اسلام آباد (نمائندہ جنگ، ایجنسیاں) عدالت عظمیٰ نے ’’پاکپتن کے ڈی پی اور ضوان گوندل کے تبادلہ‘‘ سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سمیت تمام چیف لاء افسران کو عوامی عہدہ کے غلط استعمال سے متعلق آئین کے آرٹیکل 62(1)f کے اسکوپ کا مطالعہ کرکے آنے کی ہدایت کی ہے جبکہ خاتون اول بشریٰ بی بی کے سابق شوہرخاور مانیکا، وزیراعلیٰ پنجاب کے دوست احسن جمیل گجر، آئی ایس آئی کے کرنل طارق، وزیراعلیٰ کے پی ایس او حیدر،اورسی ایس او عمر،اور ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹرز شہزادہ سلطان کو پیر کے روز ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا ہے۔ جبکہ ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ایک معمولی سے واقعہ میں وزیراعلیٰ پنجاب کہاں سے آ گیا ہے؟ وزیراعلی کا یار کہاں سے آ گیا ہے؟ آئی ایس آئی کا طارق کہاں سے آ گیا ہے؟ ڈی پی او کا تبادلہ کس کے کہنے پرکیا گیا ہے؟ کڑیاں مل رہی ہیں، اگر وزیراعلیٰ کے کہنے پر یہ تبادلہ ہوا ہے تو یہ غیرقانونی ہے، پولیس میں سیاسی مداخلت برداشت نہیں، کسی وزیراعلیٰ کیلئے بھی آرٹیکل 62 ون ایف کی ضرورت پڑسکتی ہے، خاور مانیکا کدھر ہے ؟ ڈی پی او کو معافی مانگنے کیلئے کیوں کہا گیا تھا؟ ہمیں اپنی پولیس کو بااختیار اور آزاد کرانا ہے، اگر پولیس نے خودہی بااختیار یا آزاد نہیں ہونا تو اس کی اپنی مرضی ہے،ہم پولیس کو سیاسی دبائو سے نکالنا چاہتے ہیں لیکن پولیس سیاسی دبائو سے نکلنے کی کوششوں کو متاثر کر رہی ہے۔جمیل گجر کون ہے،وہ کس طرح کسی افسر کا تبادلہ کروا سکتا ہے؟ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے جمعہ کے روز سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلہ کے حوالے سے از خود نوٹس کی سماعت کی تو عدالتی نوٹس پر آئی جی پنجاب،سید کلیم امام، (کیس کی تحقیقات پر مامور ) ایڈ یشنل آئی جی پنجاب، ابوبکر خدا بخش ، آر پی او ساہیوال رینج ، شاہد کمال صدیقی اور سابق ڈی پی او رضوان عمر گوندل سمیت متعدد پولیس افسران عدالت میں پیش ہوئے، فاضل چیف جسٹس نے آئی جی پنجا ب کو مخاطب کرتے ہوئے شدید برہمی کا اظہار کیا اور ان سے استفسار کیا کہ یہ خاور مانیکا کسی پولیس افسر سے معافی منگوانے والا کون ہوتا ہے؟ وزیر اعلیٰ پنجاب نے معافی مانگنے کے لئے ڈی پی او پر کیوں دبائو ڈالا ہے ، ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح دبائو کے تحت کسی افسر کا تبادلہ ہوتا ہے؟جس پر آئی جی نے موقف اختیار کیا کہ ان پر ڈی پی او،رضوان گوندل کے تبادلہ کے لئے کسی قسم کا کوئی دبائو نہیں تھا بلکہ ان کے خلاف محکمانہ طور پر کارروائی کی گئی ہے۔عدالت کے استفسار پر سابق ڈی پی او رضوان گوندل نے موقف اختیار کیا کہ مجھے طلب کر کے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے احسن جمیل گجر کو اپنے بھائی کے طور پر متعارف کروایاجبکہ آئی ایس آئی کے کرنل طارق نے بھی مجھے پیغام بھیجا تھا،رات ساڑھے بارہ بجے وزیراعلیٰ پنجاب سیکریٹریٹ کے ایک افسر کی طرف سے مجھے بتایا گیا کہ میرا تبادلہ کردیا گیا ہے۔ انہوں نے عدالت کے استفسار پر بتایا کہ ان کو وزیراعلیٰ پنجاب کے سیکرٹری نے فون کرکے بلایا تھا، وہاں وزیراعلیٰ کے ساتھ ایک شخص احسن گجر بھی موجود تھا جس نے مجھے کہا کہ میں خاور مانیکا کے ڈیرے پر جا کر معاملات کو درست کروں، مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ یہ پرائیویٹ بندہ تھا اور اس کا پورا نام احسن جمیل اقبال گجر ہے۔وزیراعلیٰ کے سامنے اس نے کہا تھا کہ مانیکا خاندان کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ احسن گجر کی بیوی اور خاتون اول بشریٰ بی بی آپس میں سہیلیاں ہیں، چیف جسٹس نے پوچھا کہ گجر کی بیوی کا نام کیا ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ اس کا نام فرح ہے۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ وہی فرح ہے جسکے گھر خاتون اول کا نکاح ہوا تھا؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہی خاتون ہیں جن کے گھر خاتون اول کی شادی ہوئی تھی۔ عدالت کے استفسار پر رضوان گوندل نے مزید بتایا کہ وزیراعلیٰ کے پی ایس او حیدر نے 24 اگست کو مجھے بلایا۔آر پی او کو بھی وزیراعلیٰ کے پاس بلایا گیا تھا،مجھے کہا گیا کہ آپ کو پیغام بھیجا گیا تھا لیکن آپ نے عمل نہیں کیا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا بیرون ملک سے پیغام کس نے بھیجا تھا تو رضوان گوندل نے کہا کہ میرے ایک ساتھی کے ذریعے پیغام بھیجا گیاتھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وزیراعلیٰ نے آپ کو کتنے بجے بلایا تھا ؟رضوان گوندل نے بتایا کہ وزیراعلیٰ نے رات 10 بجے بلایا تھا، میں نے احسن جمیل گجر کو بطور ڈی پی او ڈیرے پر جانے سے انکار کیا تھا، خاور مانیکا کے ڈیرے سے بھی کال آئی تھی کہ جن لوگوں نے خاتون کو روکا ہے انہیں اٹھالیں گے۔دوران سماعت اس واقعہ کی انکوائری پر مامور ایڈیشنل آئی جی ابوبکر خدا بخش نے عدالت کو بتایا کہ خاور مانیکا لوگ چار بھائی ہیں (احمد رضا مانیکا، فاروق مانیکا، معظم مانیکا اور خاور مانیکا ) خاتون اول بشری ٰبی بی کی عمران خان سے شادی کے بعد چاروں بھائیوں کی آپس میں بول چال بند ہو چکی ہے۔چیف جسٹس نے آئی جی سے پوچھا کہ یہ جمیل گجر کون ہے؟ وہ کدھر ہے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ مجھے نہیں پتہ کہ جمیل گجر کون ہے۔ چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ آپ کی کتنی سروس ہے؟انہوں نے بتایا کہ مجھے پولیس سروس میں 31 سال ہوگئے ہیں ،جس پر فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ نے اس سروس میں یہ سب کچھ ہی سیکھا ہے؟آپ نے سیاسی دبائو پر اپنے ڈی پی او کو اٹھا کر باہر پھینک دیا؟رات ایک بجے ڈی پی او کا تبادلہ کردیا، کیا یہ درست ہے؟ ہم پولیس کو سیاسی دبائو سے باہرنکال رہے ہیں، پولیس کے نظام میں اصلاحات کررہے ہیں، آپ بھی ان اجلاسوں میں شریک تھے۔سپریم کورٹ نے سابق آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کے تبادلہ کے مقدمہ میں فیصلہ دے کر پولیس کو با اختیار بنایا اور سیاسی و حکومتی دبائو سے آزاد کرایا ہے،اب آپ جو کچھ کر رہے ہیں، وہ پولیس اہلکاروں کو ڈی مورالائز(حوصلہ شکنی) کرے گا،میں دیکھتا ہوں کون ہے وہ گجر، وہ کیسے ڈی پی او کا تبادلہ کرا سکتا ہے۔آئی جی نے کہا کہ میں قسم اٹھاتا ہوں کہ کسی بھی قسم کے دبائو کے تحت ان کا تبادلہ نہیں کرایاگیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو قسم اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آئی جی نے بتایا کہ تبادلہ انتظامی ضرورت کے مطابق کیا جاتا ہے،میں سیاسی دبائو کونہیں مانتا۔ڈی پی او رضوان گوندل کو اس لئے ہٹایا گیا ہے کہ ان کی جانب سے واقعات سے متعلق بیان کی گئی اسٹوری درست نہیں تھی، میرے اپنے ذرائع اور سپیشل برانچ کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات کے ذریعے ہمیں معلوم ہوا تھا کہ انکے علاقے میں دو واقعات ہوئے تھے، اگرچہ یہ براہ راست ان کے ذمہ دار نہیں تھے،لیکن انہیں ایکشن لینا اور مجھے آگاہ کرناچاہئے تھا۔انہوں نے کہا کہ میں کسی سے کوئی ڈکٹیشن نہیں لیتا ہوں، رضوان گوندل نے مجھ سے غلط بیانی کی تھی اس لئے ہٹایا تھا،ڈی پی او مجھ سے پوچھے بغیر وزیراعلی کے پاس گئے تھے، مجھے کسی نے بھی ان کے تبادلے کے لئے نہیں کہا تھا ، ایک خاتون کے ساتھ بدتمیزی کی گئی تھی،چیف جسٹس نے ان کی سرزنش کرتے ہو ئے کہا آپ کی طرف سے بدنیتی کا مظاہرہ کیا گیا ہے ،آپ عدالت کو ہدایات نہ دیں ورنہ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کو بلا کر یہیں پر ہی آپ کا تبادلہ کروانے کا حکم جاری کردیں گے اگر آپ یہاں پر غلط بیانی کریں گے تو عدالت سے نکلنے کے بعد آئی جی نہیں رہیں گے۔