• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:حافظ عبدالاعلیٰ درانی…بریڈفورڈ
(اٹھائیسویں قسط)
قارئین کرام پچھلی اقساط میں مسجد اقصی … قبلہ اول کے بارے میں تاریخ کے گمشدہ اوراق میں سے کچھ حقائق بڑی عرق ریزی سے جمع کرتاچلا آیا ہوں ۔پورے سال میں تقریباً تیس اقساط ترتیب دے پایا ہوں ۔بعض دفعہ ایک قسط کو ترتیب دینے اورقابل اشاعت بنانے میں پورا مہینہ بھی صرف ہوا ۔ تحقیقی مواد کافی بوجھل بن جاتاہے اگرچہ میں نے خیال رکھا کہ ادبی چاشنی سے اس میں حلاوت بھردوں پھر بھی کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ کئی جگہ کافی غمزدہ کیفیات ترتیب دی گئی ہیں اور کچھ اقساط سے تو’’اپنی نیند اڑ گئی تیرے فسانے سے‘‘کے مصداق بہت دل کیلئے بوجھل ہوگئی تھیں لیکن آج ہم ہلکے پھلکے انداز میں تاریخی حوالے اور مطالعے کے بغیر بات کریں گے ۔یہ ڈائری ہے 16جولائی2017 اتوار کے دن کی ۔اس دن ہم نے مسجد عمرفاروق میں نمازظہر ادا کی تھی نمازظہر کے بعد کچھ دیر مسجد عمرمیں ٹھہرے رہے اور سلطان صلاح الدین ایوبی کی تصویرمنظر عام پر لائے تھے ۔ اب یہ کارروائی اس کے بعد کی ہے ۔مسجد عمر کی زیارت کے بعد ہمارا اگلا پروگرام مسجد اقصی میں نمازادا کرنا تھا جو پچھلے دو دن سے مکمل طور پر اسرائیلی فورسز نے زائرین کیلئے بند کی ہوئی تھی اور مغرب کے بعد یہاں ایک فلسطینی ابو محمد کے ہاں دعوت پہ جانا ہے۔ عموما ً باب حطہ کی جانب سے ہم داخل ہوا کرتے تھے ۔ ہم نے اس سے پہلے کئی دروازوں سے داخل ہونے کی کوشش جاری تھی اولڈ سٹی کے ایک بازر میں مسجد عثمان بن عفان نظر آئی لیکن کوئی زیادہ تفصیل پوچھنے کا وقت نہ تھا۔دھیرے دھیرے مسجد اقصی میں داخلے کی کوشش کی لیکن اسرائیلی فوجیوں نے ہر جگہ سنگینیں تان رکھی تھیں۔ مسجد اقصیٰ کو جانے والے تمام راستوں پر ناکے لگے ہوئے تھے ۔ زائرین کواسرائیلی فورسز دور ہی سے چلتا کردیتی تھی ۔چلتے چلتے ہم باب السلسلہ تک پہنچے جہاں سے کچھ لوگوں کو اجازت دے دی جاتی تھی ۔لیکن جب ہم پہنچے تو سب کیلئے مسلسل انکار ہورہاتھا ۔ مسجد اقصیٰ بند ہونے کی وجہ سے وہاں اذان ہوئی نہ جماعت ۔ اور ایسا تقریباً 59سال بعد ممکن ہوا ۔کہ مسجد اقصی میں جمعہ بھی ادا نہیں ہوسکا اور نہ ہی کوئی اذان نہ نماز ۔لیکن حسب دستورجب آپ ایک سیدھے راستے کو بند کردیں گے تو لوگ اس کا متبادل نکال لیں گے ۔اور نہیں تو افواہوں کوپھیلنے سے کوئی نہیں رو ک سکتا ۔اذان اور وہاں نماز کے ضمن میں کئی قسم کی باتیں پھیلی ہوئی تھیں کہ ہر نماز کے وقت مسجدکے اندر سے اذان کی آواز سنائی دیتی تھی ۔کسی بندہ بشر کو مسجد میں جانے کی اجازت نہ تھی تو یہ اذان کون دیتا تھا…اس سوال کے جواب میںآپ کو معلوم ہے کتنے جوابات سنائی دیتے ہیں ۔ خوش اعتقادی کے سوا جن کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی ۔مسلمان بہت ہی خوش اعتقاد بن جاتاہے ۔میں نے ایک فلسطینی عالم دین نوجوان الہاشمی ہوٹل کے مالک سے اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے مسکراکرکہا میں کسی نہ کسی طرح مسجد پہنچ جایا کرتاتھا اور باہر چبوترے پر کھڑا ہوکر اذان کہا کرتاتھا ۔شاید لوگوں نے میری آواز کو کسی باہر والی چیز کی آواز سمجھ لیاہو میں اکیلا اذان کہتااوراکیلا ہی جماعت کرالیا کرتاتھا یہ بڑے بہادر شخص تھے ۔ جب ہر طرف سے سیکیورٹی کا پہرہ ہو اور ایک آدمی کسی نہ کسی طریقے سے مسجد میں داخل ہوکر چبوترے پر کھڑے ہوکر اذان کہے تو کسی طرف سے گولی آسکتی ہے لیکن یہ مسلمان کیلئے اعزازکی بات ہے کہ دوران اذان اس کی شہادت ہوجائے ۔خیر ہم نے بھی باب السلسلہ کے باہر دھرنا دے دیا بہت بڑی گیدرنگ ہوگئی ۔ اسرائیلی فورسز نے جب اتنا بڑا ہجوم دیکھا تو صرف بیرونی زائرین کواندرجانے کی اجازت دینی شروع کردی ہمارا پاسپورٹ دیکھ کر گارڈ بولا کیا تم انڈین ہو؟ میں نے کہا نہیں پاکستانی۔ تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ …پاکستانی …یہاں تو کسی پاکستانی کاآنا ناممکن ہے چند باتوں کاتبادلہ ہوا اور ہمارے گروپ کو ایک ایک کرکے داخل ہونے کی اجازت مل گئی مسجد کے گیٹ پر ڈیٹیکٹر نصب کردیاجاچکا تھا۔پچھلے دودن سے مسجد کو تمام زائرین کیلئے بند کرکے اسرائیلی فورسزنے یہی کام کیاتھا۔اس وقت اسرائیلی فورسز لا تعلق سے نظر آئی ۔ہم نے غنیمت جانتے ہوئے اس کو جلدی جلدی عبور کرنے کاپروگرام بنا رکھا تھا میں نے ساتھیوں کو فٹا فٹ اس روکاوٹ کو عبور کرنے کا ٹاسک دیا تھا لیکن کچھ لوگوں تک ہمارایہ پلان نہیں پہنچا تھا۔ اتنے میںعصرکی جماعت کھڑی ہوگئی ۔ہمارے شریک سفر گلزار مودی مسجد اقصی کے بڑے دروازے ( باب السلسلہ) کے باہر ہی نماز عصرکی جماعت میں شامل ہوگئے اب اگر انہیں باہر چھوڑ جاتے تو خطرہ تھا کہ شاید اسرائلی فورسز دوبارہ انہیں اندر جانے سے روک لے گی یوں ایک نیا مسئلہ کھڑا ہوسکتاتھا ۔اب ان ساتھیوں کیلئے مجھے انتظار کرنا پڑا ۔اگرمیں بھی نماز میں شامل ہوجاؤں تو پورا قافلہ تتربتر ہوجاتا لیکن ادھر جماعت ہورہی ہو اورآدمی یونہی منہ اٹھائے کھڑا رہے اچھا نہیں لگتا اس لیے میں نے جو ساتھی نماز میں شامل نہ تھے انہیں باب السلسلہ عبور کرنے کاکہااورخود دوسری صف میں جماعت میں شامل ہوگیا ۔۔آخری رکعت میں رکوع کے بعد قنوت نازلہ پڑھی گئی۔نماز کے بعد مسجد میں داخل ہوگئے ۔مسجد کی فضا بڑی سوگوار تھی ۔ تمام مسجد خالی خالی تھی ۔یوں تین دن بعد بیت المقدس میں داخلے کا شرف حاصل ہوسکا بادیدہ تر اس کے درودیوار کو دیکھا جہاں پرسوں فائرنگ کرکے تین نوجوانوں کو صحمن مسجد میں گولی ماردی تھی ۔ حسن اتفاق دیکھئے کہ جب ہم بیت اللحم سے واپس آرہے تھے ان کے اقارب نے المخیم الدھشہ میں تعزیتی کیمپ لگارکھے تھے ۔
