• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹیری پراچیت برطانوی مزاح نگار تھے جن کی لکھی ہوئی کتابیں ان کی زندگی میں 37مختلف زبانوں میں شائع ہوئیں اور 8کروڑ 50لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں ۔ان سے کسی نے پوچھا ،بالعموم کہا جاتا ہے کہ موت اور ٹیکس سے چھٹکارا ممکن نہیں ،آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ٹیری پراچیت نے ہنستے ہوئے کہا ،موت کے بارے میں تو میں کچھ کہہ نہیں سکتا البتہ ٹیکس سے خوف آتا ہے کیونکہ موت تو ایک بار آتی ہے مگر اس نگوڑے ٹیکس کا سامنا بار بار کرنا پڑتا ہے اور اس کی تکلیف مسلسل بڑھتی چلی جاتی ہے ۔اسی طرح امریکہ کے کامیاب بزنس مین رابرٹ جے بریتھ نے ایک بار تجویز دی تھی کہ حکومت اگر محاصلات میں اضافہ کرنا چاہتی ہے تو لوگوں کے سرگوشیاں کرنے اور آنکھیں مٹکانے پر ٹیکس لگا دے ۔امریکہ کے ان لینڈ ریونیو ڈپارٹمنٹ نے تو اس مشورے پر کان نہیں دھرے البتہ نئے پاکستان کے معمار اس حوالے سے پیشرفت کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ترقیاتی بجٹ میں 305ارب روپے کی کٹوتی کرکے 178ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جا رہے ہیں ،اس سے پہلے گیس کے نرخوں میں 143فیصد تک اضافہ کیا گیا اوراب پیٹرول کی قیمتیں بڑھانے کا عندیہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے ۔بتایا جا رہا ہے کہ نئے ٹیکس لگژری آئٹمز یعنی سامان تعیش پر لگائے جا رہے ہیں اور گیس کے نرخوں میں اضافے سے بھی عام آدمی متاثر نہیں ہوگا ۔مگر یہ بات تو معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا کوئی شخص بھی بتا سکتا ہے کہ معیشت ایک ناقابل تقسیم اکائی ہے اور جب مہنگائی کا سیلاب بلا آتا ہے تو عام آدمی کے گھر کو ہی خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتا ہے کیونکہ پانی اپنے آفاقی قانون کے تحت نشیب کی طرف بہتا ہے ۔جب کسی فیکٹری یا کارخانے کی گیس مہنگی ہوگی تو اس میں بننے والے ڈبل روٹی ،بسکٹ اور خورونوش کی دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا اور اس کے اثرات غریب آدمی پر ہی منتقل ہونگے ۔اسی طرح جب سی این جی سیکٹر کو گیس مہنگی ملے گی تو پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھیں گے ۔عام آدمی ہیلی کاپٹر پر 55روپے فی کلومیٹر سفر کر سکتا تو مہنگائی سے متاثر ہوئے بغیر رہ سکتا تھا لیکن وائے قسمت کہ اس نے بسوں ،ویگنوں اور رکشوں کے دھکے ہی کھانے ہیں ۔

ہر آنے والی حکومت قومی خزانہ خالی ہونے کی بات کرتی ہے تو ٹیکس اصلاحات کی جگالی شروع ہو جاتی ہے ۔اگرچہ گزشتہ چند برس کے دوران محصولات کی وصولی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ۔2013ء میں ایف بی آر نے 1900ارب روپے کے ٹیکس وصول کئے تھے اور اب یہ وصولیاں تقریباً4000ارب روپے تک جا پہنچی ہیں۔مگر ملک چلانے کے لئے مزید وسائل درکار ہیں ۔دفاعی ضروریات پوری کرنے کے لئے حکومت پر شدید دبائو ہے ۔اس لئے نوزائیدہ حکومت بوکھلاہٹ میں ہاتھ پائوں مار رہی ہے ۔نئے پاکستان کے معمار یہ جانتے ہوئے بھی کہ بھکاریوں کی عزت نہیں ہوتی ،کشکول لیکر گھوم رہے ہیں۔گاہے سمندر پار پاکستانیوں سے ترسیلات زر اور چندے کی اپیل کی جاتی ہے ،کبھی آئی ایم ایف کے در پر بھیک مانگتے ہیں ،کبھی کاسہ گدائی لیکر سعودی عرب کا رُخ کرتے ہیں تو کبھی چین کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں ۔جب کچھ نہیں بن پڑتا تو ڈنگ ٹپائوپالیسی کے تحت نئے ٹیکس لگا دیئے جاتے ہیں ۔لیکن سیاسی مصلحت پسندی کے باعث کوئی اس منہ زور بیل کو سینگوں سے پکڑنے کو تیار نہیں ۔