• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشکوک دفاعی ڈیل ، نریندرمودی سے قبل راجیو گاندھی پر بھی الزامات لگے

لاہور(صابرشاہ)مرحوم بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی پرسویڈش اسلحہ ساز میسرزبوفورزاورنئی دہلی کےدرمیان140کروڑڈالرکی ڈیل سےفائدہ اٹھانے کاالزام لگنےکے3دہائیوں بعدنریندرمودی دوسرے بھارتی سربراہِ ریاست ہیں جن پرسیاسی مخالفین نے عوامی سطح پرقومی مفادات کی بجائےذاتی فائدے حاصل کرنےکاالزام لگایاہے، یہ الزامات 89سالہ پرانی فرانسیسی طیارہ ساز کمپنی میسرزڈی سالٹ ایوی ایشن کےساتھ ایک دفاع سےمتعلقہ سکینڈل میں سامنےآئےہیں۔ سابق فرانسیسی سربراہِ ریاست فرانکوئس اولاندے کےحالیہ انکشافات کہ نئی دہلی نےمیسرزڈی سالٹ ایوی ایشن سے870کروڑ ڈالر کے عوض 36رافیل طیاروں کی خریدارای کیلئےایک مقامی پارٹنرکومنتخب کرنے کیلئےپیرس پردبائو ڈالاتھا، موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی پراب مستعفیٰ ہونےاورٹرائل کاسامناکرنےکیلئے دبائو ڈالا جارہاہے ۔ فرانسیسی وزارتِ خارجہ نےایک بیان جاری کیاہےکہ فرانسیسی انتظامیہ رافیل ڈیل میں بھارتی اندسٹریل پارٹنرزکومنخب کرنے میں ملوث نہیں تھی، مودی کی سیاسی جماعت بی جےپی نےسابق فرانسیسی صدرفرانکوئس اولاندے کےحیران کن دعوئوں کویہ کہتےہوئےمستردکیاہےکہ وہ نہیں جانتے کہ انھوں نےایسا کن مجبوریوں کےتحت کہاہے۔ بھارتی حکومت کی وزارت دفاع نےیہ کہہ کر ردِ عمل ظاہر کیا: ’’کمرشل فیصلےمیں بھارتی حکومت اورفرانسیسی حکومت کاکوئی اختیارنہیں تھا۔‘‘ تحقیق سے ظاہرہوتاہےکہ میسرزڈی سالٹ ایوی ایشن کا2017کاریوینیو480کروڑ80لاکھ یوروتھاجبکہ مجموعی آمدنی 48کروڑ90لاکھ یوروتھی۔ حالیہ مہینوں میں انڈین نیشنل کانگریس کی طرح کی اہم سیاسی جماعتوں نےکافی تجربہ کارسرکاری مینوفیکچررمیسرزہندوستان ایئروناٹکس کی بجائےارب پتی بھارتی بزنس مین انیل امبانی کی ریلائنس ڈیفنس کوبطورڈی سالٹ کامقامی پارٹنرمنتخب کرنےپراپنی حکومت پرسوال اٹھایاہے۔ کانگریس کے صدرراہول گاندھی جومرحوم بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کے بیٹھے، وزیراعظم اندرا گاندھی کے پوتے اور جواہرلال نہروکےپڑپوتے ہیں، انھوں نے کہا:’’مودی نے کہاتھاکہ وہ وزیراعظم نہیں ہیں بلکہ وہ ملک کے’چوکیدار‘ہیں۔ ملک کے چوکیدارنے ڈکیتی کی ہے۔وہ فرانس گئے اور کہا کہ کنٹریکٹ انیل امبانی کو دیاجائے۔ ملک جاننا چاہتاہے کہ چوکیدار نے کیاکیاہے۔‘‘ چونکہ 2019کے انتخابات زیادہ دور نہیں لہذا کانگریس کے الزامات نے یقیناًمودی اور ان کی بھارتیہ جنتاپارٹی کو خطرناک حالات سے دوچار کردیاہے۔ اور 29سال بعد تاریخ خود کودہرا سکتی ہے کیونکہ کانگریس نومبر1989کے انتخابات ہار گئی تھی جب راجیو گاندھی ’’بوفورزسکینڈل‘‘ میں ملوث تھے،جوسویڈش اسلحہ ساز بوفورز اور بھارتی حکومت کےدرمیان 410فیلڈ ہواٹزربندوقیں کے140کروڑڈالرکےمعاہدےمیں کک بیکس لینےسےمتعلق تھا۔ سویڈن میں یہ اب تک کا سب سے بڑا اسلحہ کا معاہدہ تھا اور ترقیاتی پراجیکٹس کیلئے مختص رقم کو بھی اس کنٹریکٹ کوبچانے کیلئے لگا دیاگیاتھا۔ سویڈش کمپنی نے بڑے بھارتی سیاستدانوں اوراہم دفاعی اہلکاروں کومبینہ طورپر89لاکھ ڈالر کک بیکس کی مد میں ادا کیےتھے۔ راجیو گاندھی کے وزارتِ خزانہ وی پی سنگھ (بعدمیں بھارت کےوزیراعظم بنے)سکینڈل کاعلم ہونے پر حکومت اور سیاسی کرپشن کی اہم تفصیلات منظرعام پرلائے۔ وی پی سنگھ کو عہدے سےہٹادیاگیا تھا اور بعد میں انھوں نے کانگریس کی ممبرشپ سے استعفیٰ دےدیاتھا۔ اگرچہ راجیو گاندھی کو 2004میں ان کی موت کے بعد اِن الزامات سے بری کردیاگیاتھا، لیکن ان کی تباہ شدہ ساکھ کے باعث وہ دوبارہ وزیراعظم نہ بن سکے۔ سکینڈل منظرعام پر لانے والے وی پی سنگھ اس حقیقت کے باوجود وزیراعظم بن گئے کہ ان کا’’نیشنل فرنٹ‘‘ کانگریس کی 197سیٹوں کے مقابلے میں 143سیٹیں جیت سکا۔ وی پی سنگھ کے اتحادیوں اور اٹل بہاری واجپائی، لال کرشنا ایڈوانی اور بھارت کی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت میں بی جے پی نےپارلیمنٹ کےایوانِ زیریں میں اکثریت حاصل کی تھی۔ بعد کے سالوں میں کانگرس کو کئی کرپشن سکینڈلز کے باعث نقصان پہنچا۔ مثال کے طورپر2012میں پی جے پی کی زیرقیادت اپوزیشن روزانہ کی بنیاد پر کانگریس کے وزیراعظم منموہن سنگھ سے مستعفیٰ ہونے کامطالبہ کرتی تھی۔ 18اپریل 2012کی اپنی رپورٹ میں ’’بی بی سی نیوز‘‘ نےکانگریس کے دوسرے دورِ حکومت میں کرپشن کی سازشوں پر روشنی ڈالی تھی۔ ان سکینڈلز میں 2008میں کمپنیوں کو122 ٹیلی کمیونیکیشنز لائسنسز کااجراء، 2010کی کامن ویلتھ گیمز کاکرپشن کا تنازع، آرمی کو رشوت دینے کا معاملہ جس میں اس وقت کے بھارتی آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ نے انکشاف کیاتھاکہ اگرفوج اُن کے غیرمعیاری ٹرکس خرید لے تودیفنس انڈسٹری کےایک لابیسٹ نے انھیں 27لاکھ ڈالر کی پشکش کی تھی اور وکی لیکس ’’ کیس کیلئے ووٹ‘‘ سکینڈل جس نے کانگریس کےایک سینئرشخص کو بےنقاب کیاتھا اور 2008میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے اراکین اسمبلی کو رشوت دینے کامعاملہ۔ ووٹ بھارت اور امریکا کے درمیان ایک متنازع ڈیل پر تھا جس سے بھارت کیلئے اپنی جوہری طاقت کو بڑھانےمیں مدد ملی۔ حکومت کے دائیں بازوں کے اتحادوں نے حمایت نہیں کی تھی لیکن کانگریس ووٹ سے بال بال بچ گئی۔ اپوزیشن پارٹیوں نے اس وقت حکومت پر ووٹ کے بدلے رقم دینے کاالزام عائد کیاتھا۔ تاہم کانگریس اوراُن تمام لوگوں نے جن کے نام لیک میں شامل تھےانھوں نےالزامات سےانکارکیاتھا۔ ایک صدر، دووزرائےاعظم اورایک وزیرِ دفاع اب تک مشکوک ہتھیاروں کی ڈیلز میں اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں: موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کوجاننا چاہیئے کہ آج تک ہتھیاروں کے مشکوک معاہدوں کے باعث ایک صدر، دو وزرائے اعظم اور ایک وزیرِدفاع کواپنی نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اگرچہ 1914کےبعدسےدفاع سےمتعلق لاتعدادسکینڈلزدنیابھرکےممالک کےکیلئےمشکلات کا باعث بنتےہیں لیکن جس طرح سے اِ ن ممالک میں قانون کام کرتا ہے اس کے باعث ایک اطالوی صدر، دو جاپانی وزرائے اعظم اور ایک بھارتی وزیردفاع کو ہھتیاروں کے مشکوک معاہدوں کے باعث اپنی نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اس حوالے سے پہلےجاپانی وزیراعظم جنھیں مستعفی ہوناپڑا وہ ایڈمرل یاموتوگونوہوئے تھے۔ اگرچہ یاموتو 1914والے سیمنز سکینڈل میں براہِ راست ملوث نہیں تھے لیکن ان سے بھی تحقیقات کی گئیں کیونکہ وہ اس وقت وزیرِ برائے نیوی تھے۔ 1914میں میسرز ویکرزنے جاپانی انتظامیہ کوایک پُرکشش ڈیل کی پیش کش کی جس میں 25فیصد کک بیکس بھی شامل تھے اور 40ہزار ین وائس ایڈمرل یاوراکیلئے تھےجو اس وقت جاپانی نیوی کے ٹیکنیکل ڈیپارٹمنٹ سربراہ تھے۔ اس سکینڈل میں جاپانی نیوی کے ایڈمرل فوجی نے بھی دولاکھ ین لینے کااعتراف کیاتھا ۔ یہ خبر کسی طرح سے ’’رائیٹرز‘‘ منظرعام پر لایا اور پہلی عالمی جنگ سے کچھ پہلے ہی یہ خبردنیا بھر میں پہنچ گئی۔ دوسرے جاپانی وزیراعظم جنھیں رشوت لینے کے باعث گھر جاناپڑا وہ کاکوئی ٹنکاتھے۔ بدنامِ زمانہ لاک ہیڈ سکینڈل کے بعد اس وقت کے جاپانی وزیراعظم ٹنکا کو 1974میں مستعفی ہونا پڑا تھا۔ 1976میں انھیں ایک امریکی ایئروسپیس کمپنی میسرز لاک ہیڈ سےتیس لاکھ ڈالررشوت لینےکےباعث گرفتارکرلیاگیا۔ انہی الزامات کےباعث ان کے وزیرِ ٹرانسپورٹ کو بھی مجرم قرار دیاگیا۔ ان الزامات کےباعث ٹنکاحکومت کے16اہم جاپانی سیاستدونوں کوبھی سزا ہوئی۔ سابق اطالوی صدرجیووانی لیونےکو 1978میں مستعفیٰ ہونا پڑا، ان پراوران کےوزیراعظم ماریانورومرمیسرز لاک ہیڈکی اطالوی برانچ سے بیس لاکھ ڈالرلینےکا الزام تھا۔ سکیندل میں اطالوی ایئرفورس کی جانب سے سی-130ہرکیولس ٹرانسپورٹ طیاروں کی خریداری کامعاملہ شامل تھا۔ 1976میں عوامی سطح پر یہ انکشاف کیاگیاکہ لاک ہیڈ نے رشوت کی مد میں 2کروڑ20لاکھ ڈالر بین الااقوامی طاقت ور اہلکاروں کو دیئے ہیں۔ امریکا میں لاک ہیڈ کے چیئرمین ڈینیل ہوفٹن اور صدر کارل کوچن کو بھی گھر جاناپڑا۔ لاک ہیڈ سکینڈل کے علاوہ امریکا میں مختلف دفاعی حصولیوں میں فائدے اٹھائے گئے جیسا کہ 2005کا کننگہم سکینڈل، جس میں دفاعی کنٹریکٹز میچل ویڈ اور برینٹ وائکس نے کانگریس کے اراکین اور امریکی محکمہ دفاع کے اہلکاروں کورشوت دی۔ کنٹریکٹرزپر ایک دہائی کےدوران 8کروڑ ڈالرز حاصل کرنے کاالزام تھا۔ رشوت وصول کرنےوالوں میں سب سے اہم کیلی فورنیا سے کانگریس کے رکن ڈیوک کننگہم تھے جنھیں 23لاکھ ڈالر لینے پر مجرم قراردیاگیا۔ 2007میں امریکی فوج کے حصولی کی اعلیٰ افسر کلوڈبولٹن کو اس وقت استعفیٰ دیناپڑاتھاجب آرمی لیڈرز نے یہ تجزیہ کرنے کا فیصلہ کیاکہ کس طرح بولٹن کامحکمہ افغانستان، عراق اور کویت میں آپریشنز کیلئے حصولی کی مد میں 4ارب ڈالر حاصل کررہاہے۔ اس سے قبل ایک امریکی میجر جان کوکرہم پر کویت میں کنٹریکٹرز سےمبینہ طورپر96لاکھ ڈالر رشوت لینےکاالزام لگا۔ ویسٹ جرمن کے دفاعی وزیر فرانز جوزف سٹراس کو بھی لاک ہیڈ میں ملوث کیاگیاتھا۔ ان پر لاک ہیڈ سے ایک کروڑ ڈالر لینے کاالزام تھا۔ اس وقت کے وزیراعظم جووپ نے ملکہ جولیانہ کے خاوند پرنس برہارد کے خلاف 11لاکھ ڈالر کک بیکس لینے کی تحیققات کرنے کاحکم دیا، اگرچہ شاہی خاندان اُن کی موت تک اِن الزامات سے انکار کرتارہا۔ یورپ میں ان واقعات کے بعد بالآخر یورپین کمیشن نےدفاعی حصولیوں کیلئےشفافیت کے معیارکوبہترکرنے کیلئے2004میں گرین پیپرجاری کیا۔ یہ تجویز ایک مشترکہ دفاعی مارکیٹ قائم کرنے کیلئے تھی تاکہ رکن ریاستیں اپنی 180ارب یورو کامشترکہ دفاعی بجٹ بغیرکسی مشکوک ڈیل کے استعمال کرسکے۔ لاک ہیڈ نے 10کروڑ60لاکھ ڈالر ایک اسلحہ ڈیلر کودیئےتاکہ متعلقہ اہلکاروں کی حمایت حاصل کی جائے۔بھارت میں آزادی کے بعد بھارتی حکومت نے انگلینڈ کی کمپنی سے 200جیپیں فراہم کرنے کامعاہدہ کیا۔ یہ کنٹریکٹ 80لاکھ ڈالر کا تھا لیکن صرف 155جیپیں فراہم کی گئیں۔ انگلینڈ میں اس وقت کے ہائی کمشنر وی کےکرشنا مینن سازش میں ملوث تھے لیکن 1955میں کیس بند کردیاگیااور بعد میں مینن جواہر لال نہرو کے قابلِ اعتماد ساتھی اوربھارت کے وزیرِدفاع بن گئے۔ سابق بھارتی وزیردفاع جارج فرنینڈس کو2006کےباراک میزائل سکینڈل کےباعث مستعفیٰ ہوناپڑا۔ اگست2009میں فرنینڈس کارگل جنگ کے بدنامِ زمانہ ’’کفن سکینڈل‘‘ میں ملوث پائے گئے۔نامور سیاست دان آر کے جین کو باراک معاملے میں ان کے کردار پر گرفتارکرلیاگیا جبکہ سابق بھارتی نیوی چیف ایڈمرل سوشیل کمار بھی اس میں ملوث تھے۔ باراک سکینڈل میں اسرائیل سے میزائل کی خریداری شامل تھی۔ 2000میں بھارت نے سات باراک سسٹمز کی خریداری کیلئے معاہدوں پردستخط کیےان کی کل لاگت 19کروڑ90لاکھ 50ہزار ڈالر تھی اور دوسومیزائلوں کی قیمت 6کروڑ99لاکھ ڈالر تھی۔ 80کی دہائی کے آغاز میں ایک ایچ ڈی ڈبلیو سب میرین کہلائی جانے والی ڈیل سکینڈل کاشکار بن گئی اور قت ہونے والی بھارتی وزیراعظم کے بیٹے سنجے اس میں 20کروڑ روپے وصول کرنے پر ملوث قرارپائے گئے۔ چند سال قبل درجنوں بھارتی فوجی افسران جن میں زیادہ تر لیفٹننٹ کرنل اور کرنل شامل تھے انھیں راجھستان ہائی کورٹ میں ایک ایڈووکیٹ کی جانب سے دائرکردہ مقدمے میں انکوائری کاسامنا کرنا پڑا، ایڈووکیٹ کاموقف تھا کہ ان افسران نے اپنے ذاتی ہتھیار مشکوک کرداروالے افرادکوفروخت کیے ہیں۔ ماضی میں بھارتی فوج کے مختلف رینک کے افسران جیسے بھارتی آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ، لیفٹیننٹ جنرل سُرندرکمار ساہی ، لیفٹننٹ جنرل ایس کے ڈہیا، میجرجنرل آنندسوروپ، میجرجنرل ایس پی سنہا، میجرجنرل آنندکپور، میجرجنرل گوراقبال سنگھ ملتانی اور بریگیڈیئر، گردیپ سنگھ وغیرہ مختلف قسم کی کرپشن میں ملوث پائے گئے تھے۔ 2009میں بھارت کا اپنی فوج میں 30ارب ڈالر کےذریعےجدت لانے کامنصوبہ کرپشن سکینڈل کےباعث تاخیر کاشکارہوگیا۔ سکینڈل میں ساتھ کمپنیاں شامل تھیں جن پر کنٹریکٹ حاصل کرنے کیلئے دو ارب ڈالر رشوت دینے کاالزام تھا۔ نئی دہلی نے ان سات کمپنیوں کےفوری طورپر تمام معاہدے روک دییےان میں اسرائیل، پولینڈ اور سنگاپور کی کمپنیاں شامل تھیں۔

تازہ ترین