آپ کے مسائل اور اُن کا حل
سوال:۔ آج کل ہمارے معاشرے میں غیبت کی وبا عام ہے، قرآن وسنت کی روشنی میں واضح فرمائیں کہ غیبت کا شرعی حکم کیا ہے؟ نیز غیبت کی کیا کوئی جائز صورتیں بھی ہیں، اور وہ کیا ہے؟(فرحان خان ، مچھ۔بلوچستان)
جواب: ۔ کسی کے پس پشت اس کے کسی ایسے عیب کوذکر کرناجواس میں موجود بھی ہواورمقصداس کی برائی ہو اوراگر اسے اس بارے میںمعلوم ہوجائے تو اسے ناگوار گزرے ، یہ غیبت ہے، جو گناہ ِکبیرہ ہےاور جس پر قرآن وحدیث میں شدید وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ قرآن کریم میں اسے آدم خوری کہاگیا ہے ،مگر افسوس ہے کہ آج کی محفلیں اس گناہِ بے لذت سے آباد ہیں ۔غیبت کا حکم یہ ہے کہ اسے حلال سمجھ کر کرنا کفر ہےاور نام ذکر کئے بغیر کسی کی غیبت ایسے شخص کے سامنے کرنا جس کے نزدیک وہ شخص متعین اور معلوم ہو ، نفاق ہے اور کسی متعین شخص کی غیبت گناہ کبیرہ ہے۔
جب کہ ان صورتوں میں غیبت جائز ہے:
1) ظلم کو دور کرنے کے لیے کسی ایسے شخص کے سامنے غیبت کرنا جو ظلم کو دور کرنے پر قادر ہو۔
2) تغییر منکر کی نیت سے قدرت رکھنے والوں کے سامنے غیبت کرنا۔
3) شرعی حکم معلوم کرنے کے لیے مفتی کے سامنے غیبت کرنا، لیکن نام کو مبہم رکھنا بہتر ہے۔
4) کسی کے شر سے بچانے کے لیے اس کی غیبت کرنا جیسے گواہ اور راویوں پر جرح کرنا۔
5) علانیہ گناہ کرنے والوں کی غیبت کرنا، البتہ صرف اسی گناہ کا تذکرہ جائز ہے جو وہ علانیہ کرتے ہیں، مخفی گناہوں کا ذکر جائز نہیں۔
6) تعارف کی غرض سے کسی کے عیب کو ذکر کرنا، جیسے کانا ، بھینگا وغیرہ، یہ اس صورت میں جائز ہے کہ اس کے بغیر تعارف ناممکن یا مشکل ہو۔ (مشکاۃ المصابيح3 / 1358۔رد المحتار6 / 408)