محصولات بڑھانے کا طریقہ یہ نہیں کہ نئے ٹیکس لگائے جائیں ،دیرپا اور مستقل حل یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے ،ٹیکس وصولی کے نظام میں سقم دور کئے جائیں اور ری فنڈ کا طریقہ آسان بنایا جائے ۔جب تک ہم رجسٹریشن اور ڈاکومنٹیشن کی طرف نہیں آئیں گے ،ٹیکس نیٹ نہیں بڑھے گا ۔اب ہو یہ رہا ہے کہ آمدن کے بجائے اخراجات پر سیلز ٹیکس اور ڈیوٹیاں لگا کر ریونیو بڑھایا جا رہا ہے ۔مثال کے طور پر ایک شخص ماہانہ تیس لاکھ روپے کماتا ہے مگر انکم ٹیکس نہیں دیتا اور اس کے مقابلے میں ایک غریب آدمی جو ماہانہ تیس ہزار روپے کماتا ہے ،یہ دونوں جب تیس ہزار روپے خرچ کرتے ہیں تو ان سے ایک جیسا ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جو سراسر ناانصافی اور ظلم ہے ۔اس منہ زور بیل کو سینگوں سے پکڑ کر پٹخنے کے لئے سابقہ حکومت نے ایک غیر مقبول فیصلہ کیا تھا کہ جو شخص اپنی آمدن کا حساب کتاب ریٹرن فائل کرکے مہیا نہیں کرتا یعنی نان فائلر ہے ،وہ اپنے نام پر گاڑی یا کوئی جائیداد نہیں خرید سکے گا ۔اس پر رئیل اسٹیٹ اور آٹو موبائل مارکیٹ کی طرف سے شدید دبائو آیا مگر فیصلہ تبدیل نہ کیا گیا ۔امید کی جا رہی تھی کہ اس فیصلے کے نتیجے میںلوگ ریٹرن فائل کرنے کی طرف مائل ہونگے اور ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہو گا مگر موجودہ وزیر خزانہ اسد عمر نے ان دونوں سیکٹرز کے دبائو پر گھٹنے ٹیک دیئے اور نان فائلرز پر یہ پابندی ختم کی جا رہی ہے یعنی ایک بار پھر گئی بھینس پانی میں۔

وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر جب حلف اٹھانے سے پہلے فنانس ڈویژن میں ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے اور ایف بی آر کی ٹیم سے بریفنگ لے رہے تھے تو ایف بی آر کے ایک اعلیٰ افسر نے انہیں معاشی اصلاحات کے لئے چار مفید مشورے دیئے جن میں سے ایک یہ تھا کہ درآمدی بل کس طرح کم کیا جا سکتا ہے۔انہیں بتایا گیا کہ ملک کو اس وقت 33ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کا سامنا ہے ،اگر اس خسارے میں خاطر خواہ کمی ہو جائے تو آئی ایم ایف سمیت کسی سے بھیک مانگنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی ۔خود کو عقل کُل سمجھنے والے وزیر خزانہ نے جب ان مشوروں کو نہایت بے اعتنائی سے مسترد کر دیا اور یہ کہہ کر رعب جھاڑنے کی کوشش کی کہ انہوں نے کس طرح نجی ادارے کو ایک منافع بخش ادارے کے طور پر کامیابی سے چلایا تو ایف بی آر کے اس اعلیٰ افسر نے بھنا کر کہا ،حضور!معذرت کیساتھ کہوں گا کہ نجی ادارے چلانے اور ملک چلانے میں بہت فرق ہے ۔حکومت نے معاشی اصلاحات کے ضمن میں پہلی غلطی تو یہ کی کہ ایک ڈی ایم جی افسر کو اٹھا کر چیئرمین ایف بی آر لگا دیا۔موجودہ چیئرمین بہت قابل افسر اور اچھے منتظم ہونگے مگر انہیں ٹیکس وصولی کے نظام کی پیچیدگیوں اور مسائل کا قطعاً کوئی اِدراک نہیں ۔فی الحال تو ایف بی آر میں انہیں یہ بتانے اور سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ کیا گورکھ دھندہ ہے ۔چیئرمین ایف بی آرکے لئے ان کے انتخاب کی مثال ایسے ہی ہے جیسے صحافت کے شعبہ میں بہتری لانے کے لئے کسی فنانشل ایکسپرٹ کی خدمات مستعار لے لی جائیں۔یا پھر کسی ادیب اور شاعر کو پولیس کلچر تبدیل کرنے کا ٹاسک دیدیا جائے۔بہر حال جو لوگ مہنگائی کے حالیہ طوفان پر بدمزہ ہورہے ہیں ،وہ جمع خاطر رکھیں ابھی تو ایک سپل وے کھلا ہے ،ایسے مزید کئی ریلے آئیں گے کیونکہ یہ تو تبدیلی کا محض ٹریلر ہے میرے دوست ،پکچر ابھی باقی ہے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین