شمیم الدین غوری
ایک بوڑھی مچھیرن دو دھوتر مچھلیاں مارکیٹ میں لے کر آتی تھی ۔ ایک وہ بنیے کو دیتی اور اس سے آٹا ،چینی اور دیگر اشیاء کا ایک دن کا راشن لیتی ،دوسری سے سبزی گوشت لیتی اور چلی جاتی۔سالہا سال سے اس کا یہی طریقہ تھا۔اب وہ پریشان ہے۔پیسوں کا حساب اسے آتا نہیں اور دھوتر اب لگتی نہیں،آخر اس جیسی تمام مچھیرنوں پر یہ بپتا کیوں پڑی اور مچھلیاں ساحل چھوڑ کر کہاں چلی گئیں ۔ایک زمانہ تھا کہ چھوٹی چھوٹی کشتیاں مچھیرے سندھ اور بلوچستان کے ساحل سے لے کر نکلتے تھے دو تین کلومیٹر کے فاصلے سے صبح جا کر شام تک اتنی مچھلی یا جھینگا پکڑلیتے تھےکہ ان کا گزارہ چل جاتا تھا۔خو ش حا ل تو وہ کبھی نہ تھے لیکن مفلس بھی نہ تھےلیکن اب مفلسی،بیروزگاری اور فکرمندی نے ماہی گیروں کے گھر ڈیرے ڈال دیے ہیں۔
معاملہ یہ ہے کہ مچھلیاں ہم سے کیوں روٹھ گئی ہیں اور کہاں چلی گئی ہیں۔ایک وقت تھا کہ لیاری اور ملیر ندی میں مچھلیاں ہوتی تھیں۔دونوں ندیوں کے ڈیلٹا میں مچھلی اور جھینگے کی نرسریاں تھیں۔سمندر کے کناروں پر مینگروز کے جنگلات تھے۔نیٹی جیٹی کے نیچے اور اس کے نزدیک سے ہی چھوٹی ایک آدمی والی کشتی سے ماہی گیر اپنی دیہاڑی بنا لیتا تھا۔آج آلودگی نے سمندر کو تباہ کر دیا ہے۔مینگروز کے جنگلات سکڑتے جا رہے ہیں ۔مچھلیوں کی افزائش کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ان کی افزائش کا مینگروز کے جنگلات سے بہت زیادہ تعلق ہے۔ سمندر، مینگروز مچھلیاں، جھینگے، سیپیاں اور دیگر آبی حیات کا ایک دوسرے سے اشتراک ہے۔ایک ایکو سسٹم کے تحت سب اپنی اپنی حد میں رہتے ہوئے ایک دوسرےکی مدد کرتے ہیں۔کسی ایک چیز کی تباہی پورے ایکو سسٹم کی تباہی ہوتی ہے۔ مینگروز کے جنگلات ساحلی علاقے میں دریاؤں کے ڈیلٹائی پانی سے نمو پاتے ہیں۔ پاکستان میں یہ دریائے سندھ کے ڈیلٹائی علاقے ،بلوچستان کے سونمیانی، کلمت اور گوادر کے علاقے میں پائے جاتے ہیں۔ دریائے سندھ دنیا کا چھٹا بڑا دریا ہے۔ 1930ء میں ڈیم اور بیراج بننے سے پہلے سندھ کے ڈیلٹا میں 17 دریائی دہانے سمندر میں میٹھا پانی گراتے تھے،ان میں سے اب صرف ایک دہانہ کھوبر کریک باقی رہ گیا ہے۔اس سے بھی صرف سیلاب کے دنوں میں مینگروز کی طلب سے کم پانی سمندر کو ملتا ہے۔اُس زمانے میں مینگروز کی آٹھ اقسام یہاں پائی جاتی تھیں،اب ان میں سے چار باقی ہیں جو لب دم ہیں ۔ڈیلٹا چھ لاکھ ہیکٹر پر مشتمل ہے۔ ایک لاکھ انتیس ہزار ہیکٹر پر یہ جنگلات موجود ہیں ،جو متنازعہ ہیں ۔ بعض ادارے ایک لاکھ سے بھی کم پر اصرار کرتے ہیں ۔پچھلے چند سالوں میں ان جنگلات کے رقبے میں اضافہ ہوا ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ساحل سمندر پر مینگروز ایکو سسٹم برقرار رکھنے میں بہت مدد دیتے ہیں۔سمندری زندگی کی بقا ان ہی سے ہے۔ان میں سمندری کیڑے مکوڑے،کیچوے،سیپیاں گھونگے،سانپ کیکڑے،شہدکی مکھیاں،جھینگے،مچھلیاں حشرات الارض اور کئی قسم کے خوردبینی نامیاتی اجسام شامل ہیں۔ان میں سے ہر ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ جھینگا اور مچھلی کی یہ افزائش گاہ اور پناہ گاہ ہوتے ہیں۔ان میں جنگلی حیات بھی پرورش پاتی ہے۔ ہجرتی پرندےبھی یہاں آکر بسیرا کرتے اور انڈے بچے بھی دیتے ہیں۔ مینگروز سمندر میں جو ڈیلٹائی مٹی آتی ہے،اس کو سمندر میں جمع ہونے سے روکتے ہیں۔ سمندری لہروں سے ساحل کی حفاظت کرتے اور ساحلی کٹاؤ کو روکتے ہیں۔ساحلی علاقوں میں پکڑی جانے والی مچھلیوں میں سے 80 فی صد مچھلیاں اپنی زندگی کا کچھ حصہ مینگروز میں گزارتی ہیں۔ان کا بچپن،یہیں گزرتا ہے پھر وہ شکار کرنے جوار بھاٹےمیں یہاں آتی ہیں۔کچھ ایسے زندہ اجسام یہاں پائے جاتے ہیں جو خورد بینی نامیاتی اجسام کو کھاتے ہیں ۔ایسے اجسام کاچھوٹی مچھلیاں شکار کرتی ہیں اور انہیں بڑی مچھلیاں شکار کرتی ہیں۔ مختلف قسم کے گھونگے کیکڑے سیپیاں بھی مچھلیوں کی پسندیدہ غذا ہوتی ہیں،غرض مینگروز کی کمی سے پورا ایکو سسٹم تباہ ہو رہا ہے، جس سے نہ صرف مچھلیوں کی پیدائش کو نقصان ہو رہا ہے بلکہ انسان بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ایک انسان کو آٹھ درختوں کی آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہےجوسمندری پانی میں حل ہو کر مچھلیوں کے گلپھڑوں میں جاتی ہے،جب مینگروز کم ہوں گے تو سمندر کو بھی کم آکسیجن ملے گی ،جس سے مچھلیاں اور دیگر آبی حیات کم ہوںگی۔ماہرین کہتے ہیں کہ 2015 میں ہیٹ ویو سے 1200 افراد کا مرنا جنگلات کی کمی سے درجۂ حرارت میں اضافے کی وجہ سے بھی تھا۔محکمہ ٔجنگلات سندھ اور ماحولیاتی حفاظتی کمیٹی اس بات کا جواب دینے سے قاصر ہے کہ این ایل جی کی جیٹی بنانے کے لئے کسی سے 882 مینگروز کاٹنے کی اجازت لی تھی یا نہیں۔ پورٹ قاسم بندرگاہ بنانے کے لئے جن مینگروز کو کاٹا گیا ان میں چار قسم کی نایاب اقسام موجود تھیں جو ختم ہو گئیں۔
