رانا غلام قادر
وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں نئی حکومت کا ہنی مون پریڈ ختم ہو چکا ہے مبارکبادوں کا سلسلہ تھم چکا ہے۔ صدر مملکت کے عہدہ جلیلہ پر پی ٹی آئی کے راہنما ڈاکٹر عارف علوی کے منتخب ہونے کے بعد تمام اعلیٰ آئینی و پارلیمانی عہدوں کے اہداف بخوبی حاصل کئے جا چکے ہیں۔ وفاقی حکومت مکمل طور پر اب فنکشنل نظر آتی ہے۔ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونےکے بعد عمران خان کو بخوبی احساس ہو گیا ہو گا کہ میز کی دوسری جانب بیٹھ کر مختلف نظر آتا ہے۔ انہوں نے 2013سے 2018تک بھرپور اپوزیشن کی ہے انکا سٹائل جارحانہ تھا۔ وہ کھلاڑی ہیں اسلئے بلند حوصلہ بھی تھے اور پرعزم بھی۔ وہ اپنے مشن پر ڈٹے رہے اور بالآخر وزارت عظمٰی کا منصب حاصل کر لیا جو ہر سیاسی جماعت کے لیڈر کی خواہش ہوتی ہے لیکن وزیراعظم کے طور پر ان کا کردار اب یکسر مختلف ہے اسلئے ممبران کا رویہ بھی اس عہدے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہئے۔ حکومت مشاورت سے چلتی ہے اس لئے وہ اپنے مشیر ایسے منتخب کریں جو صاحب بصیرت ہوں، مخلص ہوں، تحمل مزاج ہوں اور حکومتی امور کا تجربہ رکھتے ہوں ورنہ جذباتی مشیر ان سے غیر ضروری محاذ کھلوا دیں گے اور ان کی توانائیاں ضائع کرا دیں گے۔ عمران خان اگر خود احتسابی کےعمل سے گزرتے رہے تو غلطیو ں کا ازالہ بھی ممکن ہے مگر آئیڈیل صورتحال یہ ہے کہ وہ غلطیو ں سے بچیں کیونکہ وہ تبدیلی کا نعرہ لگا کر آئے ہیں ۔
عوام اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کی ان سے بے پناہ توقعات ہیں جو پوری نہ ہوئیں تو ردعمل بھی اتنا ہی شدید ہوگا ۔ ہماری عوام جذباتی ہے اور جلد باز بھی۔ وہ اب تبدیلی کے خواب کی تعبیر چاہتے ہیں۔ سوشل میڈیا اب معاشرے کا طاقتور عنصر بن چکا ہے۔ مخالف سیاسی جماعتیں بھی عمران خان کی کارکردگی پر مانیٹرنگ کا ریڈار نصب کئے ہوئے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ اب عمران خان کے پاس حکومت ہے تمام و سائل اور اختیارات ہیں اس لئے وہ اب عوام کو ریلیف دیں۔ وہ سب کچھ کرکے دکھائیں جن کا وہ اپوزیشن میں دعویٰ کرتے تھے۔ یقیناً عمران خان کو بھی ان حقائق کا مکمل ادراک ہے اس لئے وہ دن میں کئی کئی گھنٹے کام کرتے ہیں۔ کابینہ کے کئی اجلاس کر چکے ہیں اپنی ٹیم تشکیل دے چکے ہیں لیکن ان کے سامنے پہاڑ جیسے چیلنجز ہیں۔ یہ چیلنجز کئی نوعیت کے ہیں۔ خارجہ پالیسی کے محاذ پر سب سے بڑا چیلنج پاک امریکہ تعلقات ہیں۔ امریکہ نے نئی حکومت کو بظاہر مبارکباد دی لیکن امریکی وزیر خارجہ نے وزیراعظم عمران خان کو فون کرکے ان طالبان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جو ان کے بقول افغانستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
اگرچہ ترجمان دفترخارجہ نے اس کی تردید کی کہ کوئی ایسا مطالبہ کیا گیا ہے مگر ترجمان وائٹ ہائوس نے جب یہ کہا کہ گفتگو کا ریکارڈ موجود ہے تو ہمارے لئے بہرحال سبق کا سامان پیدا ہوگیا۔ اول تو وزیراعظم کے جن ذاتی مشیر نے وزارت خارجہ اور عسکری قیادت سے پیشگی صلاح مشورے کئے بغیر امریکی وزیر خارجہ سے کال ملوانے کا غیر دانشمندانہ مشورہ دیا وہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے لیکن اس کے بعد امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات کے موقع پر امریکی وفد کے تمام ممبران سے مصافحہ نہ کرنا بھی سفارتی آداب کے منافی تھا۔ امریکی وزیر خارجہ صرف 5 گھنٹے کیلئے پاکستان آئے اور اس کے بعد انہوں نے دورہ بھارت میں قیام کیا۔ پاک امریکہ تعلقات اس وقت سرد مہری اور بے اعتمادی کا شکار ہیں امریکہ پاکستان چین سے بڑھتی ہوئی قربت سے نالاں ہے۔ وہ ابھی تک یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن واستحکام کیلئے خلوص سے تعاون نہیں کر رہا اس کا اظہار دورہ دہلی کے دوران بھارت امریکہ مشترکہ اعلامیہ سے بخوبی ہوتا ہے۔ اس اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین دہشت گردی کیلئے استعمال نہ ہونے دے۔
امریکہ نے بھارت کی ہمنوائی کرتے ہوئے یہ بھی مطالبہ کیا کہ پاکستان ممبئی، پٹھان کوٹ، اڑی اور سرحد پار دہشت گرد حملوں کے ملزموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔ 30 کروڑ ڈالر کی امداد روک دینابھی دبائو کا ایک حربہ ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی تجربہ کار سیاستدان ہیں پہلے بھی وزیر خارجہ رہ چکے ہیں لیکن پاک امریکہ تعلقات کو معمول پر لانا بہرحال ایک مشکل چیلنج ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کے دورے کے فوری بعد چینی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان سے بھارت اور امریکہ کو یہ جواب مل گیا ہے کہ نئی حکومت بھی پاک چین دوستی کی پالیسی پر عمل پیرا رہے گی۔ سی پیک کو آگے بڑھائے گی اور خطے کے استحکام کیلئے دونوں ملکوں کی سوچ اور پالیسی ایک ہے۔ نومبر میں عمران خان کے دورہ چین سے دوطرفہ تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔ عمران خان کو دوسرا چیلنج توانائی کے شعبہ کا ہے۔ گرمی کی شدت کم ہونے کے باوجود بجلی کی لوڈشیڈنگ کے دورانیہ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انرجی سیکٹر کا سرکلر ڈیٹ 1.18 ٹریلین تک پہنچ چکا ہے۔
بجلی کے ٹیرف میں دو روپے فی یونٹ اضافہ کر دیا گیا ہے۔ گیس کی قیمتوںمیں ہوش ربا اضافہ ہونے والا ہے۔ یہ فیصلے ایسے ہیں جن سے عوام میں بے چینی پیدا ہوگئی کیونکہ عمران خان بجلی اور گیس سستی کرنے کا وعدہ کرکے آئے ہیں۔ دیامر بھاشا ڈیم کیلئے 1400 ارب روپے درکا رہوں گے۔ اگر ڈیم سات سال میں بھی بنایا جائے تو ہر سال 200 ارب روپے درکار ہوں گے۔ چندے کیلئے چیف جسٹس نے قوم سے اپیل کی تھی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے لازمی کٹوتی بھی کی گئی پھر بھی دو ماہ میں دو ارب روپے جمع نہیں ہوسکے۔ تیسرا چیلنج کرپشن کے خاتمے کا ہے اس پر کابینہ نے قانون سازی کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ وزیراعظم آفس میں خصوصی احتساب سیل بنا دیا گیا ہے اگرچہ نیب احتساب کا قومی ادارہ موجود ہے تاہم بیرون ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کیلئے وزیراعظم نے ٹاسک فورس تشکیل دی ہے جس میں نیب، ایف آئی اے، اسٹیٹ بینک، ایف بی آر اور متعلقہ محکموںکے اعلیٰ افسر شامل کئے گئے ہیں۔ یہ ایک مشکل ٹاسک ہے مگر ناممکن نہیں۔ جن ملکوں میں یہ رقم ہے ان کے اپنے قوانین ہیں اور عدالتی نظام ہے۔ حکومت پاکستان کو پہلے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ رقم غیر قانونی ذرائع سے حاصل کی گئی پھر عدالت سے اس کی اٹیچمنٹ کرانا پڑے گی۔ تب یہ رقم واپس ملے گی۔ پہلا مرحلہ تو اس دولت کا سراغ لگانا ہے جس کیلئے یہ ترغیب دی گئی ہے کہ لوٹی ہوئی دولت کا بتانے والے کو 20 فیصد حصہ ملے گا۔
پہلے مرحلے میں 100 مگرمچھوں کی فہرست تیار کی جارہی ہے۔ یہ بھی عمران خان کا الیکشن میں بڑا نعرہ تھا جس کی کامیابی کا انحصار نتائج پر ہوگا۔ چوتھا چیلنج گڈ گورننس اور کفایت شعاری کا ہے۔ وزیراعظم نے کفایت شعاری اور حکومت کی ری اسٹرکچرنگ کیلئے 8 رکنی ٹاسک فورس تشکیل دی ہے۔سول سروس میں اصلاحات کیلئے 19 رکنی ٹاسک فورس بنائی گئی ہے یہ اچھے اقدامات ہیں لیکن سول سروس کے بارہ گروپس میں ہیں مگر ٹاسک فورس میں صرف ڈی ایم جی کے دس سرونگ اور ریٹائرڈ افسر شامل کئے گئے ہیں اس فیصلے پر نظرثانی کی جائے۔ اس سے پہلے قومی اقتصادی مشاورتی کونسل میں احمدی کمیونٹی کے میاں عاطف کی شمولیت اور اخراج سے حکومتی ساکھ کو دھچکا لگا ہے ایسے فیصلے ہوم ورک کئے بغیر عجلت میں کئے جارہے ہیں۔ عمران خان خوش قسمت ہیں کہ اس وقت عسکری قیادت سے ان کی ہم آہنگی ہے۔ وزیراعظم کو جس طرح جی ایچ کیو میں 8 گھنٹے کی تفصیلی بریفنگ دی گئی اور پھر 6 ستمبر کو یوم دفاع اور شہداء کے موقع پر تقریب میں مہمان خصوصی بنایا گیا یہ پذیرائی ان کی آرمی میں مقبولیت کی مظہر ہے۔ عدلیہ سے ان کی کوئی محاذ آرائی نہیں ہے۔ اپوزیشن دو حصوں میں منقسم ہے اور پیپلز پارٹی نے نہ صرف وزارت عظمیٰ اور پنجاب کے وزیراعلیٰ کے انتخاب بلکہ صدارتی الیکشن میں جس سیاسی مہارت سے عمران خان کو سہولت فراہم کی ہے اس سے پرویز مشرف دور میں مولانا فضل الرحمٰن کے اپوزیشن لیڈرکے کردار کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جب تک آصف علی زرداری کے کیسز چلتے رہیں گے اپوزیشن منقسم رہے گی۔ شہباز شریف ویسے ہی پہلی مرتبہ اپوزیشن میں آئے ہیں جس طرح عمران خان وزیراعظم بننے کے باوجود اپوزیشن کے خول سے نہیں نکلے اسی طرح شہباز شریف بھی ابھی تک حکمرانی کے خول سے نہیں نکلے۔ انہیں اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرنے میں مشکل آرہی ہے انہوں نے صدارتی انتخاب کے موقع پر بلاول بھٹو کی نشست پر جاکراچھی پہل کی ہے۔
اپوزیشن کو متحد رکھنے کی بڑی ذمہ داری انہی پر ہے۔ اسی طرح عمران خان بھی اب عملیت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کی قیادت سے رابطے استوار کریں ورنہ انہیں قانون سازی میں مشکلات پیش آئیں گی۔ سینٹ میں اپوزیشن کی اکثریت ہے۔ کوشش کی جائے کہ احتساب کے قانون میں ترامیم اتفاق رائے سے کی جائیں۔ خارجہ پالیسی، توانائی کے بحران، ڈیموں کی تعمیر ، کرپشن کے خاتمے اور حکومتی اصلاحات بالخصوص معاشی استحکام کیلئے بنیادی قومی پالیسیاں پارلیمنٹ میں اتفاق رائے سے بنائی جائیں تبھی یہ پالیسیاں نتیجہ خیز اور بارآور ثابت ہوں گی قومی اتحاد کے بغیر امریکی دبائو سمیت دیگر چیلنجز کا مقابلہ آسان نہیں اب فتح کے سحر سے نکل کر زمینی حقائق کے تقاضوں کے مطابق عملیت پسندی کے مظاہرے کی ضرورت ہے۔ الزامات کی سیاست سے کچھ حاصل نہیں ہوگا نئے صحت مند پارلیمانی کلچر کی بنیاد رکھی جائے۔ میثاق تعمیر پاکستان کیا جائے۔