیقت کا گمان کرتے ہیں۔ گھر کی ایک عورت چکی پیستی ہوئی نظر آتی ہے، جب کہ بزرگ خاتون سندھی جھولے پر ، ان کے سامنے دو مزید خواتین بیٹھی ہیں۔ ان میں سے ایک سندھی عورت سامان بیچ رہی ہیں۔ اناج محفوظ کرنے کے لیے مٹی کا بڑا مرتبان رکھاگیا ہے۔ دیوار پر سندھی ثقافت کی پہچان کلہاڑی لگی ہوئی ہے۔ بہت خوب صورتی سے سندھی گھر کی عکاسی کی گئی ہے۔ پس منظر میں دیدہ زیب سینری آویزاں ہے۔ یہ پینٹنگ سندھ میوزیم کے سابق ڈائریکٹر مصور، مجسمہ ساز، آرٹس ظفر علی شاہ کاظمی کی بنائی ہوئی ہے۔ ظفر علی کاظمی وہ پہلے سندھی مصور، مجسمہ ساز ہیں، جن کی ہر تخلیق میں سندھی دھرتی کے ذرے ذرے کا عکس نظر آتا ہے۔ ان کے نام سے سندھ میوزیم میں ایک گیلری منسوب کی گئی ہے۔
سندھی گھر کے ساتھ ہی چند قدموں کے فاصلے پر بائیں جانب پری لٹریٹ گیلری یا چلڈرن گیلری موجود ہے، اس کے قیام کا مقصد طلباء اور نوجوانوں کو سائنسی اور جغرافیائی معلومات فراہم کرنا ہے۔ اس میں شمسی نظام کو ماڈلز اور چارٹس کی مدد سے بتایا گیا ہے۔ جس سے نظام شمسی کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے۔ زمین کی گردش کے مختلف مناظر دکھائے گئے ہیں ،اس کے ساتھ ہی زندگی کے ارتقاء اور قدیم ابتدائی جانداروں خاص طور پر جانوروں، پرندوں، سمندری آبی حیات، ڈائنوسار کے مختلف مراحل چارٹس کی مدد سے دکھائے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں، گیلری میں جنگلی پرندے اور جنگل کے ماڈلز،وغیرہ بھی رکھے گئے ہیں۔ انسان کی ارتقاء کی منظر کشی کچھ ااس انداز میں کی گئی ہے، کہ انسانوں کو بندروں کی شکل میں دکھایا گیا، غاروں کے ماڈل میں انسانی زندگی کا وجود دکھایا گیا ہے۔ اس کے بعد انسانی زندگی غاروں سے نکل کر جھونپڑی اور گھاس اور لکڑی سے بنے ہوئے ہٹ نما گھروں میں منتقل ہو گئی اور انسان نے کھیتی باڑی اور کاشت کاری شروع کر دی۔ جانوروں والی انسانی زندگی مہذب ہو گئی اور گزر بسر کے لیےزراعت کے پیشہ کو اپنایا اور اناج اُگا کر اپنی روزی روٹی کا ذریعہ بنایا، آب پاشی کا نظام، کنویں سے پانی بھرنے کا منظر اور آخر میں گائوں کا منظر پیش کیا گیا ہے۔ لٹریٹ گیلری میں سندھ کی دیہی زندگی کے مختلف ادوار کو ترتیب وار پیش کیا گیا ہے۔ گیلری کے بالکل سامنے دائیں ہاتھ پر آرکیالوجیکل گیلری موجود ہے، یہ سینٹرلی ایئر کنڈیشنڈ ہے ،اس میں سندھ کا قدیم تاریخی و ثقافتی ورثہ رکھا گیا ہے۔ آرکیالوجیکل گیلری ایک ایسی ہی تاریخی پہچان رکھتی ہے جو تعمیرات کے روپ میں گزرے ہوئے ادوار کی یادگار اور مستقبل کے لیے رہ نمائی ہے۔ زندہ قومیں اپنے تاریخی ورثے کو سنبھال کر رکھتی ہیں تاکہ آنے والی نسلیں ماضی سے باخبر رہیں۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے سندھ میوزیم میں آرکیالوجیکل گیلری کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس گیلری میں قدیم تہذیبوں کے نوادرات معلومات اور اُس زمانے کی مختلف گھریلو اور جنگلی ہتھیار کو ترتیب وار ڈسپلے کے لیےرکھا گیا ہے، تاکہ سیاح اور خاص طور پر طلباء بہ خوبی معائنہ کریں اور معلومات سے مستفید ہو سکیں۔ یہاں شو کیس میں سندھ کے مختلف ادوار کے نوادرات رکھے گئے ہیں، جیسےآمری (موجودہ ضلع جام شورو)کی کھدائی کے دوران یہاں کچھ ایسی اشیاء ملیں ،جو کہ موہن جو جودڑو کے دور سے پہلے کی تھیں،جن میں نوکیلے پتھر، پوٹری،وغیرہ شامل ہیں۔