جہازوں سے تیل کا رساؤ آبی حیات کے لئے ایسا ہے جیسے زمین پر ہلاکو خان کا حملہ۔میلوں تک سمندر کے نیچے پائی جانے والی سمندری حیات سانس نہ آنے سے دم گھٹ کر ہلاک ہو جاتی ہے۔ گڈانی پر تیل بردار جہازوں کا کالا گاڑھا تیل انہیں توڑنے کے دوران راتوں کو چپکے چپکے سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے،ایسے میں مچھلیاں کیسے ساحلوں کے نزدیک آکر زندہ رہیں گی۔ سمندری ریت اور تیل کو ملا کر لہروں نے جوگولے بنائے ہیں وہ ساحل پر جا بجا نظر آتے ہیں ،جو پکنک کرنےوالوں کی چپلوں،جوتوں میں چپک جائیں تو صاف نہیں ہو سکتے۔ 2003 ءمیں ایک یونانی جہاز تسمان سپرٹ سے تیل کا رساؤ شروع ہوا اور ہمارے پاس اسے روکنے کی ٹیکنالوجی نہ تھی۔کتنے ہی دن اس سے رساؤ جاری رہا ۔کھاڑیوں میں جانے والے ملاح اس سیزن میں بیروزگار ہوئے۔کتنی ہی مچھلیاں اور آبی حیات اس کا شکار ہوئی۔ کتنی ہی سانس، پیٹ اور جلدی بیماریاں پھیل گئیں۔مئی 2017 کو سینڈاسپٹ اور ستمبر 2017 میں کلفٹن کے ساحل پر تیل پایا گیا لیکن کوئی تفتیش و تحقیق نہیں ہوئی۔تیل کا پانی کی سطح پر ہونا مچھلیوں کا قتل ِعام ہے۔اس کے بعد ہی کلفٹن پر دور دور تک مردہ سیپیوں کے خول اتنی بڑی مقدار میں پائے گئے کہ آج تک لوگ ان کےاوپر سے گزر کر ساحل پر جاتے ہیں۔حالیہ سالوں میں ساحل سمندر پر ٹنوں مچھلیاں مردہ پائی گئیں،ایسا تین مرتبہ ہوچکا ہے لیکن تحقیق ہمارا مزاج نہیں۔
شہر کا 480 ملین گیلن آلودہ پانی جس میں کارخانوں کے کیمیکل والاپانی بھی شامل ہے روزانہ سمندر میں پھینکا جا رہا ہے۔کورنگی کریک،گزری،چھنہ کریک،دودریا کے پانی میں تابکاری اثرات بھی ہیں۔ساحلوں پر جہاں مرغیوں کی فیڈ بنانے والی چھوٹی مچھلیاںپکڑی جاتی ہیں۔وہاں اس کو صاف کر کے اس کا فضلہ یا گند، وہیں سمندر میں بہا دیا جاتا ہے ،اس کی مقدار روزانہ ٹنوں میں ہوتی ہے۔شہر کا کوڑا کچرا، بے فکری سے سمندر میںپھینکا جا رہا ہے، جس کی مقدار 6٫4 ٹن سالانہ ہے ،اس میں آدھے سے زیادہ مقدار شاپنگ بیگز یا پولیتھین کی ہے ،جو پانی یا زمین میں ہزار سال تک نہیں گلتے،اس میں لگی خوراک کی خوشبو سے مچھلیاں اس کی جانب راغب ہوتی ہیں اور اس میں الجھ کر پھنس جاتی یا اسے کھا لیتی ہیں ، جس کے نتیجے میں تڑپ تڑپ کر وہ ہلاک ہو جاتی ہیں۔نایاب سبز کچھوے جو ہمارے ساحلوں کا سنگھار ہیں وہ ساحلوں پر انڈے دینے آتے ہیں، ان کی مرغوب غذا جیلی فش ہے ،جو ان کے انڈوں کے سیزن میں ہی ہمارے ساحلوں پر آتی ہے، یہ بیچارے معصوم جانور ان شاپنگ بیگز کو جیلی فش سمجھ کر کھا لیتے ہیں، جس کے نتیجے میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔
ایل بی اوڈی نہر کے ذریعے سیم تھور والا پانی سمندر میں ڈالا جاتا ہے،اس میں کارخانوں کا کیمیکل والا پانی بھی شامل ہوتا ہے۔پنجاب اور سندھ دونوں صوبوں کا آلودہ پانی بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے بدین کے مقام پر سمندر برد کیا جاتا ہے۔بھینس کالونی کا پورا فضلہ اور تمام گوبر پانی میں بہا کر سمندرمیں ڈالا جاتا ہے،اس سے پورے سندھ کی ساحلی پٹی کے سمندر کا پانی اپنے روائتی نیلے یا شوخ سبز رنگ کے کہیں زرد اور کہیں گٹر کے پانی کے رنگ کا کالا کالا ہو گیا ہے۔ ساحل کی زمین کا رنگ بھی سنہری ریت سے عجیب بدرنگ سا ہو گیا ہے۔مچھلیاں ادھر غلطی سے بھی نہیں پھٹکتیں ۔پورٹ قاسم میں جس طریقے سے کوئلہ اور دیگر کچھ دھاتیں اتاری جاتی ہیں ان کا کچھ حصہ سمندر میں گرتا رہتا ہے،اس سے بھی اس علاقے کا سمندر آلودہ ہو رہا ہے۔کراچی میں واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ٹریٹمنٹ پلانٹ موجود ہیں لیکن یا تو ان کی تعداد کم ہے یا کارکردگی کم ہے ،ان سے کام پورا نہیں چل رہا۔ہم نےچین کے ایک شہر نیننگ میں ایک دریا میں لوگوں کو مچھلیاں پکڑتے دیکھا۔ اس دریا کے کنارےپختہ تھے ان میں سے سیوریج کا پانی دریا میں گر رہا تھا۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی ،جب معلومات کیں تو پتہ چلا کہ، یہ دریا سیورج کے پانی کا ہی ہے،اس میں تمام پانی ٹریٹمنٹ پلانٹ سے ہو کر آتا ہے۔ اس میں مچھلیاں موجود ہیں،یہ کشتی بانی کے کام آتا ہے، اس میں فیری چلتی ہے اور اس کا پانی نیچے کے علاقوں میں کاشت کاری کے کام آتا ہے ۔ہمارے ہاں جو پانی مچھلیوں کے لئے زہر قاتل ہے وہاں وہ مچھلیاں پالنے کے کام آرہا ہے اسے کہتے ہیں انتظامات ،سہولتیں۔
میرین پالیوشن کنٹرول ڈیپارٹمنٹ 1996 سے قائم ہے۔اس کا دائرہ کار دیکھیں تو لگتا ہے سارے سمندر کی آلودگی بس یہاںختم پر ہے۔دن میں اس کے سٹیمر دو بار سمندر کا چکر لگائیں گے ،تاکہ زمینی و آبی نگرانی ہو،سمندر میں گرنے والے تیل کی صفائی،بحری جہازوں کا معائنہ،کوڑا کرکٹ سے سمندر کا بچاؤ،مینگروز کا بچاؤ اور بحالی،تیل کی تنصیبات کے علاقے کی ماحولیاتی نگرانی،بندر گاہ کی صفائی، آئل ٹینکرز کی نگرانی،ماحولیاتی آڈٹ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن دیگر سرکاری اداروں کی طرح یہاں بھی روزانہ کاغذوں اور رپورٹوں کی خانہ پُری تو نظر آتی ہےلیکن کارکردگی پر نظر ڈالیں تو کچھ یا بہت کچھ کمی معلوم ہوتی ہے۔
مچھلیاں پکڑنے کے ممنوعہ جال اس قدر قاتل جال ہیں کہ ان سے کوئی مچھلی بچ کر نہیں جا سکتی۔یہ بڑے بڑے منہ کے لمبے جال ہوتے ہیں، جن میں مچھلی کے بچے تک پکڑےجاتے ہیں۔بوئی، لوئر، کچک ،بانگڑہ،چاکوڑہ،پھّرااور بہت سی ایسی مچھلیاں ہیں جو سائز میں چھوٹی ہوتی ہیں،ان کی پیداوار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ کھائی تو کم جاتی ہیں ، اصل میں ایکو سسٹم میں بڑی مچھلیوں کی خوراک کے کام آتی ہیں،یہ سمندر کی تمام مچھلیوں کی غذا ہوتی ہیں۔ان کا شکار اس بری طرح کیا جا رہا ہے کہ یہ ناپید ہو تی جا رہی ہیں ۔ان کا ناپید ہونا ایسا ہے جیسے کسی جنگل سے گھاس ختم کردی جائے۔ان کو پکڑ کر روزانہ ٹنوں کی مقدار میں مرغیوں کی فیڈ بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے، جس سے ان کی نسل کشی ہو رہی ہے۔اس پر پابندی ہے جس پر عمل نہ کرنے کی وجوہات صرف تساہلی نہیں کچھ اور ہیں یہ سوال ملین ڈالر کا ہے۔
سمندر کی مچھلیاں تو آبی آلودگی ،ایکو سسٹم کی تباہی،ممنوعہ جالوں کی رشوت ستانی،تیل کے بہاؤ غیر قانونی شکار وغیرہ سے متاثر ہو کر ہمارے ساحلوں کو چھوڑ گئیں یا ہم نے ان کا قتل عام کر دیا۔ میٹھے پانی کی مچھلیاں بھی ہماری دست برد سے محفوظ نہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی جھیل منچھر جھیل ہے جو کراچی سے 330 کلو میٹر پر سیون کے علاقے سے آگے کی جانب واقع ہے، ایک قدیم جھیل ہے، جو موہنجو دڑو کے دور سے پہلے سے موجود ہے۔ یہ دریائے سندھ سے کچھ اونچی سطح پر واقع ہے، اس لئے جب سیلاب میں دریائے سندھ کی سطح اونچی ہو جاتی ہے تو اس میں پانی بھر جاتا ہے، اس میں کچھ بارش کا پانی اور کچھ ہمل جھیل کا پانی نارا کینال سے آتا ہے ۔اس میں 200 اقسام کی مچھلیاں موجود تھیں۔ہزاروں خاندان جن کا پیشہ ہی ماہی گیری تھا،جن کا قبیلہ ہی ملاح تھا وہ اس سے روزی کماتے تھے۔وہ ہزاروں سال سے کشتیوں میں ہی اس جھیل میں رہتے آئے ہیں۔کشتیوں ہی میں شادی بیاہ،پیدائش و اموات ،غرض ان کی زندگی اس جھیل اور مچھلیوں پر ہی مشتمل ہے۔ پاکستان بننے سے اب تک اس جھیل میں مچھلی کی پیداوار دس فی صد ہی رہ گئی ہے۔اس کی تباہی 1982 میں نارا ویلی ڈرین سے آنے والے سیم تھور کے پانی سے شروع ہوئی ،جس کے لئے واپڈا کے اعلیٰ دماغوں نے کہا کہ اس سے آنے والا سیم تھور کاپانی جھیل کو کوئی نقصان نہیں دے گا اور انہوں نے جھیل کے باسیوں کو دھوکہ دے کر نارا کینال میں سیم تھور کا پانی ڈال دیا۔ اس پانی نے جھیل کے ایکو سسٹم کو تباہ کردیا۔ پانی زہریلا ہو گیا14 اقسام کی مچھلیاں ناپید ہو گئیں۔جھیل کا پانی پینے کے لائق نہیںرہا۔ لیکن یہاں کے باسی اسی کو پینے پر مجبور ہیں۔
کسی بھی ایکو سسٹم سے انسان مناسب حد تک فائدہ اٹھاتا ہے تو وہ سسٹم برقرار رہتا ہے۔اگر اس پر زیادہ دباؤ ڈالا جائے تو وہ تباہ ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی تمام جھیلوں اور دریاؤں سے جب تک مقامی ماہی گیر اپنی روزی کماتے رہےمعاملات اچھی طرح چلتے رہے۔ ہر کنارے پر چند خاندان جال سے مچھلیاں پکڑتے، فروخت کرتے ، ان کی گزربسر آرام سے ہو جاتی۔ مچھلیاں بھی اتنی مقدار میں پکڑی جاتیں کہ ایکو سسٹم برقرار رہتا۔جب حکمرانوں میں اپنے بندے نوازنے کا رجحان پیدا ہوا تو جھیلیں اور دریا ٹھیکے پر دینے شروع کئے،غریب خاندانوں کو ٹھیکیدار کے تابع کر دیا گیا۔اب وہ خود مچھلیاں پکڑ کر نہیں بیچ سکتے۔،انہیں پکڑ کر ٹھیکیدار کو اسی کے بتائے ہوئے دام پر دینی ہوتی ہے۔پہلے وہ اگر دس کلو مچھلی پکڑ کر بیچتا تھا تو اس کا گزارہ ہو جاتا تھا ۔اب وہ سو کلو پکڑ کر دیتا ہے تو اس کا گزارہ ہوتا ہے ،اس سے سارا ایکو سسٹم تباہ ہو گیا اور قدرتی مچھلیاں اب جھیلوں اور دریاؤں سے نایاب ہو گئیں۔اندازہ کیجئے کہ منچھر جھیل کی مشہور دیّا مچھلی اس وقت مچھیرے سے دس سےبیس روپے کلو لی جاتی ہے جو مارکیٹ میں کم از کم سو روپے کلو ہے۔سندھ کی ہالیجی جھیل جو شکار کے لئے ممنوع ہے ، اس میں جال لگتے ہیں۔ اسی طرح سمندری ایکو سسٹم سے بھی اس کی گنجائش سے زیادہ مچھلیاں پکڑی جارہی ہیں۔ غیر ملکی ٹرالروں نے بحری حیات کا جینا مشکل کیا ہوا ہے ۔ 2005 ءتک ہمارے سمندروں میں کوئی ٹرالر نہ تھا۔ زرمبادلہ کمانے کی بجائے اپنے وسائل کو بیچ کر زر مبادلہ کمانا کوئی دانشمندانہ بات نہیں۔ اس کھیل میں کتنا کک بیک ہے یا نہیں لیکن بحری حیات کا نقصان ہو رہا ہے۔ ہماری فشریز میں ماہی گیری کی جتنی کشتیاں ہیں وہ عالمی اداروں کے کہنے کے مطابق ہماری سمندری گنجائش سے دوگنی ہیں، جن میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔متعلقہ اداروں کو اس کی روک تھام کر نی چاہیے۔ مچھلیوں کے تولیدی سیزن میں دو ماہ کی پابندی ضروری ہوتی ہے اس پر بھی جب جی چاہتا ہے ۔ ماہی گیروں کے بہترین مفاد میں پابندی اُٹھا دی جاتی ہے۔ ویسے بھی سیزن میں اس کی خلاف ورزی ہوتی رہتی ہے۔ہم نے مچھلیوں کو خود اپنی حرکتوں اور پالیسیوں سے ان کے ٹھکانوں سے بےدخل کیا،ہم نے ان کے ٹھکانے جانتے بوجھتے ہوئے تباہ و برباد کئے،سب کچھ کر کے ہم تو تشریحات کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا۔یہ معصوم مچھلیاں تو مرتے وقت شور بھی نہیں مچاتیں۔خدارا ان کی حفاطت کریں ،ایسا نہ ہو کہ اگلی نسل کے بچے ہم سے مچھلیوںکا پوچھیں تو ان کو ہم سوائے ایکوریم کے کہیں اور نہ دکھا سکیں۔