• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دین اسلام کی تاریخ شہدا کی قربانیوں سے بھری ہے، علمائے کرام

اولڈہم (جنگ نیوز) سواد اعظم اہل سنت و الجماعت اولڈہم کی سالانہ عظمت شہداء اسلام کانفرنس ادارہ ارشاد الاسلام میں گزشتہ روز زیر صدارت مولانا محمد اکرم اوکاڑوی منعقد ہوئی۔ کانفرنس میں اردو اور انگریزی میں خطاب کرتے ہوئے علمائے کرام و مقررین نے کہا کہ ماہ محرم کو احترام اور فضیلت اسی روز سے ملی ہے کہ جس روز اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا۔ عاشورہ محرم دس محرم کے دن کی بھی تاریخی اہمیت ہے جو کہ قبل از اسلام ہے۔ محرم کے مبارک مہینے میں شہادت کا تاج پہننے اور جام پینے والے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ہوں یا نواسۂ رسولؐ سید نا حسین ابن علیؓ اور ان کے خاندان کے دیگرشہداء فضیلت والے مہینے اور دن میں ان مقدس لوگوں نے راہ خدا میں شہید ہوکر اپنے مقام و مرتبے کو اور زیادہ کرلیا۔ علمائے کرام و مقررین نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی روشنی میں کہا کہ جس صحابہؓ و صحابیہؓ کو جو خصوصی خطاب و ٹائیٹل حضورؐ کی طرف سے دیا گیا ہے وہ اسی کے ساتھ خاص رہے گا۔ سید الشہداء کا خطاب حضور علیہ والصلوۃ و السلام نے اپنے چچا سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو عطا کیا اور اپنے دونوں نواسوں سیدنا حسن و حسینؓ کو ’’سید الشباب اہل الجنۃ (جنتی نوجوانوں کے سردار کالقب) و خطاب عطا کیا۔ اسلام میں اب قیامت تک سید الشہداء جب بولا جائے گا تو اس سے مراد حضرت امیر حمزۃ رضی اللہ عنہ ہی ہوں گے۔ شہید کا مقام اور مرتبہ اسلام میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس کو مردہ کہنا تو درکنار شہداء اسلام کو مردہ سوچنے سے بھی قرآن منع کرتا ہے۔ علمائے کرام و مقررین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’شہادت‘ کی موت اسلام میں اللہ کی خصوصی نعمت بتائی گئی ہے۔ لہٰذا شہادت نعمت ہے مصیبت نہیں۔شہادت کی موت اگر بری ہوتی تو خود پیغمبر اسلام اس کی تمنا نہ کرتے۔ صحابہ کرامؓ و اہلبیت عظام رضی اللہ عنہ دیوانہ وار، شہادت کو گلے نہ لگاتے۔ اسلام میں شہید کی موت قوم کی حیات اور اس کا مقدس خون قوم کی زکوٰۃ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان ہر دو میں دین اسلام پر اس قدر جانیں وار گئے ہیں کہ تاریخ اسلام شہداء کی قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ تاریخ اسلام میں اتنے شہید ہیں کہ اگر فی منٹ ایک شہید کا تذکرہ کیا جائے تو سال ختم ہہ جائے گا۔ مگر شہداء کی تعداد پھر بھی باقی ہوگی۔ علمائے کرام و مقررین نے کہا کہ راہ اللہ میں کٹنے والے اپنی قوم کو غیرت جرأت اور ہمت دیکر جاتے ہیں۔ اس سے پہلے جب کانفرنس شروع ہوئی تو اس کا آغاز پاکستان پیپلزپارٹی برطانیہ کے صدر برائے مذہبی امور مولانا قاری محمد عباس آف ہڈرز فیلڈ کی تلاوت قرآن سے کیا گیا۔ نظامت کے فرائض مولانا قاری عبدالرشید مرکزی ناظم اعلیٰ سواد اعظم اہل سنت و الجماعت برطانیہ نے ادا کئے۔ کانفرنس میں خواتین بچوں اور مردوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ بنگلہ دیش، انڈیا اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام اور عام مسلمان مختلف شہروں سے تشریف لائے ۔ کانفرنس میں وقت کی پابندی اور دیئے گئے شیڈول کا خاص خیال رکھا گیا۔ سواداعظم اہل سنت و الجماعت اولڈہم کی شہداء اسلام کانفرنس سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے جمعیت علمائے برطانیہ کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد اکرم اوکاڑوی نے کہا کہ کانفرنس خاندان نبیؐ و علیؓ کے شہداء کے ذکر خیر کے لئے منعقد کی گئی ہے جس میں یکم محرم 24ھ شہید سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ۔