• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ویسے تو تاریخ میں ’’اگر‘‘ کا لفظ لا یعنی سمجھا جانا چاہئے کیونکہ جو ہوتا ہے وہی ہونا ہوتا ہے۔ اس بنیادی حقیقت کو تاریخ دانوں سمیت صوفی شعراء بھی تقدیر الٰہی کے نام پرتسلیم کرتے ہیں ۔ لیکن پھر بھی ذہن بھٹک جاتا ہے اور سوال پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا۔ اس کی لایعنیت پر مرزا اسداللہ خان غالب کا مشہور شعر ہے:

ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے

وہ ہر اک بات پہ کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

میرے والد گورداسپور پٹھانکو ٹ روڈ پر واقع ایک گاؤں ’گنجا‘ سے نقل مکانی کر کے بیسویں صدی کے آغاز میں اس وقت ساہیوال (منٹگمری) نقل مکانی کر کے آئے تھے جب انگریزوں نے نہر لوئر باری دواب تعمیر کرکے پنجاب کے نیم بنجر صحرائی علاقے کو آباد کیا تھا۔ والد مرحوم ہر بات پر اپنے پرانے گاؤں کو’ دیس‘ کے نام سے یاد کرتے ہوئے اس طرح سے نقشہ کھینچتے تھے جیسے وہ ایک جنت تھی جس کو چھوڑ کر انہیں مجبوراً یہاں آنا پڑا۔ اس لئے میرے ذہن میںنہ صرف اس گاؤں کو دیکھنے کی زبردست خواہش تھی بلکہ یہ سوال بھی ذہن میں بار بار آتا تھا کہ اگر میں گورداسپور میں ہی پیدا ہوا ہوتا تو میری زندگی کیسی ہوتی۔

میرے ذہن میں یہ سوال انیس سو پینسٹھ کی جنگ کے وقت بھی آیا تھا جب میں نے سوچا تھا کہ اگر میں گورداسپور کے کسی سکھ گھرانے میں پیدا ہوا ہوتا تو میں نے ہندوستانی فوج کے لئے وہی نعرے لگانے تھے جیسے میں پاکستانی فوج کے لئے لگا رہا ہوں۔ اس سے میرے ذہن میں اندھی قوم پرستی کے بارے میں جو سوالات پیدا ہوئے تھے وہ آج تک کسی نہ کسی طرح سے اٹھتے رہتے ہیں۔ابھی چند دن پہلے ذہن کے کسی گوشے سے یہ سوال اس وقت پھر ابھر کر سامنے آیا جب ہندوستانی پنجاب کے وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ نے توہین مذہب کا قانون اسمبلی میں منظور کروانے کے لئے پیش کیا۔ پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کو جنرل ضیا الحق کی ذہنی اختراع سمجھنے والوں کے لئے یہ سوال الجھاؤ کا باعث بنے گا کہ اب مشرقی پنجاب کی سیکولر کانگریسی حکومت توہین مذہب کا قانون بنانے پر کیوں بضد ہے؟ کیا پنجاب قطع نظر مذہبی مسلک کے مذہبی نظریات کا گڑھ ہے؟

پنجاب کے مذہبی رجحانات کی طرف بار بار پلٹ کر آنا جزوی طور پر سچ ہے۔ میں جب اسی کی دہائی میں گورداسپور میں اپنا آبائی گاؤں دیکھنے کے لئے گیا تھا تو اس زمانے میں پاکستان میں ضیاء الحق کی مذہبی گرفت اپنی انتہا پر تھی لیکن اسی زمانے میں جب میں نے امرتسر سے گورداسپور جانے کے لئے کرایے کی گاڑی لینے کی کوشش کی تھی تو اکثر ڈرائیور خالصتانیوں کے خوف کے باعث جانے کے لئے تیار نہیں تھے۔ آخر کار جب ایک قدرے نڈر ڈرائیور مجھے لے کر بسوئے گورداسپور روانہ ہوا تو راستے میں جگہ جگہ پولیس اور خالصتانیوں کے ناکوں کی وجہ سے جو واقعات پیش آئے ان کاذکر کالم کی طوالت کو ضرورت سے زیادہ بڑھا دے گا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مشرقی پنجاب اور بالخصوص گورداسپور میں خالصتانیوں کی ویسے ہی گرفت تھی جیسے کسی زمانے میں تحریک طالبان پاکستان کی فاٹا میں تھی۔

جب میں نے اپنے آبائی گاؤں کی حالت زار کو دیکھا تو مجھے لگا کہ یہ جگہ ہمارے ساہیوال کے گاؤں سے کئی دہائیاں پیچھے ہے اور میرے والد نے نقل مکانی کرکے بہت اچھا فیصلہ کیا۔ مجھے یہ بھی لگا کہ یہاں مذہبی خوف کی فضا بھی زیادہ ہے اور معاشی حالات بھی دگرگوں ہیں۔مزید برآں اگرچہ ماہرین مشرقی پنجاب میں زراعت کی ترقی کے گن گاتے ہیں اور وہاں کی فی ایکڑ پیداوار کے زیادہ ہونے کا ذکر کرتے ہیں لیکن مجھے اپنے نصف درجن دوروں کے دوران مشرقی پنجاب میں کبھی خوشحالی نظر نہیں آئی۔ خیر یہ ایک علیحدہ بحث ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ مذہبی آزادیوں کے پہلو سے اگر دیکھا جائے تو مجھے لگتا ہے کہ اگر میں ساہیوال کی بجائے گورداسپور میں بھی پیدا ہوتا تو حالات شاید وہی ہوتے کیونکہ توہین مذہب کا قانون دونوں جگہ موجود ہے۔ یہی نہیں مجھے تو یہ بھی لگتا ہے کہ اگر میں یوپی یا برما میں بھی پیدا ہوتا تو شخصی آزادیوں میں زیادہ فرق نہ ہوتا۔تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیا ہوا ہے کہ جنوبی ایشیا کے ملکوں میں یکے بعد دیگرے مذہب پرستی اور انتہا پسندی زندگی کا معمول بن گئی ہے۔

ابھی تک پاکستان سے لے کر برما تک مذہبی انتہا پسندی کی علیحدہ علیحدہ کہانی سنائی جاتی ہے۔ پاکستان میں اس کا سارا ملبہ ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاالحق پر ڈال دیا جاتا ہے: ہمارے دانشور اور میڈیا والے اس تاریخی تبدیلی کو حکمرانوں کی وساطت سے بیان کرکے سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنا تجزیاتی فریضہ پورا کردیا۔ لیکن فلسفہ سائنس کی رو سے اس نظریے کی سچائی کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کے خلاف کوئی شہادت سامنے نہ آئے۔ مثلا ہم کہتے ہیں کہ کوا کالا ہوتا ہے لیکن اگر ایک بھی سفید کوا نظر آجائے تو یہ دعویٰ غلط ثابت ہو جائے گا۔ اگر اس کسوٹی پر ناپیں تو کسی بھی علاقے میں مذہبی انتہا پسندی نہیں ہونی چاہئے جہاں بھٹو اور ضیاجیسے حکمران نہ ہوں ۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ جہاں مارشل لا نہ لگتے ہوں۔ لیکن اس کا کیاکیجئے کہ ہندوستان میں بھی اسی کی دہائی سے بی جے پی کی صورت میں مذہبی انتہا پسندی سامنے آئی اور بڑھتے بڑھتے آج جس مقام پر پہنچ چکی ہے وہ پاکستان سے کسی بھی طرح مختلف نہیں ہے۔ اسی طرح سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ برما میں ضیا الحق جیسی شخصیت کے نہ ہوتے ہوئے بھی بدھ آبادی میں مذہبی انتہا پسندی کیوںروہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے درپے ہے۔

چار پانچ صدیاں پہلے سائنس اور بالخصوص معاشرتی علوم کی حالت ایسی تھی کہ وہ معاشرے کے ارتقا کو بادشاہوں اور راجاؤں کے حوالے سے بیان کرتی تھی۔ پھر جوں جوں سائنسی علوم میں ترقی آئی تو اٹھارہویں صدی میں سماج کے ارتقا کو ایک منطقی انداز میں دیکھنے کا طریق کار سامنے آیا۔ پھر آدم اسمتھ سے لے کر کارل مارکس جیسے فلسفیوں اور معیشت دانوں نے یہ ثابت کردیا کہ معاشرے میں بنیادی تبدیلی معاشی اور ٹھوس حالات کے بدلنے سے آتی ہے۔معاشرے کے ارتقا کو مختلف ادوار (قدیم اجتماعی زندگی، غلامی کا زمانہ ، جاگیر دار ی اور سرمایہ داری) میں تقسیم کرتے ہوئے سائنسی طور پر یہ بتایا گیا کہ ایک دور دوسرے دور میں کیسے تبدیل ہوا۔ اس امر کو اصولی طور پر ثابت کیا گیا کہ ہر تبدیلی کے پس منظر میں معاشی عوامل ہوتے ہیں۔ اس اصول کو سامنے رکھیں تو یہ دیکھنا پڑے گا کہ جنوبی ایشیا میں کونسی معاشی تبدیلیاں آئی ہیں جن کی بنا پر مذہبی انتہا پسندی اور روایت پرستی نے یکے بعد دیگرے ہر ملک کو ایک ہی طرح سے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ انسان کی جائے پیدائش ایک حادثاتی واقعہ ہے، کسی کے بس میں نہیں کہ کون کس جگہ پیدا ہوگا۔ لیکن وہ جہاں بھی پیدا ہوگا اس کے حالات کو وہاں کی معاشی حقیقتیں متاثر کریں گی۔ اس لئے میرا گورداسپور میں پیدا یا نہ پیدا ہونے کا سوال نہیں ہے:سوال یہ ہے کہ میں جس بھی معاشرے میں پیدا ہوا ہوں مجھے معاشی ارتقا کے بنیادی اصولوں کا تابع ہونا پڑے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین