• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خدا خدا کر کے پاکستان میں عام انتخابات کا عمل مکمل ہوگیا ہے اور نئے پاکستان کی دعویدار تحریکِ انصاف برسرِ اقتدار آگئی ہے۔ ان انتخابات کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ پاکستان کی اکہترسالہ تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستان میں تواتر کے ساتھ تیسرے عام انتخابات منعقد ہوئے جبکہ بھارت اور ہمارے سابقہ مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کا ریکارڈ ہم سے بہت اچھا ہے ۔ ہم اس دوڑ میں اُن سے اتنا ہی پیچھے رہ گئے ہیں جتنا اقتصادی، معاشی اور سماجی ترقی کی دوڑ میں پیچھے ہیںکہ بنگلہ دیش کے زرِ مبادلہ کے ذخائر بھی ہم سے تین گنا زیادہ ہوچکے ہیں۔ اور قوموں کی اصل طاقت ان کی فوجی نہیں اقتصادی قوّت ہوتی ہے۔ کیونکہ دنیا کی دوسری بڑی سپر پاور سوویٹ یونین ہم سے کئی گنا بڑی ایٹمی طاقت تھی لیکن جب اسکی اقتصادی حالت خراب ہوئی تو اس عظیم ایٹمی طاقت کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا۔ چنانچہ کسی بھی ملک کی ہمہ جہت ترقی کے لئے سیاسی عمل کا تسلسل اور سیاسی استحکام بہت ضروری ہے۔ ان عام انتخابات کی سب سے بڑی اہمیّت یہی ہے کہ یہ جمہوری عمل کے تسلسل کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ باقی اس کی شفافیّت اور منصفانہ ہونے کے بارے میں سوالات اپنی جگہ جواب طلب ہیں۔ لیکن اس ایک سنگِ میل کو عبور کرنے پر بھی ہماری قوم مبارکباد کی مستحق ہے کہ جس ملک میں ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ، جمہوریت اور سیاستدانوں کو بدنام کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جاتی ، وہاں تواتر کے ساتھ تیسرے عام انتخابات منعقد ہوگئے۔ انتخابات کے تواتر کے ساتھ منعقد ہونے کا اعزاز تو ہم نے حاصل کر لیا ہے اب ہماری یہ دعا اور کوشش ہونی چاہئے کہ ہمارا کوئی منتخب وزیرِ اعظم بھی اپنی معیاد پوری کرلے۔ کیونکہ اس معاملے میںہمارا سکور ابھی تک صفر ہے۔ یہ انتخابات جہاں امرِ مسّرت ہیں وہیں اس میں کچھ ایسی ناپسندیدہ باتیں بھی سامنے آئی ہیں۔ جو اگر نہ ہوتی تو بہتر ہوتا اور وہ ہے اندھی عقیدت، اندھی نفرت اور عدم برداشت ۔ اگرچہ انتہا پسندانہ رویّے کسی بھی مسائل کے ہاتھوں پریشان قوم کے مزاج کا ایک حصّہ بن جاتے ہیں لیکن اگر انہیں نہ روکا جائے تو یہ معاشرے میں بگاڑ اور فسطائیت کا باعث بننے لگتے ہیں۔ یوں تو تقریباََ ہر پارٹی کے لیڈروں اور ورکروں نے اپنے مخالفین کے خلاف قابلِ اعتراض زبان اور پوسٹیں استعمال کیں لیکن ایک جماعت کے حامیوں نے اس سلسلے میں زیادہ گرمجوشی کا مظاہرہ کیا اور مخالفین کے ساتھ جوشِ رقابت میںرشتے داریوں اور دوستیوں کی پروا بھی نہیں کی۔ ہمارا آج تک کا سب سے بڑا قومی المیہ ہی انتہا پسندی ہے۔ انتہا پسندی صرف مذہبی ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کی کئی قسمیں ہوتی ہیں اور یہ زندگی کے ہر شعبے میں پائی جاتی ہے۔اور اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آدمی صحیح فیصلے کرنے کی صلاحیّت سے محروم ہوجاتا ہے اسی لئے دنیا کے ہر مذہب اور ضابطہ اخلاق میں اعتدال پسندی کا حکم دیا گیا ہے۔ اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ اندھی عقیدت اور اندھی نفرت کا شکار افراد اور اقوام بالآخر بصارت اور بصیرت دونوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اختلافِ رائے رکھنا اور بصد احترام دوسرے کے خیالات پر تنقید کرنا ایک مثبت عمل ہے جس سے پالیسوں کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے لیکن گالم گلوچ اور مخالفت برائے مخالفت سے قومی معاشرہ تنائو کا شکار ہوجاتا ہے ۔ یہ عجیب بات ہے کہ اگر کسی کی بات پسند نہ آئے تو بغیر ثبوت و دلیل اسے غدّار یا کافر قرار دے دیا جاتا ہے۔ یا صحافیوں کے بارے میں’’لفافہ‘‘ جیسے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ میری بہوریما عمر جو کیمبرج یونیورسٹی سے لا پوسٹ گریجویٹ ہے اور انسانی حقوق کے بارے میں ایک بین الاقوامی ادارے کی رکن ہیں۔ جیو ٹی وی کے مشہور پروگرام ’’ رپورٹ کارڈ‘‘ میں بطورِ تجزیہ نگار اور ایکسپرٹ کے طور پر آتی ہیں۔ حالانکہ وہ انتہائی نرم گفتار اور متوازن خیالات رکھنے والی ہیں اور وہ کسی ایک پارٹی کی بے جا تعریف یا مذّمت بھی نہیں کرتی لیکن وہ جب کبھی ایکجماعت کی پالیسیوں پر مثبت تنقید بھی کرے تو اس کے حامی سوشل میڈیا پر اس کے خلاف ایک طوفان برپا کر دیتے ہیں اور اسے نجانے کِس کِس کی ایجنٹ قرار دے دیتے ہیں ۔ یہی حال طلعت حسین ، سلیم صافی اور یاسر پیر زادہ جیسے صحافیوں کا ہے ۔ جو بلاشبہ اپنے قلم کا استعمال انتہائی دیانتداری اور غیر جانبداری سے کرتے ہیں لیکن ان کے خلاف بھی نفرت انگیز پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ میری کسی سے کوئی ذاتی پرخاش نہیں ۔ لیکن یہ میرا حق ہے کہ میں کسی کی بھی پالیسیوں کے بارے میں اختلافی رائے دوں۔ جب تعلیم یافتہ افراد یہ سب کچھ کریں گے تو جو لوگ تعلیم یافتہ نہیں ہیں ان سے خوش اخلاقی کی آپ کیسےامید رکھ سکتے ہیں، قوم کو ان چیزوں سے نکالنے کی ضرورت ہے۔ جب آپ ایسا کرتے ہیں تو لوگ بغیر دلیل اور ثبوت کے آپ کو گالیاں دینے لگتے ہیں۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے کہ جمہوریت کی مضبوطی کے لئے رواداری اور برداشت کا عمل نہایت ضروری ہے تاکہ ہماری نوزائیدہ جمہوریت پٹری سے اتر نہ جائے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عمران خان قوم سے کئے گئے وعدے پورے کریں اور پاکستان کی تاریخ میں اپنی معیاد پوری کرنے والے پہلے وزیرِ اعظم بن جائیں ۔ میری دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین