• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی وزرا کا دورہ جنوبی ایشیا: ایک تیر، کئی شکار

امریکی وزرا کا دورہ جنوبی ایشیا: ایک تیر، کئی شکار
سُشماسوراج اور نرملا سیتا رامن کے ساتھ

بھارت اور امریکا کے مابین بڑھتی قُربت کا اندازہ امریکی وزیرِ خارجہ، مائیک پومپیو اور امریکی وزیرِ دفاع، جیمس میٹس کے حالیہ دورۂ بھارت سے لگایا جا سکتا ہے۔ بھارت میں امریکی وزراء کے استقبال اور وہاں ہونے والے معاہدے اس اَمر کی غمازی کرتے ہیں کہ آج سے 15برس قبل امریکا کی جانب سے بھارت کے ساتھ تعلقات مستحکم کرنے کا شروع کیا گیا سلسلہ اب عروج پرجاپہنچا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کا ماننا ہے کہ امریکی وزراء کے دورۂ بھارت کے جنوبی ایشیا کے علاوہ مشرقی ایشیا اور مغربی ایشیا پر بھی دُور رس اثرات مرتّب ہوں گے۔ خیال رہے کہ اس دوران مائیک پومپیو نے پاکستان اور افغانستان کا بھی مختصر دورہ کیا۔ گویا وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ بھارت کے گرد و پیش میں واقع ممالک کس قسم کی صورتِ حال سے دو چار ہیں اور نئی دہلی سے متعلق کیا سوچ رکھتے ہیں۔ امریکی حُکّام، عمران خان کے وزارتِ عظمیٰ کے عُہدے پر فائز ہونے کے بعد پاک، امریکا تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے فکر مند تھے کہ وزیرِ اعظم پاکستان ماضی میں پاکستان سے متعلق امریکی پالیسیز کے شدید ناقد رہے ہیں۔ نیز، وہ یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ اسلام آباد، کابل اور دہلی کے ساتھ کس قسم کے تعلقات استوار کرے گا۔ علاوہ ازیں، امریکی وزیرِ خارجہ کے دورۂ پاکستان سے چند روز قبل مشرقِ وسطیٰ کے دو اہم ترین اور متحارب ممالک، سعودی عرب اور ایران کے وزیرِ اطلاعات اور وزیرِ خارجہ بھی پاکستان کا دورہ کر چُکے تھے اور امریکا اوّل الذّکر کا حلیف اور مٔوخر الذّکر کا حریف ہے۔ سو، امریکی وزیرِ خارجہ کے دورۂ پاکستان کو نہایت اہمیت کا حامل قرار دیا گیا۔

بھارت میں تین روزہ قیام سے قبل مائیک پومپیو پاکستان کے مختصر دورے پر اسلام آباد پہنچے، جہاں ان کا نہایت سرد مہری سے استقبال کیا گیا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی وزراتِ خارجہ کے ایک عام سے افسر نے ہوائی اڈّے پر ان کا خیر مقدم کیا۔ تاہم، امریکی وزیرِ خارجہ کی پاکستان سے رخصتی کے بعد اُن کے پاکستانی ہم منصب، شاہ محمود قریشی نے دعویٰ کیا کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں پایا جانے والا تعطّل ختم ہو گیا ہے۔ ہر چند کہ پاکستانی وزیرِ خارجہ کا یہ دعویٰ حیران کُن ہے، لیکن اس دعوے کو بھی خوش آیند کہا جا سکتا ہے کہ اس ملاقات سے چند روز قبل ہی یہ کہا جا رہا تھا کہ پاک، امریکا تعلقات تقریباً معطّل ہو چُکے ہیں اور اب ایک نیا باب رقم کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے دورۂ پاکستان کے موقعے پر امریکی وزیرِ خارجہ نے وزیرِ اعظم ، عمران خان کے علاوہ پاک فوج کے سربراہ، جنرل قمر باجوہ سے بھی ملاقات کی۔ یاد رہے کہ مائیک پومپیو کے ساتھ امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے سربراہ، جنرل جوزف ایف ڈنفورڈ بھی موجود تھے۔ ناقدین کا ماننا ہے کہ اس موقعے پر تجارت اور دیگر شعبوں سمیت امورِ دفاع و خارجہ پر بھی بات چیت کی گئی۔ ملاقات کے بعد شاہ محمود قریشی کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکا نے ڈو مور کا مطالبہ کیا اور نہ الزامات لگائے۔ اگر واقعتاً ایسا ہی ہوا، تو اسے نئی حکومت کی ایک بڑی کام یابی قرار دیا جا سکتا ہے۔ نیز، یہ گمان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ملاقات کے دوران خطّے میں بھارت کے کردار پر بھی گفت و شنید کی گئی کہ یہ معاملہ پاکستان اور بھارت کے مابین بے پناہ تلخی کا باعث بنا ہوا ہے۔ خیال رہے کہ افغانستان کے پسِ منظر میں امریکا، بھارت کو جو کردار دینا چاہتا ہے، اسلام آباد کو وہ کسی صورت قبول نہیں۔ با ایں ہمہ وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی کو دورۂ واشنگٹن کی دعوت بھی دی گئی، جہاں وہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے علاوہ امریکی حُکّام سے بھی ملاقات کریں گے۔ تاہم، ناقدین کے لیے یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ اس قدر خوش گوار ماحول میں ہونے والی ملاقات کا مشترکہ اعلامیہ جاری کیوں نہیں کیا گیا۔ نیز، شاہ محمود قریشی اور اُن کے امریکی ہم منصب نے الگ الگ مؤقف کیوں بیان کیا۔ دوسری جانب ناقدین جہاں تعطّل کے خاتمے کو سراہتے ہیں، وہیں محتاط انداز سے آگے بڑھنے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔ اس موقعے پر وزیرِ اطلاعات، فوّاد چوہدری کا کہنا تھا کہ بالآخر امریکا نے پاکستان کا یہ مؤقف تسلیم کر لیا کہ مسئلہ افغانستان کا حل مذاکرات کے ذریعے نکالا جائے اور عمران خان اسی طریقۂ کار پر یقین رکھتے ہیں، مگر مبصّرین کا کہنا ہے کہ امریکا، افغان طالبان سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار تو کرتا ہے، لیکن اس بات پر بھی مُصر ہے کہ پاکستان افغان طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرے کہ اس کا ان پر گہرا اثر و رسوخ ہے اور پاکستان میں افغان طالبان کی پناہ گاہیں بھی موجود ہیں۔ تاہم، پاکستان اسے یک سَر مسترد کرتا ہے۔ پاکستان کا ماننا ہے کہ وہ بھی افغانستان میں قیامِ امن چاہتا ہے، لیکن اس ہدف کو حاصل کرنے کے ذرایع محدود ہیں۔ سو، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے مٔوقف میں ہم آہنگی کیسے پیدا کی جائے، جو شاید مغربی ایشیا اور افغانستان میں قیامِ امن کی بنیاد بنے گی۔

دوسری جانب امریکی وزیرِ خارجہ اور وزیرِ دفاع جب بھارت پہنچے، تو ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ بھارتی وزیرِ خارجہ، سُشما سوراج اور وزیرِ دفاع، نرملا سیتا رامن دونوں ہی ہاتھوں میں گُل دستے لیے اپنے معزّز مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے ہوائی اڈّے پر موجود تھیں۔ امریکی وزراء کا پُرتپاک استقبال دیکھ کر ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ نئی دہلی اس دورے کو کتنی اہمیت دیتا ہے اور پھر آیندہ تین روز کے دوران بھارت اور امریکا میں پائی جانے والی قُربت، معاہدوں کی شکل میں سامنے آئی۔ امریکی و بھارتی وزراء کے درمیان ہونے والی ملاقات کے لیے ’’ٹو پلس ٹو میٹنگ‘‘ کی سفارتی اصطلاح استعمال کی گئی۔ ان مذاکرات کے بعد دونوں ممالک نے ایک دفاعی معاہدے پر دست خط کیے۔ دفاعی ماہرین کے مطابق، اس معاہدے کے نتیجے میں بھارتی فوج کے لیے حسّاس قسم کا جدید امریکی فوجی ساز و سامان، ہتھیار اور ڈرونز حاصل کرنا ممکن ہو جائیں گے اور امریکا و بھارت مشترکہ طور پر انتہائی حسّاس نوعیت کی حربی ٹیکنالوجی استعمال کر سکیں گے۔ دفاعی ماہرین اسے ایک بڑی پیش رفت قرار دیتے ہیں کہ جدید حربی ٹیکنالوجی میں امریکا کو دوسرے ممالک پر واضح برتری حاصل ہے، جو اسے سُپر پاور بناتی ہے۔ اس معاہدے کوCommunication Compatibility and Security Agreement کا نام دیا گیا ہے۔ امورِ خارجہ و دفاع پر نظر رکھنے والے ماہرین کا ماننا ہے کہ اس معاہدے کو چین اور رُوس کی بڑھتی فوجی طاقت کے پس منظر میں دیکھنا ہو گا۔ خیال رہے کہ حال ہی میں رُوس نے واجی واستوک میں سب سے بڑی فوجی مشقیں کیں، جن میں چین کے فوجی دستوں نے بھی حصّہ لیا۔ اس موقعے پر چینی صدر، شی جِن پِنگ بھی موجود تھے، جو رُوس میں منعقدہ اقتصادی کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ بیش تر ماہرین بار بار یہ سوالات اُٹھاتے ہیں کہ کیا امریکا، بھارت کو خطّے میں چین کے مقابل کھڑا کرنا چاہتا ہے اور کیا وہ ایسا کر پائے گا؟ مذکورہ معاہدے نے ان کے خدشات یا خیالات کو تقویّت دی ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ نے اس معاہدے کو امریکا، بھارت تعلقات میں ایک سنگِ میل قرار دیا، جب کہ بھارتی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ مذکورہ معاہدے کے نتیجے میں بھارت کی دفاعی استعداد میں اضافہ ہو گا۔ فوجی ماہرین بھارت کی اُن ڈرونز تک رسائی کا خاص طور پر ذکر کرتے ہیں، جو اس وقت امریکی اسلحہ خانے میں موجود کام یاب ترین، مؤثر ترین اور سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ہتھیار ہیں اور انہوں نے افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں موجود طالبان کی قیادت کا صفایا کرنے میں فیصلہ کُن کردار ادا کیا۔ یہ ڈرونز نہ صرف سستے ہیں، بلکہ کسی زاید جانی نقصان کے خطرے کے بغیر ہی اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور پہلی افغان جنگ کے دوران استعمال ہونے والے اسٹنگرمیزائلز کی یاد دلاتے ہیں، جن کی مدد سے مجاہدین نے رُوسی افواج کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا تھا۔

امریکی وزرا کا دورہ جنوبی ایشیا: ایک تیر، کئی شکار
مائیک پومپیو اور جیمس میٹس کی عمران خان اور شاہ محمود قریشی سے ملاقات کا ایک منظر

ناقدین جہاں اس معاہدے کو امریکا، بھارت تعلقات میں ایک اہم پیش رفت قرار دیتے ہیں، وہیں بھارت اور رُوس کے درمیان برقرار فوجی تعاون کے معاہدوں کی جانب بھی توجّہ دلاتے ہیں۔ خیال رہے کہ اس وقت بھی 70فی صد بھارتی فوجی ساز و سامان رُوسی ساختہ ہے اور گزشتہ 5برس کے دوران بھارت نے 62فی صد رُوسی ساختہ ہتھیار خریدے۔ دوسری جانب دہلی، ماسکو سے 6ارب ڈالرز کا جدید میزائل ڈیفینس سسٹم خریدنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے اور اس سلسلے میں ابتدائی مراحل طے ہو چُکے ہیں۔ اس ضمن میں ناقدین یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ پاک، بھارت جنگوں کے دوران بھارتی افواج نے رُوسی ساختہ ہتھیاروں ہی سے پاکستانی فوج کا مقابلہ کیاتھا۔ لہٰذا، بھارت اور رُوس کے تعلقات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا دُرست نہ ہو گا کہ بھارت کی خارجہ پالیسی میں فوری طور پر کوئی تبدیلی آئے گی۔ گرچہ رُوس اور بھارت کے دفاعی تعلقات ماضی کی طرح مضبوط ہیں اور یہ امریکا اور پاکستان کے لیے ہمیشہ تشویش کا باعث رہے ہیں، لیکن عالمی طاقتوںسے تعلقات متوازن کرنے کے لیے دہلی نے بیجنگ سے تعلقات بڑھانے پر زور دیا ہے۔ اس ضمن میں رواں برس چین کے ہِل اسٹیشن پر چینی صدر، شی جِن پِنگ اور بھارتی وزیرِ اعظم، نریندر مودی کے درمیان ہونے والی ون ٹون ملاقات خاصی اہم تھی، جس میں دونوں رہنمائوں نے علاقائی و عالمی سیاست کے تناظر میں تفصیلی بات چیت کی۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ غالباً بھارت بعض معاملات میں امریکا کے غیر معمولی دبائو کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہے، جس میں رُوسی ساختہ ہتھیاروں اور ایران سے تیل کی خریداری اور چین سے تعلقات استوار کرنا شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق، بھاتی پالیسی ساز رُوس، چین اور امریکا کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ خیال رہے کہ اس سے قبل نہرو کے زمانے میں بھارت اپنی غیر جانب دارانہ پالیسی کی وجہ سے اس مقصد میں کام یاب رہا۔ یعنی اس نے اس وقت کی دونوں سُپر پاورز، سوویت یونین اور امریکا سے بہ یک وقت فواید حاصل کیے، جس میں فوجی ساز و سامان کی خریداری سمیت دیگر اشیا کی تجارت شامل تھی۔ امریکا، بھارت مشترکہ اعلامیے میں ایک مرتبہ پھر پاکستان پر سرحد پار دہشت گردی کا الزام عاید کرتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان اپنی سر زمین اس مقصد کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔ تاہم، پاکستان نے اس الزام کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے فوراً مسترد کر دیا اور اسے مائیک پومپیو کی جانب سے تضاد بیانی بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ مشترکہ اعلامیے میں امریکا کی جانب سے سِول نیوکلیئر سپلائیرز گروپ میں بھارت کی حمایت جاری رکھنے اور ایف اے ٹی ایف میں بھی بھارت سے تعاون کا ذکر موجود ہے۔ خیال رہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران امریکا اور بھارت کے درمیان تجارت میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2016ء میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا توازن 100ارب ڈالرز سے تجاوز کر گیا، جو 20برس قبل محض 5ارب ڈالرز تھا۔

امریکی وزرا کا دورہ جنوبی ایشیا: ایک تیر، کئی شکار
امریکی وزیرِ دفاع دورۂ کابل کے موقعے پر

بھارت میں قیام کے بعد امریکی وزیرِ دفاع، جیمس میٹس افغانستان کے غیر اعلانیہ دورے پر کابل پہنچے۔ خیال رہے کہ گزشتہ ایک برس کے دوران افغانستان میں جاری جنگ خاصی شدّت اختیار کر چُکی ہے اور عید کے دنوں کے سوا وہاں دہشت گردی کی کارروائیوں اور افغان طالبان کے حملوں میں کبھی تعطّل نہیں آیا، جب کہ افغانستان میں نیٹو افواج کے نئے کمانڈر بھی اپنا چارج سنبھال چُکے ہیں۔ اپنے دورۂ کابل میں امریکی وزیرِ دفاع نے اُس امریکی پالیسی پر زور دیا، جس کا اعلان اگست 2017ء میں ٹرمپ نے افغان اور جنوبی ایشیا کی پالیسی کے طور پر کیا تھا۔ اس پالیسی کے تحت اسلام آباد کو غیر معمولی امریکی دبائو کا سامنا رہا۔ حتیٰ کہ اسے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مَد میں ملنے والی رقم کی ادائیگی بھی روک دی گئی، جس کا کوئی جواز نہیں تھا۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چُکا ہے کہ وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مائیک پومپیو سے ہونے والی بات چیت سے انہیں یہ تاثر ملا کہ امریکا، افغانستان میں غیر معیّنہ مدّت تک نہیں رہنا چاہتا اور وہ طالبان سے براہِ راست بات چیت کے لیے بھی آمادہ ہے۔ ناقدین کے مطابق، شاہ محمود قریشی کے دورۂ نیویارک میں اس سلسلے میں مزید پیش رفت ممکن ہے۔

تازہ ترین