• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ ہچکچاہٹ کے بعد عمران خان حکومت انتخابی دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیٹی بنانے پر رضا مند ہوگئی جس کی وجہ سے سیاسی شور شرابے میں کچھ کمی ہوئی ہے۔ 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے فوراً بعد بہت سی سیاسی جماعتوں نے پر زور مطالبہ کیا کہ ایک ایسی کمیٹی بنائی جائے۔ تحریک انصاف نے بھی کچھ ایسا ہی مطالبہ کیا خصوصاً اس کے ان امیدواروں نے جو الیکشن ہار گئے۔الیکشنز ایکٹ 2017ء کے تحت لازم ہے کہ ہر پولنگ اسٹیشن میں ووٹ کائونٹ تمام پولنگ ایجنٹوں کی موجودگی میں ہو اور اس پیپر پر ان کے دستخط بھی ضروری ہیں۔ اگر کسی وجہ سے ایسا نہ ہوسکے تو پریذائیڈنگ افسروں کو وجوہات لکھنا ضروری ہے۔ مگر انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا جس کی وجہ سے اعتراضات اٹھ گئے ہیں۔ کئی روز بعد جب الیکشن کمیشن نے مختلف فارمز جن پر انتخابی نتائج دیئے ہوئے تھے جاری کئے تو سب کو پتہ چل گیا کہ اعتراض کرنے والی جماعتوں کے شکوک و شبہات بالکل صحیح ہیں کیونکہ ان فارمز پر پولنگ ایجنٹوں کے دستخط ہی نہیں ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی کے پاس تحقیقات کیلئے یہ ایک بہت بڑا سوال ہوگا کہ ایسا کیوں ہوا اور اس کا ذمہ دار کون ہے اور اسے کیا سزا دینی چاہئے۔ بنیادی ذمہ داری تو الیکشن کمیشن کے اسٹاف کی ہے جس نے قانون کی دھجیاں اڑائیں۔

پارلیمانی کمیٹی کے سامنے اس سے بھی اہم سوال یہ ہوگا کہ آر ٹی ایس (رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم) کیسے بیٹھ گیا جس کی وجہ سے انتخابی نتائج نہ تو الیکشن کمیشن کو اور نہ ہی امیدواروں کو دیے جاسکے۔ ابھی تک تو ایک طرح کی بلیم گیم ہی چلتی رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ نادرا جس نے آر ٹی ایس بنایا تھا ورک لوڈ لے نہیں سکا اور نادرا کا یہ کہنا تھا کہ اس کے سسٹم میں کوئی خرابی نہیں تھی۔ اب یہ پارلیمانی کمیٹی کا کام ہے کہ وہ اس معاملے کو ایکسپوز کرے اور ذمہ داروں کا تعین کرکے ان کیلئے سزا تجویز کرے۔ کمیٹی میں حکومتی الائنس اور اپوزیشن جماعتوں کی نمائندگی برابر ہوگی۔ حکومت نے پرویز خٹک کو اس کمیٹی کا چیئرمین نامزد کردیا ہے ۔

2018ء کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگانے والی جماعتوں کا رویہ 2013ء کے الیکشنز میں ایسے الزامات لگانے والی پی ٹی آئی سے بالکل مختلف ہے ۔ پی ٹی آئی ایک لمبے عرصے تک احتجاج کرتے سڑکوں پر رہی کہ چار حلقے کھول دیئے جائیں مگر جب اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے جوڈیشل کمیشن بنانے کی تجویز دی تو اس پر بار بار اعتراض کیا گیا اور بالآخر ایک ایسا کمیشن بنایا گیا جو کہ پی ٹی آئی کی مرضی کے عین مطابق تھا۔ جب یہ کمیشن تحقیقات کر رہا تھا تو بھی پی ٹی آئی سڑکوں پر ہی رہی تاکہ اس پر زیادہ سے زیادہ دبائو ڈال کر اس سے اپنی مرضی کی رپورٹ لے سکے ۔ جب کمیشن نے اپنی سفارشات دے دیں اور پی ٹی آئی کے الزامات مسترد کر دیئے تو بھی عمران خان احتجاج ہی کرتے رہے۔

پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھی اتنی زیادہ مار دھاڑ اور احتجاج نہیں ہوا جس نے ملک کو جام کئے رکھا۔ ایسے ایسے الزامات سینکڑوں بار دہرائے گئے جس کی مثال نہیں ملتی۔ موجودہ اپوزیشن جماعتیں بار بار کہہ چکی ہے کہ ان کا احتجاج پی ٹی آئی سے بالکل مختلف ہوگا، نہ تو وہ کنٹینر پر چڑھے گی، نہ وہ اسلام آباد کو لاک ڈائون کریں گے اور نہ وہ معمول کی زندگی کو تہہ وبالا کرکے ملک کی ترقی کو روکنے کی کوشش کریں گے۔ ان جماعتوں کے احتجاج کا زیادہ فوکس پارلیمان کے اندر ہے جو کہ جمہوریت میں اپوزیشن کا شیوہ ہونا چاہئے۔ اگر احتجاج سڑکوں اور بازاروں میں ہی کرنا ہے تو پھر پارلیمان کی وقعت کیا رہ جائے گی۔ اگر عمران خان وزیر اعظم بننے کے فوراً بعد ہی پارلیمانی کمیٹی کا اعلان کر دیتے تو نون لیگ نے جس قسم کا احتجاج ایک دو بار قومی اسمبلی میں کیا شاید اس بھی بچا جاسکتا تھا۔ جس دن حکومت نے کمیٹی بنانے کا باقاعدہ اعلان کر دیا اس کے بعد اپوزیشن جماعتوں کا رویہ بھی کافی بدل گیا ہے اور اب ان کی ساری توجہ اس پر ہے کہ یہ فورم صحیح تحقیقات کرے۔ پچھلی حکومت کے دوران تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر الیکشنز ایکٹ 2017ء بنایا تھا جو کہ ایک اچھا قانون ہے مگر مسئلہ اس وقت کھڑا ہوتا ہے جب ایک اچھے قانون پر بھی عمل درآمد صحیح اور مکمل طور پر نہ ہو۔ ایسا ہی کچھ 2018ء کے الیکشن میں ہوا۔ امید کی جاسکتی ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں اس قانون کو مزید بہتر بنایا جاسکے گا۔ کافی امیدواروں نے انتخابات کو الیکشن ٹربیونلز میں چیلنج کیا ہوا ہے جن میں پی ٹی آئی کے ہارنے والے نمائندے بھی شامل ہیں۔ ان فورمز کو چاہئے کہ وہ قانون میں دیئے گئے 120 دن کے اندر اندر ان پٹیشنوں پر فیصلے کریں۔ اس سے بھی کسی حد تک جولائی کے الیکشن کے بارے میں شکایات کا ازالہ ہوسکے گا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ ہوتا رہا ہے کہ اسمبلیاں اپنی پانچ سال کی مدت پوری کرلیتی ہیں اور پھر بھی ایسی پٹیشنیں مختلف عدالت میں زیر سماعت ہی رہتی ہیں۔ ظاہر ہے جب پانچ سال کا عرصہ گزر گیا اور فیصلہ نہ ہو سکے تو یہ ساری ایکسرسائز ہی بیکار ہو جاتی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین