پاکستان تحریکِ انصاف کے امیداوار برائے قومی اسمبلی حلقہ این اے247 آفتاب صدیقی اور صوبائی اسمبلی حلقہ پی ایس 111کے امیدوار شہزاد قریشی کی جانب سے آج کراچی کے ساحلِ سمندر کی صفائی اور خون عطیہ کرنے کی مہم کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ مہم کا نقطۂ آغاز ساحل سمندر پر واقع ویلیج ریسٹورنٹ کا مقام ہوگا۔ آفتاب صدیقی نے اس مہم میں شرکت کے لیے شہرکراچی اور اس کے ساحل سے پیار کرنے والے شہریوں، پی ٹی آئی کارکنان اور اپنے حلقہ کے ووٹروں کو اس مہم میں خصوصی طور پر شرکت کے لیے سہ پہر 3:00بجے مجوزہ مقام پر پہنچنے کی دعوت دی ہے۔
اسلام میں جن چیزوں کو ایمان کا لازمی جزو قرار دیا گیا ہے، ان میں صفائی ایک اہم جزو ہے بلکہ اسے نصف ایمان قرار دیاگیا ہے۔ اب ذرا اسی تناظر میں اپنا جائزہ لیجئے کہ ہم اپنے ارد گرد صفائی کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ ہمارے شہر خصوصاً کراچی، ہمارے ایمان کے اس اہم جزو کی کمزوری کی بہت بڑی دلیل ہیں۔ پاکستان کے شہروں میں، شہرِ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر اور معاشی شہ رگ ہے۔ تاہم افسوسناک بات ہے کہ اس شہر میں جگہ جگہ کچرے اور گندگی کے ڈھیر نظرآتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے، ہر آئے دن اس حوالے سے بڑے بڑے بیانات ضرور میڈیا کی زینت بنتے ہیں، لیکن حقیقتاً اور عملاً اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا جارہا۔ شہری حکومت اس کا ملبہ صوبائی حکومت پر ڈالتی نظر آتی ہے تو صوبائی حکومت ان کونااہل قرار دیتی ہے۔ اس صورتحال میں نقصان صرف اور صرف کراچی اور اس کے شہریوں کا ہورہا ہے۔ کراچی شہر کا ہر علاقہ چاہے وہ رہائشی ہو یا تجارتی، صنعتی ہو یا تفریحی، جابجا گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ کراچی کے ساحلِ سمندر پر چلے جائیں تو وہاں بھی صفائی ستھرائی کی ابتر صورت حال نظر آتی ہے۔ کراچی کے ساحلِ سمندر پر ہر جگہ گندگی کے ڈھیر ہیں جبکہ اکثر مقامات پر پانی میں سیوریج کی بدبو کو بھی محسو س کیا جاسکتا ہے۔ ساحلِ سمندر کو آلودہ کرنے میں جہاں ساحل پر تفریح کے لیے آنے والے لوگ حصہ ڈالتے ہیں، وہاں بڑا حصہ حکومتی اور ساحل کی صفائی کے ذمہ داری سرکاری اداروں کا ہے، جو اپنی ذمہ داریوں سے چشم پوشی اور لاپرواہی برتتے ہیں۔ کراچی کے ساحل پر جابجا کچرے کے ڈھیر نظر آنے کی ایک وجہ لینڈ مافیا بھی ہے، وہ شہر میں جمع ہونے والے کچرے کا کچھ حصہ یہاں پھینک دیتے ہیں، تاکہ جب سمندر پیچھے چلا جائے تو اس زمین پر قبضہ کیا جاسکے۔
سمندر پر گندگی اوراس کے پانی کے آلودہ ہونے کی ایک اور بڑی وجہ شہر کی صنعتوں سے نکلنے والا کیمیکل ملا، گندہ اورآلودہ سیوریج کا پانی ہے، جو صاف کیے بغیر انتہائی بے دردی کے ساتھ سمندر کے حوالے کردیا جاتا ہے۔
خود حکومتی تخمینہ کے مطابق، کراچی تقریباً پانچ سو ملین گیلن روزانہ کے حساب سے گندا پانی پیدا کرتا ہے۔ تقریباً پانچواں حصہ صنعتوں سے جب کہ باقی گھریلو یا بلدیاتی نکاس سے آتا ہے۔ سیوریج کا یہ تمام کا تمام آلودہ پانی، روزانہ کی بنیادپر باقاعدگی سے سمندر میں جارہا ہے، جس سے سمندری حیات بُری طرح متاثر ہورہی ہیں۔
آفتاب صدیقی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت، جہاں شہر کی صفائی ستھرائی کے مسئلے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے، وہاں ساحلِ سمندر کی صفائی اور سمندری پانی کی آلودگی کے مسئلے پر بھی کام کررہی ہے۔ ’نہ تو سندھ کی صوبائی حکومت پی ٹی آئی کے پاس ہے اور نہ ہی کراچی کی بلدیاتی حکومت ہماری ہے۔ ایسے میں عوامی مسائل حل کرنے کے لیے ہم خود اپنے وسائل سے جو کچھ کرسکتےہیں، کررہے ہیں۔ جس میں اپنے حلقے کے مختلف علاقوں کی صفائی سے لے کر وہاں پینے کے صاف پانی کی فراہمی شامل ہے اور اب ہماری توجہ ساحلِ سمندر کی صفائی پر ہے‘۔ آفتاب صدیقی کہتے ہیں کہ ان کی جماعت کراچی کے مسائل کے حل کے لیے مختصر مدت سے لے کر طویل مدتی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ آفتاب صدیقی کا کہنا ہے،’میں اور میری ٹیم جو عوامی خدمت کررہے ہیں، یہ مختصر مدت کے لیے عوامی مسائل کم کرنے کا باعث بنے گی، تاہم یہ مستقل حل نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے سندھ حکومت کو ہدایت کی ہے کہ 2ماہ میں شہر کی صفائی کا مستقل حل پیش کریں، ورنہ پھر وفاقی حکومت خود یہ کام کرے گی‘۔ آفتاب صدیقی نے مزید بتایا، ’ سمندر کی صفائی کا طویل مدتی حل ہم یہ نکال رہے ہیں کہ ہم نے اپنی وفاقی حکومت کو تجویز دی ہے کہ کورنگی کے صنعتی علاقے میں 20کروڑ گیلن یومیہ کا ری سائیکلنگ پلانٹ لگایا جائے۔ وزیراعظم نے اصولی طور پر اس منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔ اس سے دو فائدے ہونگے۔ ایک تو وہاں کی صنعتوں سے نکلنے والا گندہ پانی سمندر میں نہیں آئے گا، جس سے سمندر کا ماحول بہتر ہوگا جبکہ دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ صنعتوں کو پانی کی فراہمی میں20کروڑ گیلن یومیہ کی بچت ہوگی اور یہ اضافی پانی کراچی کے شہریوںکو دستیاب ہوسکے گا‘۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ 10سال کے دوران صوبائی اور شہری حکومت نےسیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی۔
کراچی میں کوڑے کرکٹ کے لیے جگہیں متعین نہیں ہیں، اس وجہ سے کوڑا کرکٹ یا ٹھوس فضلہ، جس میں پلاسٹک بھی شامل ہوتا ہے، سمندر میں براہِ راست یا پھر بارشی نالوں میں پھینک دیا جاتا ہے، جومون سون کے سیلاب کے بعد بالآخر سمندر میں جا گرتا ہے۔تحفظ ماحولیات کے صوبائی ادارے سندھ انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) کے اعدادوشمار کے مطابق بہت سا فضلہ مویشیوں کی بہت بڑی مقامی کالونی سے بھی آتا ہے، جس میں دس لاکھ کے قریب جانور ہیں، ان میں گائے اور بھینسیں شامل ہیں۔ یہاں پیدا ہونے والا فضلہ بھی سمندر ہی میں ڈالا جاتا ہے۔
ماہرین کو بڑھتی ہوئی سمندری آلودگی پر تشویش لاحق ہے۔ ان کے مطابق، سمندری آلودگی نے مچھلی کے شکار اوردیگر سمندری حیات کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ مقامی افراد کو بعض اوقات سبز کچھوے اورفیل ماہی (سمندری میمل) جیسے جاندار مردہ حالت میں ساحل پر ملتے ہیں، جن کی نسلیں معدوم ہورہی ہیں۔ ان سمندری حیات کی موت آلودگی کے باعث ہوتی ہے، خاص طور پر پلاسٹک کا فضلہ سمندر میں پھینکے جانے سے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صنعتی فضلے کے سمندر میں گرنے سے مچھلیوں کی بہت سی اقسام اب بحیرہ عرب میں نایاب ہو چکی ہیں۔
آفتاب صدیقی، شہزاد قریشی اور ان کی ٹیم کی جانب سے کراچی کے ساحلِ سمندر پر صفائی مہم، چیئرمین پی ٹی آئی اور وزیراعظم پاکستان عمران خان کے ویژن کے عین مطابق ہے۔ وزیراعظم عمران خان بھی آج ہی کے دن، ملک بھر میں Pakistan Cleanliness Movement کا افتتاح کررہے ہیں، جس کا مقصد ملک کو صاف ستھرا اور سرسبزوشاداب بنانا ہے۔ اس مہم کے ذریعے عوام کو بھی صفائی ستھرائی میں اپنا کردار ادا کرنے سے متعلق آگاہی دی جائے گی۔ آفتاب صدیقی نے بتایا، ’وزیراعظم عمران خان کا ویژن پاکستان کو سرسبز و شاداب اور صاف ستھرا بنانا ہے۔ بون چیلنج (Bonn Challenge)کو قبول کرتے ہوئے، عمران خان نے پانچ سال میں صوبہ خیبرپختونخوا میں ایک ارب درخت لگائے تھے، جسے ورلڈ اکنامک فورم سمیت کئی بین الاقوامی اداروں نے سراہا۔ اب عمران خان اس کامیابی کو پورے پاکستان میں پھیلانا چاہتے ہیں‘۔
کراچی کے ساحلِ سمندر کی صفائی کے ساتھ ہی خون عطیہ کرنے کی مہم بھی جاری رہے گی، جس کا مقصد خون کی کمی کاشکار انسانی جانوں کا تحفظ ہے۔