دوسرے شوکیس میں کوٹ ڈیجی سے ملنے والے نوادرات رکھے گئے ہیں، جن میں مٹی کے برتن وغیرہ شامل ہیں۔ کوٹ ڈیجی کے ساتھ ہی موہن جودڑو کا شو کیس ہے، جس میں اس دور کی چند نایاب اشیاء رکھی ہوئی ہیں ۔میوزیم میں گھومتے ہوئے جب ان چیزوں کا جائزہ لے رہے ہوتےہیں، تو تاریخ کی دُنیا میں کھو جاتےہیں اور ذہن میں اس دُنیا کا وجود چل رہا ہوتا ہے۔سندھ میوزیم سحرانگیز ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک تاریخ اور داستان کا تصور،موہن جودڑو کے بعد کاہو جو دڑو کے نوادرات بھی اس گیلری کی زینت ہیں۔اگلا شو کیس گندھارا آرٹ، بدھسٹ آرٹ کے نوادرات سے آراستہ ہے۔ بدھا کی زندگی کی کہانی پرمشتمل ہے گندھارا آرٹ مورین حکمران اسٹو کا 273-232B.Cکے زمانے میں وجود میں آیا۔ گندھارا آرٹ چار ادوار پر مشتمل ہے۔مورین عہد، کشن عہد ،گپتا عہد ،پوسٹ گپتا عہد۔ سندھ میوزیم کی اس گیلری میں گندھارا آرٹ یا بدھسٹ آرٹ کے نوادرات دیکھ کر آپ لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد اسلامی دور کا شوکیس جس میں اسلامی تاریخ نوادرات کی شکل میں محفوظ ہے۔اس میںدیبل کی اوپر والی سطح کی کھدائی کے دوران ملنے والےٹوٹے ہوئے مٹی کے برتن ملے، جن پر زیادہ تر ایرانی آرٹ کے اثرات تھے،ان پر پھول پتیوں اور جیومیٹریکل ڈیزائن بنے ہوئے ہیں۔ ڈسپلے میںپانی کا ایک برتن رکھا گیا ہے، جو نیلے اور ہرے رنگ کا مرکب ہے، یہ گہرا سبز دکھائی دیتا ہے۔ اسلامی دور تیرہویں صدی عیسوی تک مشتمل ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ سندھ دھرتی کی تاریخ نے بھی کروٹ بدلی۔ مختلف حکمرانوں نے سندھ پر حکومت کی اور انگریزوں کے خلاف معرکہ آراء ہوئے، اس زمین نے بہت سےنشیب و فراز دیکھے ۔ اس کی قدیم تاریخ کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ سندھ میوزیم اس دھرتی کی تاریخ کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ آرکیالوجیکل گیلری کے اندر ہی بالکل سامنے ’’Ethonological Gallery ‘‘ یعنی علم الانسان یا خلقیاتی معلومات، کی گیلری ہے۔ اس میں سندھ کے مختلف حکمرانوں کے ادوار ترتیب وار نمایاں کیے گئے ہیں۔ گیلری کی شروعات میں سب سے پہلے سومرادور کو نمایاں کیا گیا ہے یہ دور میوزیم کی معلومات کے مطابق 1050-1350A.D پر مشتمل ہے۔ اس کے علاو ہ سمادور1351-1520A.Dمغل دور 1599-1719AD، کلہوڑو دور 1719-1786A.D ،تالپوردور 1788-1843A.D، انگریزدور 1843,1947A.D، ان تمام ادوار کے حکمرانوں کی تاریخ بیان کی گئی ہے، اور ان کے روایتی ملبوسات، زیورات، دست کاری اور موسیقی کے آلات کو مکمل معلومات کے ساتھ ڈسپلے کے لیے شوکیس کی زینت بنایاگیا ہے۔ اس گیلری میں سندھی لباس اورقدیم ثقافت کو خوب صورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ خاص طور پر میگوار اور بھیل قوم کے ملبوسات قابل ذکر ہیں، علاوہ ازیں قدیم موسیقی کے آلات سروند کماچ، اک تارا، بانسری اور شاہ عبداللطیف بھٹائی کا موسیقی کا ساز تنبورو بھی رکھے ہوئے ہیں۔ گیلری کی خاص بات کھلونے کی ا شیاء خوب صورتی سے شو کیس میں ڈسپلے کیےگئے ہیں۔ جوگی کا لباس اور اس کی استعمال کی مختلف اشیاء بین، مصنوعی سانپ ، اجرک کے قدیم دور کے ڈیزائن اور چھپائی کا سامان، موتیوں سے بنائی گئیں مختلف اشیاء بھی شو کیس کی زینت بنائی گئی ہیں۔ ڈسپلے کے لیے رکھی گئیں دیگر مختلف گھریلو اشیاء میں سندھی کھیس، لنگی، چرخہ، بکری ، دنبے اور اونٹ کے بالوں سے بنائی گئیں اشیاء، چنری، رللّی وغیرہ بھی رکھی ہوئی ہیں۔ میوزیم میں گوٹھ کا منظر بھی دکھایا گیا ہے، جہاں اوطاق، کنویں سے پانی بھرنے والی لڑکی، ڈھول بجانے والے لوگ سندھی ثقافت کی عکاسی کر رہے ہیں۔ یہاں سندھ کے مختلف پیشوں سے وابستہ ہنر مندوں کو ماڈلز کے ذریعے اپنے کام میں مصروف دکھایا گیا ہے۔اسے ہنرمندوں کی گیلری بھی کہہ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کمہار، لوہار، کھڈی پر سندھی کپڑے کا کام، کاشی کا کام کرنے والا یہ کام زیادہ تر ہالا اور نصر پور میں ہوتا ہے۔ اجرک سازی کرنے والا، یہ کام بھی ہالا، مٹیاری اور ٹنڈوں محمد خان میں ہوتا ہے۔ یہاں اس کے ہنرمند زیادہ تعداد میں ہیں۔ بڑھئی لکڑی کا کام کرتے ہوئے اور روٹی بناتے ہوئے دکھایا گیا ہے ،یہ تمام ماڈلز حقیقت کا گمان پیدا کرتے ہیں۔
سندھ کے مشہور آرٹسٹ ظفر کاظمی کے نام سے منسوب آرٹ گیلری میں مختلف مواقع پر نمائش کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ میوزیم کا بیرونی حصہ اوپن ایئر سیکشن کہلاتا ہے ،جہاں اوطاق اور چوئنرے(تھر ی گھر) موجود ہیں۔ اندرونِ سندھ کے دیہی علاقوں میں مہمانوں کے لیے اوطاق ضروربنائی جاتی ہیں۔جہاں مہمانوںکو بٹھایا جاتا، ان کی خاطر تواضع کی جاتی ہے۔ چوئنرے تھر کی تہذیب اور ثقافت کو اُجاگر کرتے ہیں۔ سیاح اوپن ایئرسیکشن میں گہری دلچسپی لیتے ہیں۔ سندھ میوزیم میں لائبریری اور ریسرچ سیل بھی قائم کیا گیاہے ،یہاں انگریزی، اردو، سندھی، فارسی اور عربی زبانوں میں کتابیں، تاریخی مسودے ،آرکیالوجی، کلچرل آرٹ پر مشتمل کتابیں رکھی ہوئی ہیں۔ سندھی اسکالر، محقق،یہاں تمام علوم کی کتابوں سے مستفید ہوتے ہیں۔ یہ لائبریری علامہ دائود پوتہ لائبریری کے نام سے مشہور ہے۔ طلباء کی بڑی تعداد یہاں کا رخ کرتی ہے۔
یہاں ایک سینٹرلی ایئر کنڈیشنڈ آڈیٹوریم بھی ہے، جسے ممتاز مرزاآڈیٹوریم کہتے ہیں۔یہاں تقریباً 350 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ ثقافتی سرگرمیاں، سیمینار، محفل موسیقی اورتعلیمی پروگرام بھی منعقد کیے جاتے ہیں، علاوہ ازیں ،سندھی موسیقی کی تعلیم بھی دی جا تی ہے۔ یہ آڈیٹوریم سندھ کے ممتاز سندھی ادیب ممتاز مرزا مرحوم کے نام سے منسوب ہے ۔
سندھ میوزیم کے بارے میں مزید ترقیاتی کاموں کے بارے میںمیوزیم کے موجودہ ڈائریکٹر سید محمد رضا نے کہا کہ ہم نےیہاںسولر انرجی سسٹم نصب کیا ۔ اس کے علاوہ جانوروں کے ماڈلز اور مجسمے لانے کا ارادہ ہے ، خاص طور پر مور، ہرن وغیرہ ۔ مزید مختلف قسم کی گیلریاں زیر تعمیرہیں۔ خاص طور پر پرسنیلیٹی گیلری سندھی شخصیت کی گیلری، اس میں مرحوم محقق، دانش وروں ، ادیبوں، گلوکاروں اور موسیقاروں کی ذاتی استعمال کی اشیاء کو محفوظ کیا جائے گا۔ پورے میوزیم میں کاشی کاکام کیا جائے گا۔ جس سے سندھی ثقافت کی منفرد عکاسی ہوتی ہے۔مستقبل میں ہنر مندوں کی گیلری میں لنگی اور لکڑی کا کام کرنے والے اور دیگر ہنر مند عملی طور پر اپنےفن کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔
موجودہ دور میں بھی سندھی شعراء، ادیب، محقق، موسیقار، فن کار اور طلباء اس دھرتی کی فلاح و بہبود اور ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ زمین زرخیز اور علم کا گہوارہ ہے، یہاں باصلاحیت افراد کی کمی نہیں، آج بھی شاعری اور موسیقی کے ذریعے سندھ دھرتی کے رسم و رواج، ثقافت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