برنلے (پ ر) جمعیۃ علماء برطانیہ لنکاشائر کے امیر اور کوین گیٹ اسلامک سینٹر کے ڈائریکٹر مولانا عزیز الحقؒ کے انتقال پر ان کے سینٹر کی مسجد مولانا عزیزالحق میں تعزیتی جلسہ کا انتظام جمعیۃ علماء برطانیہ اور کوئن گیٹ اسلامک سنٹر کے جمعیۃ علماء برطانیہ کے مرکزی امیر مفتی محمد اسلم کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں ملک بھر سے جمعیۃ کے رہنما شریک ہوئے اور اپنے خیالات کا اظہارکیا ۔ جمعیۃ علماء اسلام کے امیر قائد ملت اسلامیہ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ وہ بہت اچھے ساتھی تھے ۔ہم ایک اچھے دوست سے محروم ہوئے ہیں، حق تعالی مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا۔ اس موقع پر مولانا عزیز الحق کے بڑے صاحبزادے مولانا سعد کی دستار بندی بھی کروائی گئی۔ علماء نے مولانا سعد کو والد کے تمام منصوبوں کو مکمل کرنے میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ اس جذباتی پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عزیز الحق کے صاحبزادے مولانا سعد نے کہا کہ میرے والد نہ صرف ہمارے لئے رول ماڈل تھے بلکہ پورے شہر کے لئے وہ رول ماڈل تھے۔ ہر انسان نے دنیا سے جانا ہے مگر مجھےخوشی اس بات کی ہے کہ میرے والد ایمان کے ساتھ دنیا سے چلے گئے ۔ میں اپنے والد کے مشن کو آگے لے کر جاؤں گا۔ جمعیۃ علماء برطانیہ کے امیر مفتی محمد اسلم نے کہا کہ مولانا عزیز الحق باہمت انسان تھے ، بیماری کے باوجود اپنے چہرے پر اس کا اظہار نہیں کیا کہ وہ بیمار ہیں، شفیلڈسے تشریف لائے ہوئے مولاناقاری اسماعیل نے کہاکہ ان کا شکوہ بھی کھلا ہوتا تھا اور دل بھی بڑا اور صاف تھا، جب بات سمجھ آگئی تو معذرت قبول کرلی،بڑی محنت اور محبت سے اس قدر عظیم ادارہ بنایا ہے۔کروالے کے مولانا قاری عبدالرشید رحمانی نے کہا اللہ نے ان سے بہت کام لیا، بیماری کے باوجود شہر میں عظیم دینی درسگاہ بنائی، وہ ہر محفل کی رونق تھے۔ پاکستان سے تشریف لائے ہوئے جمعیۃ علماء اسلام کے رہنما مولانا شاہ عبد العزیز نے کہا کہ نیک لوگوں کا تذکرہ کرنا صدقہ ہے اور ان سے عقیدت اور تعلق کا اظہار گناہوں کا کفارہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ علماء کی بڑی شان اور حیثیت ہے،ان کی برائیوں کو نہ دیکھو اگر ان میں ایک برائی ہے تو99 اچھائیاں بھی ہوں گی۔ بولٹن کےمولانا اسعد میاں نے کہا کہ ہم دونوں نے ایک ساتھ دس سال تک تقریبا ایک مسجد میں امامت کے فرائض انجام دئیے ۔ اتفاق اور اتحاد سے رہے۔بڑی صلاحیتوں کے مالک تھے، بڑے اچھے استاد تھے۔راچڈیل کے حافظ محمداکرام نے کہا کہ جماعت کے سنجیدہ ساتھی تھے، اچھے اخلاق سے پیش آنے والے اور بڑے حوصلے والے انسان تھے، اللہ آخرت میں کرم والا معاملہ فرمائے۔اولڈھم کےمولانا قاری شمس الرحمن نے کہا کہ مولانا عزیز الحق کی رحلت کا غم ہم سب کا غم ہے ۔ وہ ہم سب کے لئے محترم اور قابل قدر تھے۔ویک فیلڈ کےمولانا اسلام علی شاہ نے کہا کہ وہ ایک بہادر انسان تھے کبھی بھی اپنی بیماری کو اپنے اوپر حاوی نہیں کیا۔ لندن کے امیر مفتی خالد محمود نے کہا کہ تاریخ اسلام میں جس قدر فتنے آئے تو ہر فتنے کا مقابلہ علماء کرام نےکیا ۔ عقائد اور دین کی حفاظت علماء نے اپنے جان اور مال سے کی ہے۔ مولانا عزیز الحق اسی جماعت کی لڑی میں سے تھے۔ لندن سے جمعیۃ کے نائب امیر مولانا قاری نیاز محمد نےکہا کہ مولانا عزیز الحق عام لوگوں کے ساتھ عام آدمی تھی اور جب علماء کے ساتھ ہوتے تو علماء کی طرز کی گفتگو کرتے ۔بہت ہی زیادہ محاسن سے اللہ نے نوازا تھا۔ غرباء ومساکین اور مدارس کی بہت مالی معاونت کرتے تھے۔ ہڈرز فیلڈ کے امیرمولانا نصیب الرحمن نے کہا کہ مولانا عزیز الحق کے دل میں دین کا درد تھا کہ ہر وقت یہی سوچتے کہ کسی طرح دین کا بول بالا ہو۔ہزلنگٹن کےمفتی محمد ادریس نے کہا کہ ایک عالم میں جو صفات ہونی چاہئیں وہ ساری صفات ان میں تھیں۔ مولانا ظل حسین نے کہا کہ ان کے خاتمے اور حسن خاتمے پر رشک پیدا آتا ہے ۔ وہ کلمہ پڑھتے پڑھتے دنیا سے چلے گئے۔ برنلے فاروق اعظم مسجد کے امام مولانا ساجدنے کہا کہ وہ میرے بہترین استاد تھے مولانا عبدالرشیدربانی نےکہا کہ وہ ایک عظیم انسان تھا، بہت محنتی اور جفاکش تھا،بڑی محنت سے برنلے شہر میں عظیم دینی درسگاہ بنائی۔ پاکستان سے علامہ راشد سومرو نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ انہوں نے برطانیہ میں بیٹھ کر پاکستان کے علماء کو اپنے دل میں جگہ دی ہوئی تھی، انتہائی شفیق اور بردبار انسان تھے ۔ والد کی شہادت پر ہمیں بہت حوصلہ دیا تھا۔ برمنگھم سے تشریف لائے ہوئے قاری عبد الوافی نے کہا کہ مولانا عزیز الحق ایک ممتاز حیثیت رکھتے تھے یہ گلشن انہوں نے بہت محنت سے بنایا ہے ۔ مقامی آبادی پر بہت محنت کی اور بچوں کے پڑھانے پر بہت محنت کرتے تھے، علماء انبیاء کے وارث ہوتے ہیں، مساجدومدارس ان سے ہی آباد ہیں۔ مولانا ابوبکر، مولانا زاہد الحسینی، مفتی طارق علی شاہ، مفتی محمد زکریا،مولانا عبدالکریم شاہ، مولانا بلال ،مولانا منیراحمد شاہ، قاری اسرار احمد، قاری ہاشم ، قاری حضرت علی، قاری عبیداللہ ڈاکٹر الیاس، قاری انعام کے علاوہ ایک کثیر تعداد میں مولانا کے شاگردوں اور چاہنے والے تعزیتی جلسہ میں شریک تھی۔