لاہور (نیوز ڈیسک)2040تک پاکستان خطے کا پانی کی قلت سے سب سے زیادہ متاثر ملک بن سکتا ہے۔ دنیا بھر میں ڈیموں کی کل تعداد 57ہزار، پاکستان میں کل 164ڈیم ہیں، چین، امریکا، بھارت، جاپان اور برازیل ڈیم بنانے میں آگے ہیں۔ دنیا میں1900ء سے اب تک 11ارب سے زائد افراد خشک سالی کے سبب ہلاک ہوچکے ہیں، جب کہ 44فیصدسے زائد پاکستانی پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔تفصیلات کے مطابق،چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کا دیامر۔بھاشا اور مہمند ڈیموں کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کا اقدام بروقت اور لائق تحسین ہےکیو ں کہ دنیا بھر میں 57ہزا رسے زائد بڑے ڈیموں میں سے پاکستان کے پاس صرف 164ڈیمز ہیں اور محققین نے پیش گوئی کی ہے کہ 2040تک ہمارا ملک خطے کے ان ممالک میں شامل ہوجائے گا جہاں پانی کی شدید قلت ہوگی۔90سال پرانے بڑے ڈیموں کے عالمی کمیشن کے مطابق، بڑا ڈیم وہ ہوتا ہے جو 15میٹر سے بلند ہو(یعنی فور اسٹوری بلڈنگ سے اونچا)۔عالمی کمیشن کے مطابق 100سے زائد بڑے ڈیموں کے حامل ممالک کی فہرست اس طرح ہے چین (23841)، امریکا(9265)، بھارت(5100)، جاپان (3118)، برازیل(1364)، جنوبی کوریا(1338)، کینیڈا (1169) جنوبی افریقا(1112)، اسپین (1063)، البانیا (1008) ترکی(974)،فرانس(709)، برطانیہ(593)، میکسیکو (570)، آسٹریلیا (567)، اٹلی(541)، ایران (520) جرمنی(371)، ناروے(335)، زمبابوے (254)، رومانیا(244)، تھائی لینڈ (218)، پرتگال (217)، سویڈن(190)، بلغاریہ(181)، آسٹریا(175)، پاکستان (164)، یونان (162)، سوئٹزرلینڈ (162)، مراکش (150) ،الجیریا (144)، انڈونیشیا( 135)، تیونس(126)، افغانستان(126)،چیک ریپبلک (118)، ارجینٹینا (114)اور مالی (112)۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جاپان کے پاس صرف ایک بڑا ڈیم ہے، جب کہ لگسمبرگ کے پاس صرف تین، مصر کے پاس سات، ڈنمارک گیارہ، ہالینڈبارہ، بیلجئم پندرہ، بوسنیا ہرزے گوویناپچیس، آئس لینڈ انتیس، فن لینڈ چھپن، ملائیشیا اٹھاون، روس اور پولینڈ کے انہتر، سری لنکا اٹھاسی، نیوزی لینڈ چھیانوے، میانمار تینتیس اور نیپال کے پاس صرف چھ بڑے ڈیم ہیں۔پاکستان میں پانی کی قلت سے متعلق کچھ حقائق، جون 2018میں جرمن کے معروف براڈکاسٹرڈوچے ویلے (ڈی ڈبلیو)نے رپورٹ کی تھی کہ پاکستان 2025تک خشک ہوجائے گا۔تاہم حکام نے اسے نظر انداز کیا۔پانی کے استعما ل کی سب سے زیادہ شرح کے حوالے سے پاکستان کا دنیا میں چوتھا نمبر ہے۔آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان میں فی کس سالانہ پانی کی فراہمی 1017کیوبک میٹر ہے۔آئی ایم ایف کے مطابق ، دنیا بھر میں جن ممالک میں پانی کی قلت ہے ، اس میں پاکستان کا تیسرا نمبر ہے۔پاکستان کونسل آف ریسرچ برائے پانی کے ذخائر نے 2016میں رپورٹ کیا تھا کہ پاکستان میں 1990 میں ہی پانی خاصا کم ہوگیا تھا ، جب کہ 2005 میں یہ قلت بہت بڑھ گئی تھی۔انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کے مطابق، پاکستان کو 14کروڑ50لاکھ ایکڑ فٹ پانی ہر سال موصول ہوتا ہےلیکن وہ صرف 1کروڑ37لاکھ ملین ایکڑ فٹ پانی ہی محفوظ کرتا ہے۔پاکستان کو 4کروڑ ملین ایکڑ فٹ پانی کی ضرورت ہے لیکن وہ 2کروڑ 90لاکھ ایکڑ فٹ سیلاب کا پانی ضائع کردیتا ہےکیوں کہ اس کے پاس ڈیموں کی کمی ہے۔رواں برس جون میں انڈس ریورسسٹم اتھارٹی نے خطرے کی گھنٹی بجادی تھی۔