• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدائے تکبیر پروفیسر مسعود اختر ہزاروی
محرم الحرام کامہینہ شروع ہوتے ہی ہر مسلمان کے دل و دماغ میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور آپؓ کے پاکیزہ خانوادہ پر یزیدیوں کے ظلم و ستم کی دردناک داستانیں تازہ ہو جاتی ہیں۔ بد قسمتی سے کچھ کلمہ گو مگر دشمنان آل بیت وہ بھی ہیں جو یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’’امام حسین رضی اللہ عنہ نے اقتدار کے حصول یا عظمت و سطوت کے لالچ میں یزید کی بیعت نہیں کی اوراس سے برسر پیکار ہوئے، جس کے نتیجے میں آپ کی شہادت ہوئی‘‘۔ جبکہ زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد خلافت کے امور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوئے۔ آپ نے چھ ماہ تک یہ فرائض سرانجام دیئے۔ بعد ازاں آپ نے از خود ایک معاہدہ کے تحت یہ اقتدار امیر معاویہؓ کے سپرد کردیا تھا۔ اس وقت حضرت امام حسینؓ عالم شباب میں تھے۔ اگر اقتدار کی خواہش ہوتی تو اپنے برادر اکبر سے گزارش کر کے لے لیتے۔ لیکن کسی ایک روایت میں بھی آپ کی کسی ایسی خواہش کا ذکر نہیں ملتا۔ گویا یہ اقتدار تو وہی تھا جسے آپ کے گھرانے سے از خود صلح و صفائی کی خاطر منتقل کیا گیا تھا۔ حضورﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں یہ پیشگوئی فرما دی تھی کہ ’’میرے اس بیٹے کی وجہ سے مومنوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح ہوگی‘‘۔ جہاں تک جاہ و جلال اور عزت و آبرو کا سوال ہے نبی کریم علیہ السلام کی ذات اقدس سے جو نسبت اور تعلق ہے اس سے بڑھ کر اور کیا عزت ہوگی جس کی امام عالی مقام کو خواہش ہوتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اتنا بڑا معرکہ کیوں بپا ہو گیا؟ حقیقت حال یہ ہے کہ حضرت امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے نانا پاکﷺ کی مبارک حیات طیبہ کے مدنی دور میں آنکھ کھولی۔ بچپن، لڑکپن اور جوانی کے ایام خلافت راشدہ کے بابرکت دور میں گزارے۔ آپ بخوبی آگاہ تھے کہ چمنستان اسلام کی آبیاری حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے مقدس خون سے کی گئی تھی۔ جب یزیدیوں کا فسق و فجور اور رقص و سرود اس گلشن اسلام کو اجاڑ رہاتھا تو کیسے ممکن تھا کہ پروردہ آغوش نبوت(ﷺ)، نور نگاہ علی مرتضی (رضی اللہ عنہ) اور جگر گوشہ فاطمہ الزہرہ(رضی اللہ عنہا) یعنی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ یزید جیسے شخص کے ہاتھ پر بیعت کر لیتے۔ آپ نے عزیمت کا مظاہرہ کیا اور بے سرو سامانی کے باوجود فسق و فجور اورباطل کے سامنے ڈٹ گئے۔ ویسے تو یزید کے کرتوتوں سے تاریخ اسلام کے کئی صفحات سیاہ ہیں۔ لیکن ان میں سے تین واقعات حد درجہ قابل مذمت ہیؒں۔ (1) آل بیت اطہار کی دردناک شہادت (2) مدینہ طیبہ خصوصاً مسجدنبوی شریف پر چڑھائی اور بے ادبی و بد تمیزی کی آخری حدوں کو پھلانگنا۔ (3) حرم کعبہ پر چڑھائی اور توہین۔ امام بخاری نے صحیح بخاری میں ایک باب قائم کیا ہے، ’’باب مناقب قرابۃ رسول اللہ ﷺ‘‘ یعنی نبی کریمﷺ کے قرابت داروں کے فضائل کا بیان۔ پھر اسی باب میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی کہ نبی کریمﷺ کے قرابت داروں سے معاملہ کرتے ہوئے آپﷺ کا ہر حال میں لحاظ و پاس رکھو۔ علامہ قسطلانی ؒ نے شرح بخاری میں قرابت دار کی تعریف یہ لکھی ہے ’’من ینسب لعبد المطلب مومنا کعلی و بنیہ‘‘ جن کا نسب حضرت عبد المطلب سے ملتا ہو جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد۔ یزید نے ذرا بھر بھی اس نسبت رسول کا خیال نہیں کیا۔ انتہائی بے دردی اور ڈھٹائی کے ساتھ گلشن اہلبیت کے پھولوں کو مسل دیا۔ کوفہ میں یزید کے مقرر کردہ گورنر ابن زیاد کے پاس جب بعد از شہادت حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا سر مبارک لایا گیا تو اس نے شقاوت قلبی کے ساتھ اپنی چھڑی سے توہین کی۔ فتح الباری شرح صحیح بخاری (باب مناقب الحسن الحسین) میں حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے اس سے کہا کہ جہاں تو اس وقت چھڑی رکھ رہا ہے وہاں میں نے رسول اللہﷺ کو بوسہ دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس پر اس کا منہ بند ہو کے رہ گیا۔‘‘۔ یزیدی لشکر نے میدان کربلا میں حضرت امام حسینؓ اور خانوادہ نبوت کی دیگر پاکباز ہستیوں کا جوبہیمانہ قتل کیا یہ اسکا انتہائی قبیح اورسیاہ کارنامہ ہے۔ اس ظالم نے شہر نبی مدینہ منورہ پر چڑھائی کی توظلم و ستم اور شرم و حیا کی ساری حدیں پار کردیں۔ امام دارمی نے اپنی سنن میں بیان کیا ہے کہ ’’جنگ حرہ‘‘ کے دوران تین دنوں تک مسجد نبوی میں اذان ہوئی نہ اقامت۔ مسجد نبوی میں گھوڑے باندھے گئے۔ صرف سعید بن مصیبؓ نے مسجد نبوی کو نہیں چھوڑا اور چھپ کر وقت گزارتے رہے۔ انہیں رسول ﷺ کی قبر انور سے اذان کی آواز آتی تھی اور اس کے مطابق نماز کی ادائیگی کرتے تھے۔ علامہ یاقوت حموی نے معجم البلدان میں لکھا ہے کہ اس دوران یزیدیوں نے سترہ سو انصار، تیرہ سو قریش اور ساڑھے تین ہزار دیگر ہستیوں کو قتل کیا۔ لوگوں کے مال لوٹے اور تین دن تک یزید کے حکم سے مدینہ میں ہر ناجائز کام ان ظالموں کیلئے حلال تھا۔ یہاں سے فارغ ہونے کے بعد یزید کے حکم سے مکہ مکرمہ کا رخ کیا گیا۔ حرم کعبہ کا محاصرہ کیا اور خانہ کعبہ شریف پر منجنیق کی مدد سے پتھراؤ کیا گیا۔ خانہ کعبہ شریف میں آگ لگی اور پردے جل گئے۔ حرم کعبہ میں حضرت اسماعیل ؑ کے فدیے میں جنت سے بھیجے گئے دنبے کے سینگ محفوظ چلے آرہے تھے اور اس واقعہ میں وہ بھی جل گئے۔ یزید کے ہاتھوں حرمین شریفین کی حرمت پامال ہوئی۔ صحابہ کرام کی توہین اور عترت رسولﷺ کے خون سے اس کے ہاتھ رنگین ہوئے۔ اس کے بعد اس کو مہلت نہ ملی اور ذلیل و رسوا ہو کے مر گیا۔
تازہ ترین