• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا کے حکمرانوں نے سورج کی جانب سے پیٹھ کر رکھی ہے اپنے سائے سے ہراساں ہیں اور خوف کے مارے اپنے سایوں پر کود رہے ہیں لیکن روشنی کو سایہٴ ظلمات سے آگے بڑھنے نہیں دیتے ادھر پاکستان کے حکمرانوں میں اتنی تاب ہی نہیں کہ وہ سورج کی طرف دیکھیں، ان کو اندھے ہونے کا اندیشہ ہے حالانکہ ان کے پاس بصارت تو ہے مگر بصیرت سے عاری ہیں۔ ادھر لوگ ہیں کہ ملک جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے وہ ہیں کہ قبروں پر دیے جلا رہے ہیں پھر یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ سول سوسائٹی کسی سانحے پر موم بتیاں جلانے کا اہتمام کرتی ہے ایک نیا سیاسی رومانس متعارف ہو رہا ہے تاکہ مزاحمت کے راستے سے چھٹکارا حاصل ہو۔ ظاہر ہے اس عہد تشویش میں کون کس کے لئے اپنی خواہشوں کو الوداع کہہ سکتا ہے۔ اس لئے عالمی اجارہ داروں کو موقع میسر آ گیا ہے کہ وہ کھل کر اور نئے طریقے سے دنیا میں لوٹ مار جاری رکھیں تاہم دنیا بھر میں کچھ لوگوں نے سچائی کا علم بلند رکھا ہوا ہے۔ ہرچند کہ یہ لوگ کم ہیں مگر ہیں۔ اس قافلے کی ایک مسافر کینیڈین نژاد 38سالہ صحافی ناؤصی کلائن 2005ء میں ”نولوگو“ کے نام سے ذہنی مفلسی دور کرنے کے لئے ایک کتاب منظر عام پر لائیں۔ اس نے تہلکہ مچا دیا تو دوسری کتاب 2008ء میں ”شاک ڈاکٹرین“ کے نام سے لکھ ڈالی۔ ”نو لوگو“ کے مرکزی خیال میں اولیت ان بڑے برانڈوں کو دی گئی جو تیسری دنیا کے مضافات میں محنت کشوں کا بے رحمی سے استحصال کر کے سستی مصنوعات بنا کر ملٹی نیشنل کمپنیاں انہیں دنیا کے صارف کو نہایت گراں قیمت پر فروخت کر رہی ہیں۔ ناؤصی کلائن نے کچھ عرصہ پہلے ”ری کنسٹرکشن اور ڈی کنسٹرکشن“ کے عنوان سے ایک مضمون گارجین میں لکھا اس میں عالمی ساہوکاروں، اجارہ داروں جن کا سرغنہ امریکہ ہے ان کے بارے میں کچھ اس طرح انکشاف کیا ”مذکورہ دونوں اصطلاحیں21ویں صدی کے بہیمانہ استحصال کی نئی شکلیں ہیں جس میں یہ حکمت عملی اختیار کی گئی ہے کہ کس طرح پُرامن ملکوں کو عدم استحکام سے دوچار کرنا اور تباہ کرنا ہے بعدازاں امریکہ اور اس کے حواری اپنے انجینئرز، بینکار اور دیگر عملہ بھیج کر دانستہ تباہ حال ملکوں کی ازسرنو تعمیر کرے گا۔ سب سے پہلے اس حکمت عملی کے تحت عراق، ہیٹی اور افغانستان پر اس نسخے کو آزمایا گیا۔ اقوام متحدہ کے معاشی اہلکاروں اور ساتھی سیاست دانوں کو علم ہے کہ عراق، ہیٹی اور افغانستان پر نیٹو اینڈ کمپنی کے ذریعے فوج کشی کے نتیجے میں جو تباہی لائی گئی ہے اس کی ازسرنو تعمیر کے لئے مشاورتی فرمیں، انجینئرنگ کمپنیاں، میگا این جی اوز، معاشی غارتگر، متعلقہ ملکوں کی بیوروکریسی اور اقوام متحدہ کی ایجنسیاں عالمی مالیاتی اداروں کی پشت پناہی پر آ چکی ہیں۔ وہ تعمیر کی تخریب کے بعد کا کام کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ تو جاننے والوں کو علم ہے کہ وارد ہونے والی کمپنیوں کے بے پناہ لاگتی منصوبے، تنخواہیں اور مراعات امداد کی آڑ میں قرضوں کا بوجھ لاد کر متاثرہ ملکوں میں لیپا پوتی کر کے چلی جاتی ہیں۔ ”واشنگٹن اتفاق“ میں طے کیا گیا ہے کہ اب جمہوریت کے نصاب میں گڈ گورننس، ٹرانسپیرنسی اور پرائیویٹائزیشن کی اصطلاحیں ڈالنی ہیں تاکہ اپنے حاشیہ بردار حکمران اور وزرائے خزانہ اس سبق کو رٹ لیں۔ یہ سی ایس آر (CSR) سمیت نصاب بزنس اسکولوں میں رائج کیا گیا ہے تاکہ نوخیز ذہنوں میں بھس بھرنے کا آغاز ہو۔ لوٹ مار کے اس تناظر میں لاس اینجلس ٹائمز نے لکھا افغانستان کے سربراہ حامد کرزئی جو خود بھی تعمیر اور تخریب کی حکمت عملی کا حصہ ہیں اس جیسے شخص نے جب بیرونی تعمیراتی کمپنیوں کی حد سے زیادہ کرپشن دیکھی تو اس نے زور دے کر کہا ”سب کچھ ضائع کرنے والی کمپنیوں اور بیرونی ٹھیکے داروں نے تمام وسائل ہڑپ کر لئے جو انہیں امداد کی صورت ملے تھے“ اس صورت حال کو آسانی سے سمجھنے کے لئے کہ دنیا کے اجارہ دار کس طرح دنیا کو چاٹ رہے ہیں۔ سونامی کے سانحہ پر امریکی سابق سیکرٹری خارجہ نے جو بیان دیا اسے ناؤصی کلائن نے اپنے مضمون میں ان الفاظ میں تحریر کیا ”اس بیان سے بہت سے لوگوں کے دل دہل گئے جب سونامی کے بارے میں جنوری 2005ء میں کونڈا لیزا رائس نے کہا ”یہ ایک زبردست مواقع پیدا کرنے کا حادثہ تھا سونامی نے ہمیں بڑا فائدہ پہنچایا، دراصل جن علاقوں میں سونامی نے تباہی مچائی وہ ”بزنس مین“ حلقے اور سیاستدانوں کے لئے سونامی ان کی برسوں کی دعاؤں کا جواب ہے جس کے نتیجے میں ساحلوں سے تمام بوسیدگی اور آلودگی ختم ہوگئی، غریب بھی ختم ہوگئے اور اب نئے ہوٹل، موٹل اور طرب گاہیں ازسرنو تعمیر ہوں گی“۔ اس حوالے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مختلف ملکوں میں جنگ یا تنازعات پیدا کرکے ان وسائل پر قبضہ کرنے کے بہانے ازسرنو تعمیر کے معاشی فوائد کے حصول کا مزید ڈرامہ رچایا جائے گا۔ جسے ”پری ہیمووار“ سے منسوب کیا گیا ہے۔ ازسرنو تعمیر کے محکمے کا سربراہ کارلوس پاسکل ہے۔ پاسکل آفس کا یہ کام نہیں کہ وہ پرانی ریاستوں کی تجدید پر رقم خرچ کرے بلکہ امریکی خواب کی تعبیر کی حکمت عملی میں جمہوریت، منڈی کی معیشت اور آزاد تجارت کو عالمی تجارتی تنظیم کے ضابطوں کے تحت آگے بڑھائے۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ عالمی تجارتی تنظیم کے ضابطے انسانی حقوق سے بالاتر ہیں اور گوئٹے مالا عالمی تجارتی تنظیم کی عدالت میں ایک مقدمہ انسانی حقوق کی بنیاد پر ہار گیا تھا۔ پروفیسر یونس بنگلہ دیش کا گرامین بنک دنیا بھر میں چلا رہے ہیں انہیں 200ملین ڈالر کی امداد عالمی بنک نے پیش کی تھی انہوں نے مسترد کرتے ہوئے کہا ”ہم آپ کی ہدایت پر بنک نہیں چلا سکتے، آپ مشاورتی وفد بھیجتے ہیں وہ مقامی بیوروکریسی سے کمیشن پر ساز باز کرتا ہے، کانفرنسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ امداد کی افادیت پر این جی اوز کے ذریعے ورکشاپس کرائی جاتی ہیں اتنی تاخیر ہو جاتی ہے کہ امداد کا بڑا حصہ خرچ ہو جاتا ہے وہ بھی مقروض کو ادا کرنا پڑتا ہے“۔
بے شک کوئی پاگل بھی اتنا مخبوط الحواس نہیں ہوگا جو یہ فرض کر لے کہ آگ اور پانی ایک ہیں۔ بعض لوگ ہوس میں اتنے پاگل ہو جاتے ہیں کہ وہ جو صحیح ہے کی بجائے جو انہیں صحیح لگتا ہے اسے عادت بنا لیتے ہیں اور پاکستان نے قرضوں کے نشے کی عادت بنا لی ہے۔ اب کچھ تو سبق لیں اگر ملک تباہ ہوگا تو وہ بھی نہیں بچ پائیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ اور تمام سیاست دان عصر حاضر کے تقاضوں کو سمجھیں اور اپنی ناک سے آگے دیکھیں، اپنے رویّے بدلیں تاکہ پاکستان اپنے قدموں پر کھڑا ہو سکے ورنہ کوئی امید بر نہ آئے گی اور بے رحم سرمایہ دارانہ ہوس سبھی کو نگل جائے گی اس لئے تعمیر کی تخریب سے پاکستان کو بچائیے۔
تازہ ترین