18ذی الحجۃ 35ھ کے شہید سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ،21رمضان 40ھ کے شہید سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور 10محرم 61ھ کے شہید کربلا سیدنا حضرت حسین رضی اللہ اور ان کے اہل بیت ؓ کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔ مولانا اوکاڑوی نے کہا کہ حضورؐ کے خاندان سے تعلق ان شہداء اسلام کا کچھ اس طرح سے بنتا ہے کہ حضرت عمر ؓحضورؐ کے سسر اور حضرت علیؓ کے داماد اور حضرت حسنؓ و حسینؓ کے بہنوئی ہیں۔ حضرت عثمان ؓحضورؐ کے دہرے داماد، حضرت علی ؓ کے ہم زلف اور حسنین کریمینؓ کے خالو ہوئے۔ اتنا قریب ترین رشتہ تو ہے ہی ان کی آپس میں شہادتوں کی مناسبت بھی عجیب ہے۔ حضرت عمر ؓ پر حملہ نماز میں، حضرت حسین ؓ پر حملہ بھی نماز میں، حضرت عثمانؓ بوقت شہادت قرآن کی تلاوت کررہے ہیں اور خاندان حضرت حسینؓ بھی بوقت شہادت تلاوت قرآن میں مصروف ہے۔ حضرت عمرؓ پر حملہ مسجد میں اور حضرت علیؓ پر حملہ بھی مسجد میں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ان نسبتوں کی لاج رکھ کر صحابہؓ و اہلبیتؓ کا ایک جیسا ادب و احترام اور ان کا برابر ذکر خیر یہ صرف اور صرف اہل سنت و الجماعت کا شیوہ اور مقدر خاص ہے۔کانفرنس کے مہمان خصوصی شیخ الحدیث مولانا محمد بلال رنگونی نے کہا کہ مسلمان قوم کو ایفائے عہد کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔ شہدا اسلام کا ذکر خیر کرتے ہوئے مولانا محمد بلال نے کہا کہ ان مقدس نفوس کی قربانیوں کی بدولت ہی قرآن و اسلام ہم تک محفوظ پہنچے۔ انہوں نے کہا کہ اغیار تو خلفائے راشدینؓ بالخصوص خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے کارناموں سے بہت کچھ سیکھ گئے اور اپنے ملک و قوم کو سنوار گئے لیکن مقام افسوس ہے مسلمان حکمرانوں کے لئے جو در بدر کی ٹھوکریں تو کھا رہے ہیں۔ پر خلفائے راشدین ؓ کی سیرت و کردار سے کچھ سیکھنے کی توفیق ان کو نہیں ہو رہی۔ جس کا خمیازہ امت مسلمہ بھگت رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحابہؓ و اہلبیت ؓ میں تاریخ لڑائی بتاتی ہے قرآن و حدیث ان کے بھائی چارے اور تعلق و رشتے داری کو بیان کرتے ہیں ہم ایسی تاریخ کو کوئی حیثیت نہیں دیتے جو صحابہ کرامؓ و اہلبیت عظامؓ کی آپس میں نفرت و عداوت کے چرچے کرتی ہو۔ انہوں نے کہا کہ قاتل عمر ؓ ابولولو فیروز نے نمازمیں حضرت عمرؓ پر حملہ کیا پھر مسلمانوں کی مضبوط صفوں نے اس کو بھاگنے نہ دیا تو اس نے خود پر خودکش حملہ کرکے خود کو مار دیا۔ اللہ دکھانا یہ چاہتا تھا کہ یہ دشمن عمر ؓ ہے اپنے ہاتھوں جہنم واصل ہوا اور قیامت تک حضرت عمر ؓ سے دشمنی کرنے والے اپنے اس ’’بابے‘‘ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے خنجرں سے خود کو مارتے رہیں گے۔ مولانا عادل فاروق نے انگریزی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہادت کی موت کسبی نہیں بلکہ وہبی ہے، جس کو اللہ چاہتے ہیں شہادت کی نعمت عظمیٰ عطا فرماتے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں سے خصوصی طور پر کہا کہ ماہ محرم کی رسوم و بدعات سے خود کو بچائیں اور وہ اعمال بجا لائیں جس کی قرآن و سنت سے تعلیم ملتی ہے۔ کانفرنس کے انتظامات ، مفتی محمد تقی، مولانا محمد شفیق، مولانا محمد حامد خان، مولانا عمر فاروق، حافظ عامر فاروق، بردار طارق عثمانی، حاجی ندیم سرور، وسیم سرور کی نگرانی میں کئے گئے۔ جن دوسرے علمائے کرام نے شرکت کی۔ ان میں مفتی محمد زکریا، مفتی محمدہلال، مولانا مھیمن خان، حافظ میزان الرحمٰن کے علاوہ بولٹن، راچڈیل ، ہازلنگٹن، مانچسٹر، بریڈ فورڈ ،ہڈرز فیلڈ اور دیگر شہروں سے علماء کرام نے شرکت کی۔ بعد نماز مغرب مولانا محمد بلال نے اپنے مخصوص انداز میں خصوصی دعا کروائی، جس میں برطانیہ و یورپ امریکہ اور دیگر ممالک میں آباد مسلمانوں کے ساتھ امت مسلمہ کے مظلوم ملکوں کے مظلوم مسلمانوں کے لئے آہ و بکاہ کے ساتھ دعا ہوئی۔
تازہ ترین