امام مسجد قبۃ الصخراء الشیخ علی العباسی نے بتایا کہ آج ظہر میں پہلی دفعہ اذان بلند ہوسکی ہے ۔ساری فضا کو دہشت زدہ بنا دیا گیاتھا۔ نمازعصر کے بعد تک باہر سے تکبیریں بلند ہورہی تھیں کیونکہ ازرائیلی فوجی کسی کو نماز کے وقت بھی اندر نہیں آنے دے رہے تھے خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں پھر تصادم نہ ہوجائے اور ہم کہیں اندر ہی نہ محصور ہوجائیں ۔ نماز مغرب میں ابھی کافی ٹائم باقی تھا۔ مغرب کے بعد ابو محمد کے ہاں کھانا تھا توکل علی اللہ پروگرام بنا لیا کہ مغرب و عشاء یہیں مسجد اقصی ہی میں ادا کرکے باہر جائیں گے ۔ بزدلی کیوں دکھائیں ۔ اللہ کے پاک گھر ہی میں ہیں ۔اگر کچھ ہوتا ہے تو زہے نصیب ۔ میں نے سب رفقاء کو اس فیصلے سے آگاہ کردیا کہ عشاء تک بیت المقدس میں ہی رہیں گے ۔پھر پتہ نہیں اس ارض مقدس میں آنا نصیب ہوتا ہے یا نہیں ۔ سب تلاوت میں مشغول ہوگئے ، یوں کافی وقت مسلسل بیت المقدس میں گزارنے کی سعادت نصیب ہوگئی ۔ وضو بنانے کیلئے صرف باب حطہ والا ٹوائلٹ کھلا ہے جو کافی دور ہے ۔ قبۃ الصخراء کو عبور کرنا پڑتا ہے ۔اورازرائیلی فوجی باب حطہ کو گھیرے ہوئے ہیں ۔تو کل علی اللہ میں اور بیرسٹر آفتاب وضو بنانے کیلئے نکل کھڑے ہوئے ۔ قبۃ الصخراء عبور کرکے ہمیں سیڑھیاں اترتے ہوئے ازرائیلی فوجیوں نے دیکھ لیا تو ہمیں دور ہی سے واپس جانے کا اشارہ کیا انہیں بے حد خوف تھا کہ یہ دو آدمی کیوں آگے بڑھتے چلے آرہے ہیں ؟ ہم نے ٹوائلٹ کی طرف اشارہ کردیا تو وہ چپ ہوگئے ۔ ہم نے وضو بنایا اور واپسی پر قبۃ الصخراء کے میدان میں واقع محراب اور غاروں کے کتبے پڑھنے لگ گئے بڑی تاریخی اور معلوماتی چیزیں وہاں لکھی ہوئی تھیں۔ پھر ہم مسجد میں آگئے ۔ کچھ دیر بعد مسجد اقصی میں سورج غروب ہونے کا نظارہ کیااور اس حسین منظر کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلیا۔نمازمغرب ادا کرکے امام یوسف سے ملے وہ ہم سب کو دیکھ کر حیران رہ گئے اورکہا کہ آپ کو ایسی جرات کرنے سے پرہیز ہی کرنا چاہیئے تھا ۔ جب تک معاملہ کلئیر نہیں ہوجاتا آپ کو ہوٹل ہی میں رہنا چاہیئے ۔ اللہ آپ کی حفاظت فرمائے ۔ہم نے پوچھا کوئی اندازہ ہے کہ مسجد کب کھول دی جائیگی ۔ انہوں نے کہا ابھی تو یہ لوگ دروازوں پر ڈیٹیکٹر نصب کررہے ہیں جس پریہاں کے نوجوان سخت مشتعل ہیں ۔پتہ نہیں کیا نتیجہ نکلتاہے ۔نمازعشاء کے بعد ہمیں قریبی گیٹ سے باہر نکلنے دیا گیا ۔ دیوار گریہ کے متصل سٹریٹ میں ابو محمد ہمارے منتظر تھے۔
تازہ ترین