• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نوّے کی دہائی کے اختتام تک ترقی پذیر ملکوں میں غیر ذمہ دارانہ اقتصادی پالیسی کی وجہ سے قرضوں کی نہایت اونچی شرح پالیسی سازوں کی گہری توجہ حاصل کرنے لگی تھی۔ اونچے درجے کے قرضوں نے دھچکوں کے اثرات کو (ان) ممالک کے لئے شدید تر کر دیا تھا، مالی و مالیاتی پالیسی کے موثر پن کو دھندلا کر دیا تھا، سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کی تھی اور معاشی نمو پر منفی اثر ڈالا تھا چنانچہ ایک طویل عرصے کے لئے مالی نظم و ضبط سے وابستگی کو میکرواکنامک استحکام برقرار رکھنے کے لئے ناگزیر تسلیم کیا گیا تاکہ معاشی نمو اور ملازمتوں کے موقعوں کی پیدائش کو فروغ دیا جا سکے۔ ان میکرو اکنامک مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے جن کا پاکستان نے نوّے کی دہائی میں بڑے مالی خسارے…اوسطاً قومی مجموعی پیداوار کا7فی صد…کی مسلسل موجودگی کے نتیجے میں سامنا کیا تھا اور جس کے براہ راست اثر کی وجہ سے عوامی قرضے میں اضافہ ہوا تھا 2002-03ء میں اس وقت کی حکومت نے قواعد پر بنیاد کرنے والی ایک پالیسی ترتیب دی جسے بعد ازاں پارلیمان نے جون 2005ء میں Fiscal Responsibility and Debt Limitation Actکے طور پر منظور کیا۔ اس ایکٹ کا مقصد ملک میں معاشی نظم و ضبط کو ترویج دینا تھا۔ اس ایکٹ کے پانچ اہم نکات تھے (1) یکم جولائی2003ء کے آغاز سے دس سال تک کے لئے (جون2013ء سے آگے) عوامی قرضے قومی مجموعی پیداوار کے60فی صد سے زائد نہ ہوں (2) جون 2008ء تک محصولات کا خسارہ ختم کر دیا جائے (3) جون2013ء تک ہر سال عوامی قرضے میں کم از کم قومی مجموعی پیداوار کے2.5فی صد پوائنٹ تک کمی کی جائے (4)ایک سال کے عرصے میں پی ایس ایز کے قرضوں کی قومی مجموعی پیداوار کے2.0فی صد سے زائد منظوری جاری نہیں کی جائے اور (5) سماجی شعبے اور غربت سے متعلق پروگراموں میں ایک سال میں قومی مجموعی پیداوار کے4.5فی صد سے اوپر اخراجات کی سطح کو قابو میں رکھا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ تعلیم اور صحت پر اخراجات جون2013ء تک قومی مجموعی پیداوار سے شرح فی صد میں دگنے ہو جائیں۔ اس قانون نے2007ء تک بہترین نتائج کا اظہار کیا کہ نہ صرف کارکردگی کے اہداف پورے ہوئے بلکہ بعض صورتوں میں تو مخصوص اہداف مقررہ حد سے بھی آگے نکل گئے۔ مثال کے طور پر2006-07ء میں قومی قرضے میں قومی مجموعی پیداوار کے55.4فی صد تک کمی ہوئی جو کہ 2002-03ء میں75.1فی صد تھا اور محصولات کا توازن…کل محصولات/جاری اخراجات…جو کہ حکومت کی بچت یا عدم بچت کا پیمانہ ہوتا ہے اور جو1997-98ء تا1999-2000ء کے مابین جی ڈی پی کے اوسطاً3.1فی صد خسارے میں تھا2006-07ء تک کم ہو کر صرف جی ڈی پی کا0.9فی صد رہ گیا اور توقع کی گئی تھی کہ یہ ہدف کے سال یعنی2007-08ء میں جی ڈی پی کے1.0فی صد کا سرپلس حاصل کر لے گا۔ سماجی شعبے اور غربت سے متعلق اخراجات کو مستقل اولین ترجیح حاصل رہی اور اس مد میں مختص کردہ رقم جی ڈی پی کے6فی صد کے قریب تھی۔ حکومت جی ڈی پی کے2فی صد تک گارنٹی جاری کرنے میں درکار حد کے اندر رہی۔ تعلیم اور صحت پر اخراجات میں بدستور اضافہ ہو رہا تھا اور اشاروں کے مطابق توقع تھی کہ جون 2013ء تک یہ دگنے ہو جائیں گے۔ اس قانون کے بعض اہم نکات کی2007-08ء سے خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ مثال کے طور پر عوامی قرضہ2006-07ء میں جی ڈی پی کا55.4فی صد تھا جو2011-12ء میں بڑھ کر61.5ہو چکا ہے۔ عوامی قرضے میں بجائے کمی آنے کے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اسی طرح ٹیکس محصولات کا خسارہ بجائے سرپلس ہونے کے جی ڈی پی کے3.0فی صد سے زائد ہو چکا ہے۔ ان نتائج کا سبب حکومت کا غیرذمہ دارانہ اقتصادی رویہ ہے۔ اس صورت حال نے پاکستان کو دھچکوں اور بحرانات کا سامنا کرنے کے لئے نہایت کمزور کر دیا ہے۔ اس کی وجہ سے مالی اور مالیاتی پالیسی کا موثر پن ختم ہو چکا ہے، داخلی اور بیرونی سرمایہ کاری دم توڑ رہی ہے، معاشی نمو سست پڑ چکی ہے، غربت اور بے روز گاری آسمان کو چھو رہی ہے اور روپے کی قدر شدید دباؤ کا شکار ہے۔ فی الوقت زرمبادلہ کے ذخائر گھٹ رہے ہیں اور ملک قرضوں کی ادائیگیوں کے بحران میں داخل ہو چکا ہے اور سب سے شدید المیہ یہ ہے کہ حکومت اور اس کی معاشی ٹیم کو اپنی غلطیوں کا ذرّہ برابر بھی احساس نہیں ہے۔ معاشی ذمہ داری کا موجودہ قانون جون2013ء میں اپنی مدت پوری کر رہا ہے۔ کیا (ملک میں) ایک (نیا) قانون ہونا چاہئے؟ کیا پاکستان کو ایک معاشی طور پر غیر ذمہ دار قوم کی طرح رہنا چاہئے اور کیا عوام معاشی فضول خرچی کی قیمت ادا کرتے رہیں گے؟ موجودہ ایکٹ کی مدت پوری ہونے کے بعد پاکستان کو معاشی ذمہ داری کے ایک نئے قانون کی ضرورت ہے جس کے لئے اقدامات شروع کرنے چاہئیں۔ موجودہ حکومت کو اس سلسلے میں ذمہ داری کا احساس ہے اور نہ ہی وہ اس بابت عزم، خواہش یا استعداد سے بہرہ ور ہے۔ عبوری حکومت کو ہر سلسلے میں اس کوشش کا آغاز کرنا ہے جس کے لئے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی جانی ہو گی جو ایسا قانون تیار کرے جسے نئی پارلیمان میں منظور کیا جا سکے۔ اس ایکٹ کی ساکھ اور فعالیت میں اضافے کے لئے موجودہ قانون کی تھوڑی بہت نوک پلک سنوارنی ہو گی۔ جگہ کی قلت کی وجہ سے میں قرضوں میں کمی کی نئی حکمت عملی اور قانون میں ترمیم کے بارے میں تحریر نہیں کر سکتا تاہم اس مرحلے پر کچھ حوالے فراہم کئے جا سکتے ہیں۔ نئے قانون کا یکم جولائی2013ء سے آغاز ہونا چاہئے اور اس کی کم سے کم مدت10سال ہو۔ پاکستان کو قرضوں کے بوجھ کے لئے وسط مدتی اہداف متعین کرنے کی ضرورت ہے جو نئے قانون کا لازمی حصہ بن سکتے ہیں۔ عوامی قرضوں کے بوجھ کو جی ڈی پی اور کل محصولات کی ٹرمز میں متعین کرنا چاہئے۔ جی ڈی پی کے مقابلے میں قرضوں کو اتارنے کے لئے محصولات ایک لحاظ سے حکومت کی اہلیت کے زیادہ بہتر اشاریئے ہوتے ہیں۔ پاکستان کو بیرونی قرضوں کے حصول کے لئے ایک حکمت عملی ترتیب دینے اور اسے مالی خسارے کی ضروریات سے جوڑنے کی ضرورت ہے تاکہ داخلی طور پر قرضے لینے کی ایک واضح حکمت عملی بھی سامنے آ سکے۔ برآمدات اور زرمبادلہ کی آمدن سے متعلق بیرونی قرضے کے لئے ایک واضح ترین ہدف کا بھی تعین کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ مجموعی مالی نظم و نسق کا تمام تر بوجھ صوبوں پر منتقل ہو چکا ہے اس لئے صوبائی حکومتوں کے لئے رپورٹ دینے کے تقاضے بھی زیر غور لائے جا سکتے ہیں۔ قرضوں سے متعلق محکمے کو وسط-سالہ مالی کارکردگی کی رپورٹ پارلیمان میں پیش کرنے کی ہدایت کی جا سکتی ہے تاکہ اگر مجموعی ہدف میں کمی ہو تو مالی اصلاحاتی اقدامات بروئے کار لائے جا سکیں بجائے اس کے کہ قرضوں سے متعلق محکمہ پارلیمان میں رپورٹ پیش کرے۔ فنانس منسٹر کو پارلیمان کے دونوں ہاؤسز میں بحث کے لئے رپورٹ جمع کرانی چاہئے۔ معاشی ذمہ داری کے ایک نئے قانون کی ضرورت اور طریق کار پر بحث کے آغاز کے لئے درج بالا مشوروں کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر یقین ہے کہ پاکستان کو میکرواکنامک استحکام برقرار رکھنے، معاشی نمو کو فروغ دینے، ملازمتوں کی پیدائش اور غربت میں کمی کی خاطر ایک موثر مالیاتی آپریشن بروئے کار لانے کیلئے ایک معتبر قانون کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین