سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے درست کہا ہے کہ پانی پاکستان کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، اس پر انہوں نے پاکستانیوں سے ڈیم بنانے کے لئے چندہ دینے کو کہا جس میں پاکستانی عوام بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں کیونکہ وہ پانی کی قلت کو اچھی طرح محسوس کررہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا بیان بھی انتہائی اہم ہے کہ اگر 2025ء تک ڈیم نہ بنے تو پاکستان پانی کی کمی کا شکار ہوجائے گا، ڈیم کے لئے چندہ دینے میں خاص و عام شخصیات و ادارے شامل ہیں، بری فوج کے سربراہ نے چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک ارب 59 کروڑ کا چیک پیش کیا، اس کے علاوہ سیلانی نے بھی ایک کروڑ روپے اس مد میں جمع کرائےہیں۔ ڈیم کے لئے چندہ جمع کرنے پر سب سے زیادہ اعتراض بھارت کے میڈیا میں اٹھا تھا، انہوں نے کنگلا پاکستان کے الفاظ سے پاکستان کو نوازا تھا مگر اُن کو یہ معلوم نہیں کہ قومیں اسی طرح ابھرتی ہیں اور مشکلات سے نبردآزما ہوتی ہیں، دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان کے ایک طالب علم نے جاپانی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے کم سے کم رقم جسے اس وقت کا ایک پیسہ دینے کی تجویز دی تھی تو وہ جاپان کے ہیرو قرار پائے تھے، اس وقت چیف جسٹس آف پاکستان نے یہ تجویز دے کر ایک بہت بڑے مسئلہ کو وقت سے پہلے اُجاگر کیا تو یہ پاکستانی قوم کے لئے باعث افتخار ہے کہ ان کے جج جاگ رہے ہیں۔یہ اسی طرح کا جملہ ہے کہ جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو برطانیہ کے وزیراعظم چرچل نے پوچھا کہ کیا ہماری عدالتیں کام کررہی ہیں یعنی انصاف فراہم کررہی ہیں تو جواب مثبت آیا تو انہوں نے کہا کہ پھر ہمیں کوئی نہیں ہرا سکتا۔ اس وقت ہمارے جج ملک میں کرپشن کے خاتمے اور ڈیم بنانے کی طرف توجہ دے رہے ہیں تو ہم برملا یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم زندہ قوم ہیں اور پاکستانی نہ صرف پانی کی قلت پر قابو پا لیں گے بلکہ دیگر چیلنجز کا بھی مقابلہ کرنے میں کامیاب رہیں گے، چیف جسٹس صاحب نے درست کہا ہے کہ جو ڈیم بنانے پر تنقید کررہے ہیںہماری نظر میں یہ پاکستان دشمنی ہے کہ ملک کو جس چیز کی ضرورت ہے اس پر تنقید دشمن کی مدد ہے، چیف جسٹس صاحب نے گلگت بلتستان کا دورہ کیا تھا کیونکہ وہاں سے دو دریا بھارت جاتے ہیں جس پر وہ کشن گنگا ڈیم بنا رہا ہے، اس پانی پر ہمارا حق ہے، میں نےاپنے کالم میںاس پانی کو بھارت جانے سے روکنے کی بات کی تھی جو مقبول ہوئی اور بھارت گفت و شنید کے لئے بھی راضی ہوا اور کشن گنگا ڈیم کے معائنے کی بھی پاکستان کو اجازت دی، اگر ہم کالم نہ لکھتےتو عین ممکن تھا کہ بھارت اپنے راستے پر چلتا رہتا، اب ہم نے جڑ کو پکڑ لیا ہے کیونکہ اگر ہم پانی روکتے بھی ہیں تو اس کو جمع کرنے کے لئے ڈیم ہوتے ہیں جو پانی کا ذخیرہ کرتے ہیں، اس لئے ناقدین کو روکناضروری ہے۔ کالا باغ ڈیم کی جگہ میں نے دیکھی ہے وہ ایک فطری ڈیم کی جگہ ہے، اُس کو بنا لینا چاہئے تھا مگر سندھ اور خیبرپختونخوا کو اس پر اعتراض تھا تو وہ نہیں بن سکا اور تیس سال تک حکمران سوتے رہے یہاں تک کہ ہم انتہائی نازک موڑ پر آکھڑے ہوئے تو ہوش آیااوراس پر پوری توجہ کے ساتھ کام شروع کردیا، پاکستانی قوم سوئی نہیں بنا سکتی تھی مگر اس نے ایٹم بم بنا لیا یعنی جب وہ کام کرنے پر آتی ہے تو وہ کارنامے انجام دے ڈالتی ہے جس سے دنیا ورطۂ حیرت میں پڑ جاتی ہے۔ اب بھارت کے لیڈروں کا یہ کہنا کہ وہ پاکستان کو پانی کی بوند بوند کے لئے ترسا دیں گے، انسانیت کے خلاف ہے اور اُن کا اخلاقی دیوالیہ پن ظاہرکرتی ہے اور وہ پاکستانیوں کو جگانے کے لئے کافی ہے، فلسفہ یہ ہے کہ دشمن جب دشمنی جاری رکھتا ہےتو آپ کو بیدار بھی کرتا ہے جو مستعدی و چستی کا سبب بنتا ہے اور کلیہ یہ بھی ہے کہ کسی قوم کا دشمن ہونا اُس کی زندگی کی علامت ہے، جب روس نے افغانستان سے پسپائی اختیار کی تو جرمنی کے ایک پروفیسر گیز نے کہا کہ اب امریکہ بھی روس کی طرح بکھر جائے گا کیونکہ اُس کا کوئی دشمن نہیں رہا، پروفیسر گیز تو کچھ برسوں بعد انتقال کرگئے مگر امریکہ نے مسلمانوں کو اپنا دشمن قرار دیدیا، نیٹو کے سیکرٹری جنرل کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ابھی انتہاپسنداپنے دشمن کی شکل میں موجود ہیں، اگرچہ دیکھا جائے تو اِن کا اور امریکہ و نیٹو ممالک کا کوئی مقابلہ نہیں تھا مگر انہوں نے اپنی حیات کے لئے ایسے بے سروسامان لوگوں کو دشمن بنا کر خوب مارا، مغرب کے کئی دانشور جن میں پال کریگ روبرٹس شامل ہیں کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ دراصل مسلمانوں کے خلاف جنگ تھی۔ بھارت اگر اس خطے میں امن چاہتا ہے تو وہ جیو اور جینے دو کی پالیسی پر عمل کرے ورنہ نتائج نہ اُس کے حق میں بہتر ہوں گے اور نہ ہمارے، مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق پاکستان کو بقا کے لئے ہر طرح کی سعی کرنا پڑے گی ۔ وہ دریا کے بہائو کو روک سکتا ہے تاہم اس پر جنگ ہوسکتی ہے، پانی پر جنگ جس کی اطلاع مغرب نے کئی عشرے پہلے دیدی تھی کہ آئندہ کی جنگیں پانی پر ہوں گی۔ بھارت ہمارا پڑوسی ملک ہے وہاں بھی انسان بستے ہیں، ہم کبھی نہیں چاہیں گے اور نہ یہ بات کہیں گے کہ بھارت کو پانی کی بوند بوند کیلئے ترسا دیں، ہم مل جل کر یہ مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں، بھارت اس وقت چیخ پڑا تھا جب چینی برہم پترا کے پانی کا رُخ موڑ کر دریا ئے زرد میں ڈالنے کی بات کررہے تھے، یہ اطلاع بھارت کے ایک ماہر نے دی تھی جس سے بھارت میں گہرام مچ گیا تھا مگر بعد میں اس کی تردید آگئی، اُن کا شبہ اس لئے تھا کہ 2010ء میں چینی صدر ہوجنتائو آبیات داں تھے اور وہ تبت پر قبضہ کرنے کی تاریخ کے شہسوار ہیں، بنگلہ دیش کو بھارت سے یہ شکایت ہے کہ وہ برہم پترا کو کم پانی دے رہا ہے اور پاکستان کو بھی یہ شکایت ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان، چین، بھارت، بنگلہ دیش کی معیشت پانی کی بنیاد پر کھڑی ہے، انہیں خوراک کے حصول کے لئے میٹھے پانی کی ضرورت ہے، دُنیا کے لئے ہوا کے بعد سب سے اہم پانی ہے اُسی کے ساتھ آبادیاں قائم ہوتی رہی ہیں، اگر بھارت نے پانی کے معاملے میں گڑبڑ کی تو یہ انسانیت کے لئے ایک تباہ کن کام ہوگا، پاکستان کا پانی روک کر وہ ایک خطرہ مول لے رہا ہے، بہرحال پاکستان کی ڈیم بنانے کی مہم قابل تعریف اور پاکستان کے عوام کے امنگوں کے عین مطابق ہے، بھارت چاہے تو برازیل اور پیراگوئے کی طرح اس مسئلے کا حل پاکستان سے مل کر تلاش کرسکتا ہے، جس کی وجہ سے برازیل اور پیراگوئے جو سدا کے دشمن تھے دوست بن گئے، اس پر میرا کالم 6 جون 2010ء کو روزنامہ جنگ میں شائع ہو چکا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)