• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوریت کے حقیقی ثمرات عوام تک اس وقت پہنچتے ہیں جب نچلی سطح پر منتخب اداروں کو زیادہ سے زیادہ مضبوط اوربااختیار بنایاجائے۔مغربی جمہوریتوںمیں یہی اصول اپنایاجاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہاں لوگوں کوتعلیم اورصحت وصفائی سمیت زندگی کی بنیادی سہولتوں کے لئے پسماندہ اورپاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کے عوام کی طرح خوار وزبوں نہیں ہونا پڑتا۔قیام پاکستان کے ابتدائی دورمیں انگریزوں کاوضع کردہ بلدیاتی نظام اختیار کیاگیا جونتائج کے اعتبار سے غنیمت تھا مگر جلد ہی یہ جاگیردارانہ سیاست کی نذر ہونے لگا۔ ایوب خان کے دورمیں بنیادی جمہوریتوں کے نام سے جو بلدیاتی نظام نافذ کیاگیا اس کامقصدصرف حکمران وقت کے اقتدار کاتحفظ تھا۔چنانچہ صدارتی انتخاب میں مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایوب خان کی کامیابی اسی نظام کا نتیجہ تھی۔بعد کے ادوار میں یاتوبلدیاتی انتخابات کرائے ہی نہیں گئے یا کرائے گئے تو ان کے نتیجے میں قائم ہونے والے بلدیاتی اداروں کو اتنا بے اختیار بنادیاگیا کہ عوام کوان سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔اس پس منظر میں موجودہ حکومت کا ایک مثبت فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب وزیراعظم عمران خان نے پنجاب کیلئے بلدیاتی نظام کی منظوری دی اوراسے48گھنٹے میں حتمی شکل دینے کاحکم جاری کیا۔اگر اس پر اس کی حقیقی روح کے مطابق عمل کیا گیا تو اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ یہ نچلی سطح پر عوام کوبااختیار بنانے کاموثرذریعہ ثابت ہوگا۔لاہور میں صوبائی وزیربلدیات کی جانب سے نئے بلدیاتی نظام پربریفنگ کے دوران پرانے نظام کی خامیاں دورکرنے کے لئے وزیراعظم نے نئے نظام کے ضمن میں تین بنیادی اصول متعین کئے ہیں،پہلا یہ کہ یہ نظام پیچیدہ نہیں بلکہ سادہ ہو۔دوسرا یہ کہ بلدیاتی اداروں کے انتخابات براہ راست ہوں۔اورآخری یہ کہ منتخب نمائندوں کو پوری طرح بااختیار بنایاجائے تاکہ وہ نچلی سطح پرعوام کی حقیقی معنوں میں خدمت کرسکیں،وزیراعظم نے پنجاب کیلئے جس نظام کی منظوری دی ہے اس کے تحت ضلع اورتحصیل کی سطح پر میئر کاالیکشن براہ راست ہوگا اورمنتخب نمائندوں کی صوابدید پر60سے75ارب روپے تک کے فنڈز مختص کئے جائیں گے۔ ماضی میں بلدیاتی نمائندوں کی بجائے فنڈز اسمبلیوں کے ارکان میں بانٹے جاتے تھے جس سے ان ارکان کی توجہ قانون سازی کی بجائے فنڈز کے حصول پرمرکوز رہتی تھی۔نئے نظام کا مقصد سٹیٹس کو ختم کرکے ایسا طریق کار رائج کرنا ہے جس کے تحت منتخب نمائندوں کو کسی بھی سطح پر بلیک میل نہیں کیاجاسکے گا۔اوروہ اپنی تمام ترتوجہ عوام کی فلاح وبہبود پر مرکوز کرسکیں گے۔ایک اوراہم بات یہ ہے کہ نئے نظام کی بنیاد جمہوری اقدار پرمبنی ہوگی جس کی رو سے گڈگورننس اورشفافیت کو یقینی بنایا جائے گا اس سے نئی لیڈر شپ کو اوپرآنے میں مدد ملے گی۔تحریک انصاف کی حکومت نے خیبرپختونخوامیں ویلج کونسل کے نظام کا تجربہ کیاتھا جس کے بارے میں دعویٰ کیاجاتا ہے کہ اس کا مثبت نتیجہ نکلا۔اسی پس منظر کوذہن میں رکھتے ہوئے وزیراعظم چاہتے ہیں کہ خیبرپختونخوا کے تجربے سے فائدہ اٹھایاجائے اور پنجاب، سندھ اوربلوچستان میں یونین کونسلوں کے سائزکادوبارہ تعین کیاجائے۔اس سلسلے میں اس بات پر غور کیاجارہاہے کہ ان تینوں صوبوں میں ویلج کونسلیں قائم کی جائیں یاموجودہ یونین کونسلوں کے سائز پرنظر ثانی کی جائے کیونکہ خاص طورپر پنجاب میں آبادی کے لحاظ سے ان کا حجم بہت بڑا ہے۔تاہم فیصلہ جوبھی کیاجائے اس میں آمرانہ ادوار کے بلدیاتی اداروں کی خامیوں پربنظر غائرغور کرکے ان سے چھٹکاراحاصل کرنے کی راہ نکالنا ضروری ہے نئے نظام میں محاسبے پر سب سے زیادہ توجہ ہونی چاہئے جس کامطلب سخت گیر آڈٹ اورجواب دہی ہے۔تحصیل اورضلع کی سطح پر منصوبہ بندی کے نقائص بھی دور ہونے چاہئیں اورغیر ضروری سیاسی مداخلت کاراستہ بند ہونا چاہئے۔صوبائی حکومتیں اگر نچلی سطح کی مقامی حکومتوں کے کام میں مداخلت نہیں کریں گی اورانہیں عوام کی بہتری کے لئے آزادانہ کام کرنے دیں گی تو یہ عمران خان کے وژن کے عین مطابق ہوگا۔

تازہ ترین