• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند برس پہلے، ایک سہ پہر تنویر اعوان چند تجاویز کے ساتھ بنی گالا آئے ۔ ہم عمران خان سے ملے۔ انہیں یہ تجاویز بہت پسند آئیں۔ واپسی پر تنویر اعوان نے مجھ پر یہ سوال داغ دیا کہ..... ’’آپ زندگی بھر بے شمار سیاستدانوں سے ملے۔ آپ کی سیاستدانوں سے دوستیاں ہیں۔ کسی ایک سیاستدان کانام لیں جو وضعداری، دیانتداری اور ملنساری میں سب سے آگے ہو۔ جس نے آپ کوبہت متاثرکیا ہو؟‘‘ میرے لئے یہ سوال بڑا اہم تھا کیونکہ میری دوستیاں تو بلوچستان میں بھی ہیں۔ خیبرپختونخوا، کشمیر اورگلگت بلتستان میں بھی، فاٹا، سندھ اورکراچی کے علاوہ پورے پنجاب میں دوستیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ میں نے سب کا جائزہ لیا اور پھر کہا ’’چوہدری شہباز حسین‘‘ میرے دوست نے کہا ’’دوبارہ سوچ لیں۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’میری کچھ دوستیاں دوسرے ملکوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں سے بھی ہیں۔ یورپ، امریکہ سمیت کئی ایشیائی ملکوں میں دوست سیاستدان ہیں۔ میں بہت سوچ سمجھ کر کہہ رہا ہوں۔ چوہدری شہباز حسین۔ ‘‘ دوست نے تیسری بارمسکراتے ہوئے پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ ’’آپ مسکرائیں ناں، میں نے خواتین کی لمبی چوڑی فہرست پر غور کیاہے۔ سچ یہی ہے کہ چوہدری شہباز حسین سے بہتر آدمی کوچۂ سیاست میں نہیں ملا۔ بہت وضعدار، دیانتدار، خوف ِ خدا رکھنے والا،لوگوں کی عزت کرنے والا اور بہت ملنسار آدمی، بھرم رکھنے والا۔ ایسے لوگ اب سیاست میں کہاں ملتے ہیں۔‘‘ میں نے تنویر اعوان کے مشکل ترین سوال کا جواب ایک ہی نام سے دیا۔ بس چوہدری شہباز حسین۔

چند برس پہلے کا قصہ آج مجھے اس لئے یاد آگیا کہ آج کل اسلام آباد کے ایوانوں میں چوہدری شہباز حسین کے بھانجے فواد چوہدری نے خاصی گرمی پیدا کر رکھی ہے۔ اس باصلاحیت نوجوان سے اپوزیشن کی جان جاتی ہے جب وہ ایوانوں میں ڈاکو اور چور کے لفظ پکارتا ہے تو رولا پڑ جاتا ہے، چیخ و پکار شروع ہوجاتی ہے، اپوزیشن کے اراکین رونا دھونا شروع کردیتے ہیں، کبھی اسپیکر قومی اسمبلی کو اجلاس کے بائیکاٹ کی دھمکیاں دیتے ہیں کبھی چیئرمین سینیٹ سے کہتے ہیں کہ اگر فواد چوہدری ایوان میں آگیا تو ہم چلے جائیں گے۔ اس سارے منظر کو دیکھ کر مجھے ’’مولاجٹ‘‘یاد آ جاتا ہے۔ جس طرح فلم مولاجٹ کے کھڑکی توڑ ہفتے کئی ماہ تک جاری رہے تھے اسی طرح جب اطلاعات کے وفاقی وزیر چوہدری فواد حسین کی ایوان میں انٹری ہوتی ہے تو کھڑکی توڑ والا کام شروع ہو جاتا ہے۔ یہ سلسلہ کئی روزسے جاری ہے۔ اپوزیشن کسی دوسرے حکومتی وزیر سےپریشان نہیں ہے۔ حزب ِ اختلاف کی صفوں میں صرف ایک ہی پریشانی ہے کہ کہیں سے فواد چوہدری نہ آ جائے۔ اپوزیشن کے بڑے بڑے چالباز، اس نوجوان سیاستدان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہیں۔ کبھی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔ قومی اسمبلی سے رونا دھونا سینیٹ میں آچکا ہے جہاں ہاہارکار مچی ہوئی ہے۔ جونہی فواد چوہدری کہتا ہے کہ ’’میں ڈاکو کو ڈاکو نہ کہوں تو کیا کہوں، چور کو چور نہ کہوں تو کیاکہوں؟‘‘ تو اسی دوران اپوزیشن ارکان رونا پیٹنا شروع کردیتے ہیں البتہ قوم ان کے اس ڈائیلاگ پربہت خوش ہوتی ہے کیونکہ پاکستانی قوم یہ سننا چاہتی ہے کہ ڈاکو کو ڈاکو کہا جائے، چور کو چور کہاجائے بلکہ ان چوروں ڈاکوئوں سے حساب بھی لیاجائے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ جب فواد چوہدری ڈاکو اور چور کا ذکرکرتے ہیں تو اپوزیشن کے لوگ کیوں شور ڈالنا شروع کردیتے ہیں۔ کہیں چور کی داڑھی میں تنکے والامعاملہ تو نہیں کیونکہ فواد چوہدری تو کسی کا نام بھی نہیں لیتے۔ وہ تو بس یہی کہتے ہیں کہ ’’یہ جو ڈاکو ہیں یہ جو چور ہیں۔‘‘ بس دو لفظ مخالف صف کے جرنیلوں کو بکری بنا دیتے ہیں۔ انہی دو لفظوں سے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔

مولا جٹ کی کامیاب نمائش کے دوران تاش والی پارٹی بھی سامنے آگئی ہے۔ انہوں نے پہلا پتا رانا مشہود کی صورت میں پھینکا تھا مگر چال الٹی پڑگئی۔ اس الٹی چال نے ستیاناس کو ستیاناس پلس بنا دیا۔ تاش کے بکھرے ہوئے پتوں کو سنبھالنا مشکل ہوا تو بلی تھیلے سے باہر آگئی۔ بلی کی برآمدگی کے بعد اب ن لیگ اور پیپلزپارٹی ضمنی الیکشن مشترکہ طورپرلڑیں گی۔ بہت عرصہ سے دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کی ساتھی بنی ہوئی ہیں۔ دس سال سے دونوں پارٹیوں نے عوام کو چکر دے رکھاہےاو ر ایک دوسرے کی اپوزیشن کا کردار بھی نبھا تے ہوئے ایک دوسرے کی کرپشن پر پردہ ڈالا ہوا ہے۔ حالیہ ملکی معاشی حالت دونوں پارٹیوں کی لوٹ مار کی گواہی دے رہی ہے اسی لئے تو اب بھی یہ ضد کی جارہی ہے کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی (PAC) کا چیئرمین شہباز شریف کو بنایا جائے ۔ یہ ضد اس لئے کی جارہی ہے کہ کرپشن کے سارے کھاتوں پر مٹی ڈال دی جائے۔ چونکہ یہ ضد دونوں پارٹیاں کررہی ہیں اس لئے ارادہ یہی ہے کہ ایک دوسرے کی کرپشن کا نام و نشان مٹا کر PAC سے سرخرو ہو کر نکلا جائے۔ مبارک ہو خواجہ سعد رفیق کو باپ کے قاتلوں کے ووٹ بھی مل جائیں گے۔ مشہودی پتا بھی ووٹ حاصل کرنے کی ایک چال تھا۔ پہلی چال ناکام ہونے پر دوسری چال سامنے آگئی ہے اگر یہ دوسری چال بھی ناکام ہوگئی تو کیا کیا جائےگا۔ خواجہ سعد رفیق کو دوسری چال کی ناکامی کاادراک ہونا چاہئے۔ ان کے مقابلے میں ہمایوںاختر خان الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ہمایوں اختر خان نے اسی حلقے سے پیپلزپارٹی کے چوہدری اعتزاز احسن کو شکست دی تھی۔ مسلم لیگ ن نے ایک الیکشن میں مرحوم اکرم ذکی کو میدان میںاتارا تھا مگر اکرم ذکی بھی ہمایوں اختر خان سےہار گئے تھے۔ دراصل ہمایوں اختر خان الیکشن لڑنے کی سائنس بخوبی جانتے ہیں۔ 14اکتوبر کےضمنی الیکشن میں ن لیگ کوشکست نظر آرہی ہے۔ اس شکست سے بچنے کے لئے ن لیگ کے رہنما 100تدبیریں کررہےہیں مگر حالات موافق نہیں ہیں۔ تدبیریں الٹی ہوتی جارہی ہیں۔ مسلم لیگ ن کو یادرکھنا چاہئے کہ 14اکتوبر سے پہلے 12اکتوبر بھی آتا ہے۔ بقول ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ؎

شہر شب فراق کے گہرے سکوت میں

اپنی صدا مجھے بھی کبھی تو سنائی دے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین