انتخابات کے بعد سندھ میں سیاسی جماعتیں قدرے خاموش ہیں اور موقع کی تاک میں ہیں کہ حکومت غلطی کرے اور اپوزیشن کی جماعتوں کو پوائنٹ اسکورنگ کا موقع ملے انتخابات میں شکست کے بعد جی ڈی اے، ایم ایم اے، مسلم لیگ(ن) نے چپ سادھ رکھی ہے تاہم ایم ایم اے میں شامل جماعت اسلامی قدرے فعال ہے قوم پرست جماعتیں ڈیم کے مسئلے پر سراپا احتجاج ہیں گزشتہ ہفتے سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سربراہ جلال محمودشاہ نے ڈیمز کی تعمیر سمیت افغانیوں اور بنگالیوں کو شہریت دینے کے حوالے سے حکومتی موقف کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا دوسری جانب ضمنی انتخاب کے سلسلے میں ایم کیو ایم، پی ایس پی، پی پی پی اور پی ٹی آئی شہر میں سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور ان کے قائدین اور امیدوار این اے 247-246 پی ایس 87 اور پی ایس 111 کا معرکہ سر کرنے کے لیے حلقوں میں عوامی رابطہ مہم جاری رکھے ہوئے ہیں تاہم گزشتہ ہفتے سندھ اسمبلی کااجلاس سیاسی افق پر چھایا رہا آئندہ نوماہ کے بجٹ پر بحث کے لیے طلب کردہ سندھ اسمبلی کااجلاس انتہائی ہنگامہ خیز رہا سندھ اسمبلی میں کئی ار کان نے متنازع تقاریر بھی کی جو لسانی کشیدگی کا بھی سبب بنی اجلاس جو کئی روز جاری رہا حکومت اور اپوزیشن نے ایک دوسرے پر الزام تراشیاں بھی کیں، کئی موقعوں پر ارکان کے شورشرابے کے سبب سندھ اسمبلی مچھلی بازار کا منظرپیش کرتی نظرآئی ایک موقع پر اجلاس کے دوران پیپلزپارٹی کے رہنما تیمورتالپور جوش خطابت میں ووٹ خریدنے کا اعتراف کربیٹھے انہوں نے کہاکہ سینیٹ الیکشن میں جس ممبر نے پیپلزپارٹی کو ووٹ بیچا وہ آج بھی ایوان میں بیٹھا ہے ان کے اس بیان پراپوزیشن نے ویڈیوالیکشن کمیشن کو دینے کااعلان کیا اپوزیشن ارکان نے چیف جسٹس سے تیمورتالپور کے اعترافی بیان پر نوٹس لینے کی درخواست کی۔فاضل رکن کے مبینہ اعترافی بیان پر الیکشن کمیشن نے انہیں نوٹس جاری کرتے ہوئے طلب کرلیا ہے ایک دوسرے موقع پر ایم کیو ایم اور پی پی پی کے درمیان اس وقت صورتحال کشیدہ ہوگئی جب ایم کیو ایم کے رکن سندھ اسمبلی محمدحسین نے کہاکہ کراچی والوں کے پیسوں پر پورا پاکستان پلتا ہے جس کے جواب میں پی پی پی کے رکن سندھ اسمبلی سہیل انورسیال نے کہاکہ اندرون سندھ والوں نے متحدہ والوں کوپالاہے ان کے اس بیان کی پی ٹی آئی ، ایم کیو ایم ،پی ایس پی سمیت دیگرجماعتوں کی جانب سے مذمت کی گئی اور اسمبلی کے فلور پر پی پی پی سے معافی کا مطالبہ کیا گیا متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ڈاکٹرفاروق ستار نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ اسمبلی کے فلور پر سہیل انورسیال نے اپنی تقریر میں بانیان پاکستان اور مہاجروں کی بے عزتی کی ہے، ہم زندہ لوگ ہیں، پیپلزپارٹی بتائے کہ ان کے رہنما کا بیان سہیل انورسیال کا ذاتی ہے یا پارٹی پالیسی، سہیل انورسیال کل شام تک اپنے بیان پر معافی مانگیں ورنہ ان کے خلاف پیر کو کراچی اور صوبے کے دیگر اضلاع میں احتجاج کریں گے، پیپلزپارٹی سندھ کی تقسیم کررہی ہے، اب ہمیں جنوبی صوبہ سندھ کی تحریک کاآغاز کرناہوگا۔
سید مراد علی شاہ نے کہا کہ اگر بے نظیر بھٹو کے ویژن پر کام ہوتا تو آج ملک میںتوانائی کی کمی نہ ہوتی رواں سال کے آخر تک تھر کے کوئلے سے بجلی پیدہونا شروع ہوجائے گی ،ہم نے وہ منصوبہ چنا جس سے پورے ملک کو فائدہ پہنچے گا،تھر کو 24 اسکول دیئے جس میں 5000 بچے پڑھتے ہیں۔تھر میں پیپلز پارٹی نے کام کیا ہے ، جسے نظرانداز نہ کیا جائے ۔ کراچی کے لوگ ہمارے ساتھ ہیں،تنقیدہوتی ہے تو ہوتی رہے ، کراچی میں مسائل ہیں انکو حل کررہے ہیں انہوں نے کہا کہ بچوں کے اغوا کے مسائل ہیں، 146کیسز ریکارڈ ہوئے ہیں، پولیس تحقیقات کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کر اچی دنیا کا سب سے بڑا چھٹا خطرناک شہر تھا۔ 2012میں کراچی میں 513 ٹارگیٹ کلنگ ہوتی تھیں آج زیرو ہے ۔تحریک انصاف کو سب سے زیادہ شکر گذار ہونا چاہیے آج الیکشن جیت کرآئے اس سے قبل پولنگ اسٹیشن میں جانا ناممکن تھا ۔انہوں نے کہا کہ اس وقت بدامنی کی لہر کے اسباب نگراں دور کے باعث بڑھے ہیں۔صوبے میںہم نے بیٹھ کر ایسے افسران لگائے جو امن پر کام کریں،آئی جی بیٹھے ہیں ان سے بھی مشاورت کرکے اچھے افسران لگارہے ہیں۔سید مراد علی شاہ نے کہا کہ لوگوں نے ہمیں ووٹ دیئے ہیں کیونکہ انکو امن چاہیے پیپلز پارٹی کوپہلے سے زیادہ ووٹ ملے ہیں، ہم کراچی کی ایک بچی امل کے واقعے کے بعد ریفارمز پر کام کررہے ہیں،صرف میٹنگ کرکے فوٹو نہیں نکال رہے بلکہ باقاعدہ کام کیا جارہا ہے۔کہاجارہا ہے کہ مذکورہ اجلاس میں نوزائیدہ اپوزیشن ارکان اسمبلی نے حکومتی بینچ کو ٹف ٹائم دیا ہے دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ کے اجلاس میںاسمبلی کا ماحول کیسا رہتاہے۔بہرحال سندھ حکومت کو اسٹریٹ کرائمز کے خاتمے کیلئے ہنگامی طور پر اقدامات کرانا ہونگے ۔