• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی احتساب بیورو لاہور کی جانب سے جمعہ کی سہ پہر صدر پاکستان مسلم لیگ (ن )، قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی گرفتاری کی خبر پورے ملک میں بالعموم حیرت کے ساتھ سنی گئی کیونکہ ملک کے متعدد قومی و صوبائی حلقوں میں محض ایک ہفتے بعد ضمنی الیکشن ہونے والے ہیں اور ان کے انعقاد سے عین پہلے اپوزیشن لیڈر کی گرفتاری پریہ تاثر فطری ہے کہ یہ قدم انتخابی عمل پر اثرا نداز ہونے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔تاہم حکومت کا موقف ہے کہ ساری کارروائی قانون کے مطابق ہورہی ہے، نیب آزاد ادارہ ہے جو اپنے طور پر احتسابی عمل کو آگے بڑھا رہا ہے اور اس کے پیچھے کوئی بدنیتی کارفرما نہیں۔ہفتے کی صبح نیب حکام نے شہباز شریف کو احتساب عدالت میں پیش کرکے تفتیش کے لیے پندرہ روزہ جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی اور عدالت نے فریقین کا موقف سننے کے بعد دس روزہ جسمانی ریمانڈ کی منظوری دے دی۔ یعنی دس روز بعد اگر وہ رہا ہوبھی گئے تو ضمنی الیکشن ہوچکے ہوں گے۔اپوزیشن کی جانب سے اس معاملے کو انتخابی عمل کو متاثر کرنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی سے ایوان کا اجلاس جلد ازجلد بلانے کی ریکویزیشن بھی ہفتے کو جمع کرادی گئی ہے ۔میاں شہباز شریف صاف پانی اسکینڈل میں طلبی پر جمعہ کواپنا بیان ریکارڈ کرانے نیب کے دفتر گئے تھے جہاں ان کی گرفتاری آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم نامی کیس میں عمل میں لائی گئی۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے شہبازشریف کی گرفتاری کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے قوم کو نوید سنائی ہے کہ یہ تو آغازہے، ابھی مزید بڑی گرفتاریاں ہونے والی ہیں۔ ان کے مطابق جن ڈاکوؤں اور چوروں نے پاکستان کو لوٹا ہے ان کا احتساب ہونا چاہئے۔تجزیہ کاروں نے یہ برمحل سوال اٹھایا ہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات نیب کی جانب سے بڑے پیمانے پر مزید گرفتاریوں کی خبر کس بنیاد پر دے رہے ہیں، کیا یہ آزاد و خودمختار ادارہ حکومت کو اپنے آئندہ اقدامات سے پیشگی مطلع کرتا یا اس کی اجازت لیتا ہے؟احتساب عدالت میں شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ کے لیے نیب کاموقف تھا کہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنے منصب کے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے آشیانہ اسکیم کا ٹھیکہ لطیف اینڈ سنز سے واپس لے کر کاسا ڈیولپرز کو دیااور اس غیرقانونی اقدام سے قومی خزانے کو کروڑوں کا نقصان ہوا۔شہباز شریف نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کے اقدامات قومی خزانے کو مختلف منصوبوں میں اربوں روپے کی بچت ہوئی ہے تاہم عدالت نے نیب کی جانب سے ان کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست منظور کرلی۔ شہباز شریف کے خلاف نیب کی چارج شیٹ صحیح ہے یا غلط، اس کا فیصلہ عدالت کو کرنا ہے۔ نظام انصاف کا یہ ایک مسلمہ اور عالمگیر اصول ہے کہ جب تک کسی ملزم پر جرم ثابت نہ ہوجائے اس وقت تک اسے بے قصور تصور کیا جانا چاہیے۔ لہٰذا محض الزامات کی بنیاد پر سیاسی مخالفین کے خلاف چور ڈاکو ہونے کے پروپیگنڈے کی جو روایت ہمارے معاشرے میں عام ہے اور جس میں حکومت اور اپوزیشن سمیت کم و بیش تمام ہی سیاسی ، صحافتی اور عوامی حلقے شریک ہیں، اسے ختم ہونا چاہیے۔ محض الزامات کی بنیاد پر سیاسی مخالفین کے خلاف جارحانہ بیان بازیاں ملک میں انتشار، تفریق اور تقسیم کومسلسل بڑھارہی ہیں، سوشل اور روایتی میڈیا دونوں ہی اس معاملے میں تباہ کن کردار ادا کررہے ہیں، جبکہ ملک کو داخلی اور بیرونی محاذوں پر درپیش سنگین چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے قومی یکجہتی اور استحکام ہماری اولین ضرورت ہے اور اس کے لیے لازم ہے کہ احتسابی عمل کا دائرہ صرف اپوزیشن یا سیاستدانوں تک محدود رکھنے کے بجائے بلا امتیاز تمام ریاستی اداروں اور تمام شعبہ ہائے زندگی تک وسیع کیا جائے اور کسی کی بھی جانب سے اسے سیاسی یا جماعتی مفادات کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ بہتر ہوگا کہ جرم ثابت ہونے سے پہلے مجرم ہونے کے پروپیگنڈے کو بجائے خود قابل سزا جرم قرار دینے کے لیے پارلیمنٹ میں قانون سازی کی جائے تاکہ معاشرے کو سیاسی مفادات کی خاطر نفرت ، تشدد اور انتقام کے جذبات کا اکھاڑہ بننے سے بچانے کا مستقل بندوبست ہوسکے۔

تازہ ترین