• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جرم بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

ہم جرم کی خبروں کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ جرم روکنے کے جتنے جتن کئے جاتے ہیں ان کے باوجود اسٹریٹ کرائم، اغواء برائے تاوان، انسانی تجارت اور دیگر بڑے جرائم میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا ہے، ہمارے ہاں سزائوں میں تاخیر ہے اور عبرت کا سامان بھی نہیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جرم کی بیخ کنی کے لئے کوئی نیا لائحہ عمل وضع کرنے کے لئے حکومت کو ماہرین کے مشورے سے موثر اقدامات کرنا ہوں گے، اس سلسلے میں ان تمام رکاوٹوں کا جائزہ لینا چاہئے جن کے باعث جرم کو تحفظ مل جاتا ہے اگر انسداد جرائم کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہو تو کی جائے، کیونکہ ہمارے اکثر فوجداری قوانین بالخصوص وقت کا ساتھ نہیں دیتے، طریقہ واردات نیا اور اسے روکنے والا قانون پرانا اور فرسودہ ہے، پارلیمنٹ کو فعال بنانے کی ضرورت ہے تاکہ نئے اور زمانے سے ہم آہنگ قوانین لائے جائیں اور استعماری دور کے قانونی ڈھانچے کو بتدریج بدلا جائے، پرانے قانونی ڈھانچے جرم کرنے والے کے لئے فرار کے راستے زیادہ جرم سے متاثر ہونے والے کے لئے حصول انصاف کے راستے اکثر مسدود دکھائی دیتے ہیں، جہاں ایک طرف مجرم پیدا کرنے کے عوامل ختم کرنے کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ نئی قانون سازی کے عمل کو تیز کرنا بھی لازم ہے، پارلیمنٹ سے اس کا بنیادی کام لیا جائے، اگر اس میں پارلیمنٹ کو مضبوط کیا جاتا، اس میں کورم پورا رکھنے پر توجہ دی جاتی، اور بے مقصد مباحثے نہ ہوتے تو آج جرم اس قدر عام اور مجرم اتنا منہ زور نہ ہوتا، ہم کب تک جرم کی ایذا رسانیاں برداشت کرتے رہیں گے، قانون جاگ رہا ہوتا ہے، اسے نافذ کرنے والے سو رہے ہوتے ہیں، یا قانون شکن عناصر کی ٹیم کا حصہ بنتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والوں سے پوچھنا ہو گا کہ ان کی مشکلات کیا ہیں؟ کسی اہلکار، افسر کو معطل یا تبدیل کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا، مسئلے کی تہ تک پہنچنا ہو گا کہ جرم روکنے کی مشینری میں کہاں کیا کیا خرابیاں ہیں، بیروزگاری معاشرے کے لئے تعمیری کام کرنے والوں کو مجرمانہ فراغت فراہم کرتی ہے، امیر غریب ہر معاشرے میں ہوتے ہیں مگر ان میں حیثیت کے حوالے سے اتنا فرق نہیں ہوتا جتنا ہمارے ہاں نہ صرف ہے بلکہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

٭٭٭٭

سمت درست مگر چال سست

وطن عزیز کا اب وہ حال نہیں رہا کہ ’’ایں راہ کہ نومبروی اے اعرابی بترکستان است‘‘(یہ جس راہ پر تم اے بدو چل نکلے ہو ترکستان کو جاتا ہے تیری منزل کو نہیں) اب ہماری سمت تو درست اتنا تو معلوم ہے لیکن اس پر جس رفتار سے چل رہے ہیں اس میں گفتار زیادہ کردار کم ہے، اب جو کہا وہ کر کے دکھانا ہو گا، ہر روز ایک عمل کا اعلان ہوتا ہے، عمل دیکھنے کو نہیں ملتا، جو بھی نئی حکومت کو نئے پاکستان کے لئے کرنا ہے وہ سب کو زبانی یاد ہو چکا ہے، اب ہونٹ سی لیں اور کام شروع کر دیں، کام خود بولے گا۔ کام کرنے والے کو ڈھونڈورا پیٹنے کی ضرورت نہیں، کچھ کر کے دکھائیں تاکہ پانچ برسوں کی حسن کارکردگی کا یقین آ جائے، ہم نے 70سال ہر رہنما کے ساتھ جوتیاں گھسائی ہیں مگر ہاتھ یہ آیا کہ دونوں ہاتھ خالی ہیں، عوام سے تعاون تب ملتا ہے جب انہیں کچھ ملتا نظر آتا ہے یہ ’’سُکے تے مِل ماہیا‘‘ والی روش چھوڑ دیں یہ بہت گھس پٹ چکی ہے ہر حکومت کے پاس ایک ٹرک ہوتا ہے جس کی بتی کے پیچھے وہ عوام کو لگا لیتی ہے، اور اس طرح مدت پوری کر لیتی ہے گاڑیوں اور بھینسوں کے ساتھ ہی اس گمراہ کن بتی والے ٹرک کو بھی نیلام کر دیں، ہم نے تو یاری کر لی اب یار نادانیاں چھوڑ پرانے پیمانے توڑ کر تیری تو تیرے ہی قول کے مطابق بوتل بھی نئی ہے اور شراب بھی نئی، ہم عوام تو ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اب ہمارا امتحاں نہ لے کہ ہماری حالت یہ ہے؎

