سوال: ہمارے علاقے میں ایک قبرستان تھا ،وقت کے ساتھ قبروں کے نشانات مٹ گئے ،قبرستان کے ساتھ مسجد موجود ہے ،بعض احباب نے قبرستان والی جگہ پر امام کی رہائش اور مدرسے کے کمرے تعمیر کردیئے ہیں ،کیا یہ درست ہے ؟ (محمد محسن ،لاہور )
جواب:مسلمانوں کے قبرستان کو (خواہ کتنا ہی قدیم کیوں نہ ہو )مسمار کرنا یا کسی دوسرے مقصد کے لئے استعمال کرنا ہرگز جائز نہیں ،علامہ نظام الدین رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں :ترجمہ:’’ شمس الائمہ اما م قاضی محمود اوزجندی سے دیہات میں موجود ایسے قبرستان کی بابت پوچھا گیا کہ جس(قبرستان) کے نشانات مٹ چکے ہوں اور اُس میں میت کی ہڈیاں یا کوئی دوسرے آثار (اعضاء وغیرہ) باقی نہ رہے ہوں،تو کیا اس پر کھیتی کرنا اور اس سے غلہ حاصل کرنا جائز ہے؟،آپ نے جواب میں فرمایا : نہیں بلکہ وہ قبرستان ہی کے حکم میں ہے ،جیسا کہ ’’محیط‘‘ میں ہے ‘‘۔محشی نے اس پر حاشیہ لکھا :ترجمہ:’’ایسا قبرستان جس کے آثار مٹ چکے ہیں ،علامہ قاضی محمود اوزجندی نے اس میں کاشت کرنے کی ممانعت فرمائی ہے، یہ’’ امام زیلعی‘‘ کے اس قول کے منافی نہیں ہے کہ جب میت بوسیدہ ہوکر مٹی ہوجائے تو اس میں عمارت بنانے اور کاشت کرنے کی اجازت ہے ، ممانعت کا حکم اس زمین کے لیے ہے، جو قبرستان کے لیے وقف ہے، کیونکہ وقف کو تبدیل نہیں کیاجاسکتا اور’’ امام زیلعی‘‘ کی اجازت اس قبرستان کے لیے ہے ،جو وقف نہیں ہے ، پس غورکرکے درست مسئلہ لکھنا چاہئے، (فتاویٰ عالمگیری ،جلد2،ص:470،471)‘‘۔یہ حکم اُس صورت میں ہے کہ جب وقف مکمل ہوچکا ہو ،تو اُس میں تبدیلی جائز نہیں، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں قبرستان والی جگہ پر امام کی رہائش گاہ اور مدرسہ تعمیر کرنا جائز نہیں ہے ۔