• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جی ایم اصغر

’’ایہام‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے لغوی معنیٰ ’’وہم یا وہم میں ڈالنا‘‘ ہیں۔ شاعری کی اصطلاح میں ’’علم عروض کی وہ صنعت، جس میں شاعر، شعر میں ایسا لفظ لائے، جس کے دو معنیٰ ہوں ’’صنعت ایہام‘‘ کہلاتی ہے۔ چوں کہ اس صنعت کے استعمال سے قاری یا سامع، وہم میں پڑ جاتا ہے کہ وہ شعر کا مفہوم کیا سمجھے۔ اس لیے اس صنعت کا نام ایہام رکھا گیا۔ صنعت ایہام کے استعمال کی خوبی یہ ہے کہ جس ذومعنی لفظ پر شعر کی بنیاد رکھی جاتی ہے، اس کا ایک معنیٰ مفہوم کے قریب تر اور دوسرا بعید ہوتا ہے لیکن شعر میں، شاعر کی مراد معنیٰ بعید سے ہوتی ہے، قریب سے نہیں۔ واضح ہو کہ ایہام میں شعر کا مطلب ایک ہی ہوتا ہے۔

امیر خسرو، اردو میں صنعت ایہام استعمال کرنے والے اولین شاعر ہیں۔ ان کی کہہ مکرنیوں اور پہیلیوں میں اس کا استعمال کثرت سے نظر آتا ہے۔ ایہام کی کی صنعت، اس زمانے میں دو زبانوں میں مستعمل تھی، ایک ہندی اور دوسری فارسی۔ محمد حسین آزاد اور مولوی عبدالحق کے خیال میں اردو ایہام پر زیادہ تر ہندی شاعری کا اثر ہے اور ہندی میں یہ صنعت، سنسکرت سے پہنچی۔ سنسکرت میں اس صنعت کو ’’سلیش‘‘ کہا جاتا ہے لیکن ایہام اور سلیش میں بنیادی فرق یہ ہے کہ سلیش میں ایک شعر کے کئی معنی ہو سکتے ہیں لیکن ایہام میں شعر کا مطلب صرف ایک ہوتا ہے۔

شمالی ہند میں ولی کی آمد نے ریختہ گویوں کو ایک نیا حوصلہ بخشا۔ دیوان ولی کی تلقید میں جب اردو ادب کا نیا دور شروع ہوا تو فارسی داں طبقے نے اس کے خلاف اہانت آمیز رویّہ اختیار کیا۔ اس منفی رویے کے خلاف پہلا ردعمل خان آرزو کے ہاں پیدا ہوا اور انہوں نے فارسی کو ترک کر کے، ریختہ کے مشاعرے کرانا شروع کر دیئے۔ فارسی کا مقابلہ کرنے کے لیے اردو شعراء نے لفظ کو نئے نئے انداز میں استعمال کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح اردو میں ایہام گوئی کا رجحان پیدا ہوا، جو دیکھتے ہی دیکھتے اردو کی پہلی باقاعدہ تحریک کی صورت اختیار کر گیا۔اس وقت محمد شاہ رنگیلا، مسند اقتدار پر براجمان تھا۔ مغلیہ سلطنت، کمال اوج دیکھنے کے بعد آمادہ زوال تھی۔ محمد شاہ عیش و عشرت کا دلدادہ تھا۔ گو کہ اس نے اپنی کوششوں اور دیگر امراء کی مدد سے ’’سادات بارہہ‘‘ کا زور توڑا لیکن اس میں یہ صلاحیت نہ تھی کہ مرہٹوں، جاٹوں یا روہیلوں کی بڑھتی ہوئی طاقتوں کا استیصال کر سکتا۔ یہی وہ دور ہے، جب سیاسی بدنظمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، نادر شاہ، بلائے ناگہانی کی طرح دلّی میں نازل ہوا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔

نادر شاہ کے حملے نے اجتماعی زندگی کا شیرازہ بکھیر دیا۔ فرد، اجتماعی خوف سے دوچار ہوا، چناں چہ اس نے اپنے اظہار خیال کے لیے ذومعنی الفاظ کا سہارا لیا، جو صنعت ایہام کے فروغ کا باعث بنا۔ 1734ء میں جب نواب خان دوراں میر بخشی مرہٹوں سے شکست کھا کر واپس آئے تو نواب عمدۃ الملک امیر خان نے برجستہ یہ جملہ کہا۔ ’’نواب آئے، ہمارے بھاگ آئے‘‘۔اس جملے میں بھاگ کا لفظ فرار اور قسمت دونوں معنی میں استعمال ہوا ہے۔

یہ وہ دور تھا، جب معاشرتی اقدار ٹوٹ رہی تھیں۔ فرد، قول و فعل کے تضاد کا شکار تھا، رشتے، کمزور پڑ رہے تھے، ذاتی مفاد اجتماعی مفاد پر غالب آ چکا تھا، لوگ ظاہری نمود و نمائش کا شکار تھے، امراء نے اقتدار کی ہوس میں سلطنت کو سازشوں اور خانہ جنگیوں کی آماج گاہ بنا دیا تھا۔اس تہذیبی، معاشرتی اور سیاسی ماحول میں، فارسی شعرائے متاخرین کی طرح، اردو شعراء بھی ایہام گوئی کی طرف متوجّہ ہوئے۔

فارسی، مغلیہ سلطنت کی سرکاری زبان تھی، اس لیے دربار شاہی تک رسائی کے لیے فارسی کا علم ضروری تھا۔ گو کہ عوام الناس کی زبان فارسی نہ تھی، لیکن اس زبان کے ساتھ لوگوں کا معاش وابستہ تھا۔ جب تک مغلیہ سلطنت کا سورج اپنی آب و تاب کے ساتھ چمکتا رہا، فارسی زبان کا گلستان بھی مہکتا رہا۔ جب اٹھارہویں صدی عیسوی میں مغلیہ سلطنت کا زوال شروع ہوا تو فارسی کا اثر بھی کم ہونے لگا اور اردو، جو عوام کی مشترکہ زبان تھی، اس کی جگہ لینے لگی۔ رفتہ رفتہ اس کا اثر اتنا بڑھا کہ جہاں دارشاہ کے عہد میں اردو سرکار کی غیر سرکاری زبان بن کر قلعۂ معلیٰ میں رائج ہو گئی۔ گو کہ خواص اور اہل ادب کی زبان فارسی ہی تھی اور وہ اسی زبان میں دادسخن دیتے رہے۔

دوسری طرف صورتِ حال یہ تھی کہ ایرانی علما و فضلا کی بڑی تعداد مغلوں کے زمانے میں ہندوستان میں وارد ہوئی، ہمیشہ اہلِ ہند کی فارسی پر اعتراض کرتے رہتے تھے۔ یہ تنازع اس وقت اپنے عروج پر پہنچ گیا، جب شیخ محمد علی حزیں 1744میں دہلی تشریف لائے۔ حزیں، تنک مزاج اور متکبر انسان تھے۔ جب انہوں نے ہندوستان کی فارسی پر اعتراض کیا تو لوگوں نے سند میں سراج الدین علی خان آرزو کو پیش کیا۔ حزیں نے آرزو کی فارسی پر بھی اعتراضات اٹھائے اور ہند اور اہلِ ہند کی ہجویں لکھیں۔ آرزو، جو اپنے وقت کے مسلم الثبوت استاد تھے، یہ رویہ برداشت نہ کرسکے اور خم ٹھونک کر میدان اتر آئے۔ آرزو کا ردِ عمل، اردو شاعری کی صورت میں سامنے آیا۔ انہوں نے مقامی شعرا کو فارسی کے بجائے، اردو میں شاعری کی ترغیب دی اور ہر مہینے کی پندرہ تاریخ کو اپنے گھر پر مشاعرہ منعقد کرنے لگے۔ ان کی کاوشوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ نئی نسل، اردو کی جانب متوجہ ہوئی۔

اردو کو فارسی کے مقابل لانے کے لیے شعرا نے الفاظ کو نت نئے پیرائے میں باندھنا شروع کیا، تاکہ اردو کو ایک متمول زبان ثابت کیا جاسکے۔ اس شعوری کوشش نے اردو میں صنعتِ ایہام کو فروغ دیا۔ ایہام کو خانِ آرزو اور ان کے شاگردوں شام حاتم، مضمون، آبرو اور یک رنگ وغیرہ نے اتنی فراوانی سے استعمال کیا کہ یہ رجحان بڑھ کر باقاعدہ تحریک کی شکل اختیار کرگیا۔

اردو شاعری میں ایہام گوئی کی تحریک، بظاہر فارسی کا ردِ عمل نظر آتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ تحریک، ہندوستان کے ارضی اور ایران کے سماوی عناصر کے تصادم کا نتیجہ تھی۔ اردو کی جڑیں، زمین کے ساتھ پیوستہ تھیں، لیکن اسے وہ ساز گار فضا میسر نہ آئی، جو اسے ادبی سطح پر بار آور کرتی۔ جب ولی کا دیوان دہلی پہنچا تو دکن کے اس بیج نے شمالی ہندوستان میں اردو شاعری کی وہ فصل تیار کی، جس سے گلشنِ اردو ہمیشہ فیص یاب ہوتا رہے گا۔دلی کی دہلی آمد بڑی بروقت تھی۔ اس وقت کی عیش پرست سوسائٹی نئے اس شاعری کو اپنے رنگین مزاج سے ہم آہنگ پایا۔ یہی وجہ تھی کہ دلی کے دیوان میں سب سے زیادہ جس چیز نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا، وہ ایہام گوئی تھی۔ اس طرح دکنی تہذیب کے اثرات بھی شمالی ہند میں ایہام گوئی کا محرک ثابت ہوئے۔ اس تحریک کی وجہ سے لفظِ تازہ کی تلاش شروع ہوئی، جس سے زبان میں الفاظ و تراکیب کی تعداد بڑھی اور اردو شاعری کا ایک مخصوص انداز ترتیب پاگیا۔

جب کوئی رجحان کثرت سے استعمال ہونے لگتا ہے تو اس کی کشش کم ہونے لگتی ہے۔ لوگ اکتا کر نئے رجحان کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ محمد شاہ کے آخری دور میں تحریکِ ایہام کو بھی ایسے ہی ردِ عمل کا سامن کرنا پڑا۔ مرزا ظہیر جانِ جانان نے اس کے خلاف کامیاب مہم چلائی، اردو شاعری میں ایہام گوئی کی تحریک کے اثرات کو بہر حال نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

تازہ ترین