جب بہ تقریب سفر یار نے محمل باندھا

تپشِ شوق نے ہر ذرہ پہ اِک دل باندھا

ہم نے تو اس بار ڈبہ پیک سیل لگی قیادت گودام سے نکلوا کر قیمت میں دل دے کر خریدی کیونکہ ہر بار نئے ڈبے میں سیکنڈ ہینڈ آزمائی ہوئی لیڈر شپ گھر لے آئے اور روتے ہی رہے، یہ نویں نکور قیادت بھی اگر ہوا دے گئی تو قیامت ہو گی، کوئی فلسفہ نہیں کوئی تجزیہ نہیں بس اپنی توقعات کی گھٹڑی کھول کے رکھ دی ہے، نئے پاکستان کی نئی قیادت ہماری کوئی توقع ہی خرید لے اور مناسب قیمت دیدے اور فقیر کی صدا کیا ہے۔

٭٭٭٭

پنجاب کو رول ماڈل بنائیں گے

ہمارا عنوان دراصل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا قول ہے، فعل نہیں، پہلے باقی صوبوں کو ماڈل بنا لیں پنجاب خود بخود ہی رول ماڈل بن جائے گا۔ پاکستان صرف پنجاب ہی نہیں 3اور صوبے بھی ہیں، بلکہ بلوچستان کو تو پنجاب کی سطح پر لائیں، کیونکہ اس پر دشمن کی نظر ہے، جب بلوچستان کو پنجاب جیسا بنا دیا جائے گا تو ناقابل تسخیر ہو جائے گا، یہاں اب بھی عوام کے مفادات کا نام لے کر عوام کو فائدہ نہ پہنچانے پر سیاست ہو رہی ہے، عوامی مفاد کے منصوبوں کو متنازعہ بنا کر اپنا مفاد حاصل کرنے والے بول پڑے ہیں کانوں میں روئی ٹھونس لیں، شاہ محمود قریشی اگرچہ وزیر خارجہ ہیں مگر ان پر داخلہ کا وزیر ہونے کا بھی گمان گزرتا ہے، وہ امریکا میں پاکستان کی سفارتی نمائندگی پر بھی توجہ دیں، ہماری وزارت خارجہ اتنا عرصہ خالی رہی ہے کہ وہ Haunted Houseبن گئی تھی، اور فارسی میں کہتے ہیں کہ ’’خانہ خالی را دیواں میگیرند‘‘ (خالی گھر میں جن بھوت بسیرا کر لیتے ہیں) اللہ کا شکر ہے کہ قریشی صاحب کی شکل میں ہمیں ایک فعال وزیر خارجہ مل گئے ہیں، وہ وزارت خارجہ کو پورے خطے کے لئے رول ماڈل بنانے پر توجہ مرکوز کریں اور باہر سے کسی وائرس کو اندر نہ آنے دیں۔ وہ اپنے جد امجد حضرت بہاء الدین زکریاؒ کے نام پر قائم یونیورسٹی کو رول ماڈل بنائیں تاریخ بتاتی ہے کہ ملتان میں پہلی یونیورسٹی ان کے جد امجد ہی نے قائم کی تھی جس کے آثار اس فقیر نے قلعہ کہنہ ملتان میں دیکھے تھے، شاعر کا نام تو یاد نہیں مگر ملتان جسے مدینتہ الاولیاء بھی کہا جاتا ہے کے بارے یہ شعر زباں زد ہوا؎

ملتان مابہ جنت اعلیٰ برابر است

آہستہ پابند کہ مَلک سجدہ میکنند

(ہمارا ملتان جنت الفردوس کے برابر ہے، یہاں قدم آہستہ رکھو کہ قدم قدم پر فرشتے سجدہ کرتے ہیں) ملتان ہی نے غزالی ٔ دوان حضرت سید سعید احمد کاظمی جیسا شجر عالم اور ولیِٔ کامل پیدا کیا، راقم نے ان سے مشرف تلمذ پایا بہرحال پنجاب کے غریبوں اور امیروں میں فاصلہ کم ہو جائے تو یہی کافی ہے باقی رول ماڈل تو وہ ہے، باقی 3صوبوں کے ماڈل ہونے پر کام کیا جائے۔

کس کی دم پر کس کا پائوں آیا؟

....Oغلام سرور خان:پی ٹی آئی کو اقتدار سنبھالے ایک ماہ نہیں گزرا، ہمارا میڈیا ٹرائل شروع کر دیا گیا۔

میڈیا کو اپنا کام کرنے دیں، آپ اپنا کام کرتے رہیں، تو ٹرائل میں جیت یقینی ہے۔ آپ نے تو سنا ہو گا؎

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے

....Oعامر لیاقت کو کراچی کے دورے کے دوران وزیراعظم سے ملاقات کی اجازت نہیں مل سکی۔

کچھ لوگ اپنے گھر کو باہر سے تالا لگا دیتے ہیں۔

....O پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اللہ نعرہ کے خالق پروفیسر اصغر سودائی کا یوم پیدائش گزر گیا، مگر ایسے دن گزرتے نہیں موجود رہتے ہیں۔ دلیل یہ ہے کہ یہ نعرہ آج بھی گونج رہا ہے۔

....Oٹرمپ کو پاگل کتا کہنے پر امریکی وزیر دفاع کو برطرف کرنے کا فیصلہ۔

بُری بات سچ بھی ہو تو نہیں کہنی چاہئے، آخر اخلاقیات بھی کوئی چیز ہے۔

....Oایاز لطیف پلیجو:سندھی، بلوچ اور پشتون کسی صورت کالا باغ ڈیم کو قبول نہیں کریں گے۔

اس پر سندھیوں، بلوچیوں اور پشتونوں کا ریفرنڈم کرا لیں۔

....O پیپلز پارٹی :کالا باغ ڈیم مردہ گھوڑا، بات کرنے والوں پر آرٹیکل 6لگنا چاہئے۔

بات کرنے والوں نے آپ کی بات سن لی، آرٹیکل 6کا صحیح استعمال ہو جائے گا۔

تازہ ترین