• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

حضرت علامہ نے فرما رکھا ہے کہ :

The Modern western civilization is the prolongation of Islamic civilization

مگر حقائق کی کسوٹی پر اس نوع کے دعوئوں کو پرکھیں تو یہ صورتحال سامنے آتی ہے کہ ہمارے عالم اسلام کی جو بھی بڑی شخصیت ویسٹ آئی ایک سوال کے جواب میں اس سے منسوب اس نوع کے جملے ہمیشہ اہتمام کے ساتھ بیان کئے گئے۔ مفتی عبدہ یا جامعہ الازہر کے مفتی اعظم جب مغرب سے لوٹے تو پوچھا گیا آپ نے یورپ کو کیسا پایا؟ جواب میں فرمایا کہ وہاں میں نے مسلمانوں کے بغیر اسلام کو دیکھا ہے جبکہ اپنے ممالک میں مسلمان تو دیکھے ہیں مگر اسلام نہیں۔

درویش کو کسی نوع کے دعوئوں کی ضرورت نہیں انسان بات وہ کرے جو عالمی تحقیقی معیار پر پوری اترتی ہو، ورنہ کھوکھلی لچھے دار باتیں کرکے اپنوں کو خوش کرنا اور اپنی مقبولیت بڑھانے کے اہتمام میں لگے رہنا کونسا مشکل کام ہے۔ جدید مغربی تہذیب کی عالمی فکر، ترقی و سربلندی کا ہمہ پہلو جائزہ لیاجائے تو اس کی بنیادیں اس کے اپنے ہی خمیر میں دو حوالوں سے موجود تھیں۔ اول یونانی سائٹیفک اور لاجیکل تہذیبی اٹھان خود ان کے شہرہ آفاق عظیم فلاسفرز کی فکری بلندی کا ثمر ہے جن میں سقراط، افلاطون اور ارسطو نمایاں ترین ہیں۔ دوسرے Jesus یعنی سیدنا مسیح یا ان سے منسوب تعلیمات جن میں عاجزی، حلیمی، برد باری کے ساتھ موسوی شریعت کی شرعی موشگافیوں یا کرختگیوں سے انحراف یا بغاوت کے عوامل داخل ہیں اس برداشت اور رواداری کی سوچ نے اقوام مغرب کے اذہان میں وہ لچک پیدا کی کہ چرچ کی تمامتر اجارہ داری و غضب کے باوجود دین اور سیاست میں دوئی کو قبول کرلیا گیا۔ مذہب کا روایتی تقدس قائم رکھتے ہوئے اسے بندے اور خدا کا معاملہ قرار دے دیا گیا۔ یہ دو اصل جڑیں یا بنیادیں ہیں جن پر جدید مغربی تہذیب کا فلک بوس اور بلند وبالا اسٹرکچرتعمیر ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم اس کا تقابل اپنے تہذیبی نظریات سے کرتے ہیں تو ہمیں قدم قدم پر تضادات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ردعمل میں بجائے اپنے سخت نظریات کا تنقیدی جائزہ لینے یا ان پر نظرثانی کرنے کے ہم اپنے لوگوں کو مطعون کرتے ہوئے تلخ حقائق پر تقدس کے لبادے چڑھا دیتے ہیں۔ نقصان اس کا یہ ہو رہا ہے کہ ہم خود قول و فعل کے تضاد، دوعملی یا منافقت کا شکار ہورہے ہیں۔ خود ہمارے اپنے ممالک میں تو پھر بھی بوجوہ یہ تضادات اتنے نمایاں نہیں ہو پاتے ہیں یااپنے تہذیبی تقدس میں چھپا دیئےجاتے ہیں جبکہ مغربی ممالک میں دورخا پن زیادہ بری صورت میں نمایاں ہوتا ہے۔

یہاں ہمارے بھائی تمام مانع کام کرلیں گے مگر کھانا کھانے کے لئے حلالی دکانوں یا ہوٹلوں کی طرف دوڑ رہے ہوںگے۔ یہاں کی شہریت حاصل کرنے کے لئے کاغذی طور پر یک صنفی میرج تک پہنچ جائیں گے، مختلف النوع مفادات یا فائدے اٹھانے کے لئے بڑے سے بڑا جھوٹ بول لیں گے بلکہ جھوٹی کہانیاں گھڑلیں گے مگر مسلمان کی بات آئے گی تو عقیدے کی تیز تلواربن کر جھومنے لگیں گے۔ اپنے نظریات کے بالمقابل مسلمہ سچائیاں بھی جھوٹ، اپنے علاوہ دیگر تمام گمراہ جہنمی، ایسے میں حقیقی اشتراک کیسے پروان چڑھ سکتا ہے۔ پھر بھی بھلا ہو لبرل سوچ کی کاٹ اور اثر آفرینی کا جو ان تمامتر تعصبات کی دیواریں توڑتے ہوئے مسلم اذہان پر حاوی ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی برکت سے نہ صرف یہ کہ ہم آہنگی کی ایک فضا پروان چڑھ رہی ہے بلکہ ہمارے لوگ مغربی سوسائٹی میں بہتر رول ادا کرتے ہوئے معاش کے ساتھ عزت بھی کما رہے ہیں۔ یہاں نقاب یا حجاب کے نام پر جو کچھ ہوتا ہےوہ مغربی اذہان پر قطعاً کوئی اچھا اثر نہیں ڈالتا ہے۔ اگر آپ باوقار لباس پہنے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھیں تو ہوسکتا ہے اقوام دیگر کی بچیاں بھی اس فیشن کی خوبصورت کو اپنانا چاہیں، اے میری پیاری مسلم اقوام کے مہربانو آخر ہمہ وقت آپ لوگ نان ایشوز میں کیوں الجھے رہتے ہو۔

اہل مغرب نے جھوٹی تصنع بناوٹ، سونے چاندی کے بھاری زیورات، دولت کی بے جا نمود و نمائش جیسی خرافات کو ختم کرتے ہوئے پوری سوسائٹی کو انسانی مساوات کا محض زبانی کلامی نہیں بلکہ بالفعل جو درس دیا ہے آپ اس کی قدر افزائی کرو۔ ہمارے مسلم ممالک کی معاشرت میں لڑکی پیدا ہونے پر آج بھی اندر خانے جو صف ماتم بچھ جاتی ہے، کس قدر مقام عظمت ہے کہ مغربی تہذیب نے اس اذیت سے ہم سب کی جان چھڑوا دی ہے۔ یہاں بچے بچیاں پیار محبت سے اکٹھے رہتےہیں، اکٹھے کام یا محنت مزدوری کرتے ہیں تو اس کی ستائش ہونی چاہئے۔

لندن میں گھومتے اور یہاں کے باسیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اتنی خوشی ہو رہی ہے لوگ کہتے تھے آپ مغربی تہذیب کے مداح اس واسطے ہیں کہ ابھی آپ نے اسے پوری طرح دیکھا نہیں ہے جب یورپ جائو گے تو آپ کی تمامتر نرگسیت زمین بوس ہو جائے گی۔ اب یہاں آکر ان کی ستائش میں کچھ لکھا جائے تو کہا جائے گا کہ بھائی آپ یہاں رہے ہی کتنا ہیں؟ اتنے چھوٹے ٹور سے اتنے بڑے فیصلے مت کیجئے یہاں زیادہ مدت تک رہیے ان لوگوں کو قریب سے ملاحظہ کیجئے تو پھر...... ادراک یہ کہتا ہے کہ پھر کوئی اور قدغن عائد کر دی جائے گی کیونکہ ماننا ہم نے نہیں ہے، بات جب نظریات کی آ جاتی ہے تو پھر ایک سو ایک دلائل بھی ناکارہ و بے وزن لگتے ہیں۔

لندن والوں نے دنیا کے بڑے بڑے خطوں پر اتنی طویل حکمرانی کی ہے لیکن ان کے ہاں اس پر ایسا کوئی تفاخر نہیں۔ تمام فاتحین کو جارحین کہنے والی مینارٹی کی بجائے میجارٹی میں ہیں کوئی ایک فاتح یا قومی ہیرو ایسا نہیں جو تنقید سے بالاتر رکھا گیا ہو۔ ان کے اپنے لوگ ان کے خوب لتے لیتے ہیں۔ ہائیڈپارک میں کوئین کوبھی معافی نہیں، بے نقط سنائی جاسکتی ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم گریٹر پارک، ریس کورس یا لارنس گارڈن میں سے کسی جگہ کو یہ مقام دے دیں کہ یہاں آ کر ہر کوئی اپنے دل کی بھڑاس نکال سکتا ہے۔ یہاں کے مباحث بھلے ناقابل اشاعت قرار دےدیں۔آزادی اظہار کو اعلیٰ ترین انسانی اقدار میں کب کماحقہ مقام مل پائے گا جس سے آج بشمول لندن پورا مغرب فیضاب ہو رہا ہے یہاں جنسی یا نسلی امتیاز کو ایک جرم سمجھا جاتا ہے اور ہماری تمنا ہے کہ ہمارے خطوں میں بھی ان امتیازات کو جرائم کے طور پر دیکھا جائے۔