عالمی کمیشن برائے ڈیمز ،عالمی کمیشن برائے بڑے ڈیمزاور واشنگٹن ڈی سی کے ناسا کی زمین کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تربیلا ڈیم زمین سے بھرا ہوا دنیا کا سب سے بڑا ڈیم ہے، جب کہ ساختی حجم کے حوالے سے یہ دنیا کا دوسرا بڑا ڈیم ہے۔جب کہ میرانی ڈیم سیلاب سے تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے بالحاظ حجم دنیا کا سب سے بڑا ڈیم ہے جو کہ 5لاکھ88 ہزار 690کیوبک ہیکٹو میٹر سیلابی پانی ذخیرہ کرسکتا ہے۔اسی طرح ژوب ، بلوچستان میں سبک زئی ڈیم سیلابی پانی ذخیرہ کرنے کے لحاظ سے دنیا کا ساتواں بڑا ڈیم ہے۔تحقیق سے واضح ہے کہ بڑے ڈیموں کے مکمل ہونے کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے اور 1950سے1970کی دہائی کے وسط تک ا س کی سالانہ شرح 1ہزار سے کم ہوکر 1990کی دہائی تک سالانہ 260تک پہنچ گئی تھی۔اقوام متحدہ کے مطابق،دنیا بھر کے دریائوں پر3700سے زائد ہائڈرو پاور منصوبےیا تو بنائے جاچکے ہیں یا زیر تعمیر ہیں۔جہاں ڈیمز کسی بھی ملک کے لیے بہت سودمند ہیں ، وہی اگر اس کی معیاری منصوبہ بندی نہ کی جائے تو یہ بڑی آبادی کو بے گھر کرسکتے ہیں۔مثلاً صرف چین اور بھار ت میں 4سے 8کروڑ افراد ڈیموں کی وجہ سے بے گھر ہیں۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ برائے پانی کے ذخائر کی مارچ ،2017کی رپورٹ کے مطابق،پاکستان کی 44فیصد آبادی کی پینے کے صاف پانی تک رسائی ممکن نہیں ہے۔دیہی علاقوں میں یہ اعداد وشمار 90فیصد تک پہنچ جاتے ہیں۔گزشتہ برس کے اندازے کے مطابق پاکستان میں ہرسال تقریباً2لاکھ بچے صرف اسہال کے باعث انتقال کرجاتے ہیں۔اقوام متحدہ کے تخمینے کے مطابق، عالمی سطح پر پینے کے صاف پانی تک رسائی میں 1990سے 2015کے دوران بہتری آئی ہےلیکن اس کے باوجود زمین کا ہر 10میں سے 1شخص پینے کے صاف پانی تک رسائی سے محروم ہے۔افریقا کے دیہی علاقوں کی خواتین اوسطاًہرروز 40پائونڈ پانی بھرنے کے لیے 6کلومیٹر پیدل چلتی ہیں۔90فیصد سے زائد تمام قدرتی آفات پانی سے متعلق ہیں۔اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2025تک تقریباً1اعشاریہ 9ارب افراد ایسے ممالک یا خطوں میں رہ رہے ہوں گے ، جہاں پانی کی شدید قلت ہوگی یعنی ہر چھ میں سے ایک شخص کو پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔1854میں سائنس دانوں نے پانی اور ہیضے کے پھیلائو میں ربط دریافت کیا تھا 1900ء سے اب تک 11ارب افرادخشک سالی کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔2015میں اقوام متحدہ نے تخمینہ لگایا تھا کہ تقریباً2اعشاریہ 6ارب افراد گزشتہ 25برسوں میں صاف پانی تک رسائی حاصل کرچکے ہیں ، جب کہ 2000 سے اب تک 1اعشاریہ4ارب افراد بنیادی حفظان صحت تک رسائی حاصل کرچکے ہیں۔2018میں اقوام متحدہ نے انکشاف کیا کہ دنیا بھر میں 2اعشاریہ1ارب افراد اپنے گھروں میں صاف پانی کے بغیر جی رہے ہیں ۔جب کہ 20ویں صدی میں دنیا کی آبادی تین گنا ہوگئی تھی تو قابل تجدید پانی کے ذخائر چھ گنا زائد ہوگئے ۔آئندہ 50سالوں میں دنیا کی آبادی میں 40سے 50فیصد اضافہ ہوگا ۔آبادی کے اس اضافے اور صنعتی اور شہری علاقوں کے پھیلائو کے نتیجے میں پانی کی طلب میں اضافہ ہوگا اور ماحول پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے 1996میں قائم ہونے والے فرانس کے ورلڈ واٹر کونسل نے کہا تھا کہ جیسے جیسے وسائل میں کمی واقع ہورہی ہے تو مختلف عوامل کے درمیان تنائو بڑھ رہا ہے، ایسا قومی اور عالمی دونوں سطح پر ہورہا ہے۔260سے زائد دریائی بیسنز دو یا زائد ممالک میں تقسیم ہیں مضبوط اداروں اور معاہدوں کی غیر موجودگی میں بیسن میں تبدیلی بین السرحدی تنائو کا سبب بن سکتا ہے۔