کل عمران کرسٹوفر نے پوچھا کہ آپ کو انگلینڈ کی کونسی چیز اچھی لگی ہے تو جواب دیا کہ یہاں کی منظم یا Disceplinedلائف، ہر کوئی انہماک کے ساتھ اپنے کام میں دوڑا جا رہا ہے۔ دوسروں کی بجائے ہر کسی کو اپنی فکر ہے بلکہ دوسروں میں کیڑے نکالنے یا ڈالنے کے لئے کسی کےپاس وقت ہی نہیں ہے، الٹے ہر کوئی دوسرے کو راستہ دے رہا ہوتا ہے۔ کہیں بھی داخل ہونا ہو فوراً ازخود ایک لائن بن جاتی ہے کسی کو کچھ کہنا ہی نہیںپڑتا۔ ٹرین کے سفر میں یہ دیکھا کہ اگر کوئی اپنی کسی چیز کی درستی میں رستہ روکے کھڑا ہے تو آنے والا کچھ کہے یا بولے گا نہیں انتظار کرے گا اور رکاوٹ بننے والے کی اگر نظر پڑ گئی ہے تو وہ ایک لمحے کا توقف کئے بغیردوسروں کو فوری رستہ دے گا۔ چلتی سیڑھی پر کھڑے ہونے والے ایک سائیڈ پر کھڑے ہوں گے تاکہ کسی دوسرے گزرنے والے کو مشکل پیش نہ آئے۔ ڈرائیور دیکھے نہ دیکھے بس میں بیٹھنے والے اپنا کارڈ مشین کے ساتھ ضرور ٹچ کریں گے۔

بزرگوں یا اسپیشل لوگوں کے لئے سیٹیں مخصوص ہیں تو ان کی آمد پر کسی کو کچھ کہنا نہیں پڑے گا، لولے لنگڑے ، بچے بوڑھے ہر کسی کے لئے ایک Spaceہے، پارکس میں جانے والوں یا فٹ پاتھ پر چلنے والوں کا بھی پورا ڈسپلن ہے حتیٰ کہ کوئی کسی کو گھورتا تک نہیں، اونچی آواز میں بولتا نہیں، کسی دوسرے کے لئے ڈسٹربنگ کا تو سوال ہی پیدا نہیںہوتا۔ کوئی کسی کو لیکچر نہیں دے رہا، وعظ نہیں کر رہا ،تو پھر یہ سارا ڈسپلن ان کو کس نےسکھارکھا ہے؟ قانون پر عمل داری نے، نیا آنے والا بھی دوسروں کو دیکھ کر خود ہی سیکھ لیتا ہے، کسی کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ کوئی جلن نہیں، حسد نہیں، امیر غریب کا یا اونچ نیچ کا فرق اجتماعی زندگی میں کہیںبھی واضح نہیں ہوپاتا ہے۔ جن مسئلوں پر ہم لوگ لڑمر رہے ہوتے ہیں وہ گویا یہاں کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ پارکس یا جمنیزیم جائیں تو لگتاہے شاید سبھی اپنے آپ کو توانا و پھرتیلا رکھنے کی فکر میں ہیں۔ بوڑھے اتنے زیادہ ہیں اور سوسو سالوں کی عمروں کو پہنچے ہوئے ہیں، لگتا ہے کہ خدا نے ان کی عمریں ہی زیادہ لکھ دی ہیں۔ بوڑھے، بوڑھیوں کا بھی اپنا ایک وقار ہے۔

لائبریریوں میں جائیں تو بلاکی خاموشی میں لگتا ہے کہ شاید یہ نوجوان پیدا ہی ریسرچ کے لئے ہوئے ہیں یا روبوٹ ہیں جو کرسیوں میں فکس کردیئے گئے ہیں۔ ہر شعبے کے ایک سے بڑھ کر ایک میوزیم ہیں گویا انہوں نے اپنی تاریخ کو نئی نسلوں کے لئے ابدی طور پر محفوظ کردیا ہے۔ کسی سینما میں جانے کا ابھی تک موقع نہیں ملا ہے بہت زیادہ سیاحت کرتے ہوئے ایک لطف محسوس ہو رہا ہے، کالم لکھنے کو بھی جی نہیں مان رہا، نہ جانے لوگ سیاحت کے دوران لکھ کیسے لیتے ہیں، جی چاہتا ہے لکھنے کا کام واپس پہنچ کر کروں مگر.......

یہاں کے لوگ ہی حسین نہیں ہیں موسم بھی رنگینیاں بکھیرتا اور مستیاں لوٹاتا رہتا ہے میری شاعرانہ طبیعت کے عین مطابق پورا رومینٹک، بادلوں کے درمیان ہلکی پھلکی پھوار یا بوندا باندی....... لگتا ہے عطا کرنے والے نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین