وسط ایشیائی مملکتوں میں ازبکستان سے پاکستان کے سفارت کارانہ اور دیرینہ کاروباری،ملی و دینی تعلقات ہیں۔ سمرقند،بخارا،تاشقندمیں علما ئےدین،اولیائے کرام اوربادشاہوں کے خوبصورت و دیدہ زیب مزارات کے باعث پاکستانیوں کے لیے یہ عقیدت و محبت کی سرزمین ہے۔ ازبکستان کے جدید طر زتعمیر کو آپ ماضی کی چالیس صدیوں سے زائدعرصے کےمحفوظ عالیشان تعمیراتی ورثے سے الگ نہیں کرسکتے،اس لیے ازبکستان کی جدید تعمیرات کی نوعیت جاننے کے لیے آپ کو لازماً اس مملکت کے تین عظیم شہروںسمر قند، بخارا اور تاشقند کے تاریخی ثقافتی تعمیراتی ورثے کو دیکھنا ہوگا۔
فن تعمیرات کی روایات
ازبکستان کا آرکیٹیکچر مختلف فن تعمیرات کی روایات جیسے اسلامی فن تعمیر، فارسی فن تعمیر، اور روسی فن تعمیر کے زیرِ اثر ہے۔ تیموری فن تعمیر ازبکستان میں اسلامی آرٹ کانمائندہ ہے۔سمرقند اور ہرات میں تیمور اورتیموری فن تعمیرکے حامیوں کی جانب سے بنائے جانے والی شاندار حویلیاں ہیں۔ تیموری فن تعمیر کی ابتدا موجودہ قازقستان میں احمد یساوی کے حرم کے ساتھ شروع ہوئی اور سمرقند میں تیمور مقبرے کی تعمیر سے اوجِ کمال کو پہنچا۔
سمرقند
تیمور اعظم نے فارس فتح کیا، بغداد کوزیر کیا، اناطولیا اور بھارت کی سرزمین کو زیرِ نگیں کیا۔سمرقند میں سب سے زیادہ فن تعمیر کے شاہکار تیمور اور ان کے پوتے الغ بیگ نے تعمیر کروائے۔ اس عرصے کا سب سے زیادہ متاثر کن تعمیراتی میٹ ڈیزائن، سمرقند میں پایا جاتا ہے۔ مختلف شکلوں کے دوہرے گنبد اور ان پر خوبصورت کاشی کے رنگ رونق کو دوبالا کردیتے ہیں۔تیمور نے اپنے دارالحکومت کوسیکولر اور مذہبی یادگاروں اور باغات سے بھر دیا تھا، جس میں پتھر کی دیواریں ،سنگِ مرمر کا فرش اور ان پر ست رنگی سونے اور ریشم کی خطاطی نما بیل بوٹوں کے دل آویز نقوش نمایاں ہیں۔ بدقسمتی سے آج یہ ڈھانچے زیادہ تر کھنڈروں کی حالت میں ہیں، جنہیں گزشتہ دو صدیوں میں جنگوں اور زلزلوں نے کافی نقصان پہنچایا۔ اس شہر میں اس وقت تیموری طرز تعمیر پر مبنی رصد گاہ اور مدرسہ ہے،جسے الغ بیگ نے1428ء میں تعمیر کروایا۔ آرکیٹیکچرل آرٹ کے زیادہ تر ماہرین نے انہیں فن تعمیر کا ایک بہت اچھا کام مانتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ یہ تعمیراتی پیچیدگی وعکاسی میںمنفرد ہیں۔
بخارا
سمرقند کے بعد بخارا دوسرا قدیم شہر ہے جہاں بہت سی آرکیٹیکچرل عمارات شاندار تعمیراتی انفرادیت لیے ہوئی ہیں۔ تاریخ کے اوراق میںبخاراایرانی تمدن و تہذیب کے اہم مراکز میں سے ایک رہا ہے۔ اس کا آرکیٹیکچر اور آثار قدیمہ کے مقامات فارسی تاریخ و فن کے ستونوں میں سے ایک مانے جاتے ہیں۔وسیع پیمانے پر تعمیراتی سرگرمیوں میںمختلف تعمیراتی تکنیکیں اپنائی گئی ہیں۔ ابتدائی تعمیراتی مواد میں اینٹوں کو آرائشی مواد کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔اس پر کاشی گری و خطاطی سے اینٹوں کو سجایا جاتا تھا، جس میں ماہر خطاط ور مصور عربی، کوفی اورنسخ رسم الخط سے آیات و ابیات لکھتے اور پودوں، پھولوں، بیل بوٹوں کی مصوری سے دیواروں کو سجاتے تھے۔
جیومیٹری پیٹرن (girikh) دسویں صدی سے آرائشی مصوری کے طور پر متعارف ہوا۔ یہ عربی اصطلاح جیومیٹری نمونوں اور اپنے پیٹرن کے بنیادی عنصر ،دونوں کی مہارت کے لیے استعمال ہوتی ہے، جس سے اس وقت کی ریاضی کے عروج کا پتہ چلتا ہے۔ خاص طور پرجیومیٹری کا مطالعہ وسیع پیمانے پر فن تعمیر میں استعمال کیا گیا تھا۔یہ تعمیراتی پیٹرن یادگاروں میں اب بھی موجود ہے۔ اسی پیٹرن میں جدید تعمیراتی ڈیزائن کی شمولیت سے مخلوط طرزِ تعمیر بھی پروان چڑھ رہا ہے۔بخارا ایک زندہ سانس لیتا شہر اور تاریخ و آرکیالوجی سے دلچسپی رکھنے والے طالب علموں کے لیے جیتی جاگتی یونیورسٹی کا درجہ رکھتا ہے۔اس وقت جدید بخارا تاریخی یادگاروں اور جدید عمارتوں کے کولاج کی طرح نظر آتا ہے،جس میں عظمتِ رفتہ سے پیار کرنے والے لوگوں اور جدت کے ترازو میں ڈھل جانے والے ازبکوں کے لیے دلچسپی کے کئی سامان موجود ہیں۔
تاشقند
تاشقند اس عظیم شاہراہِ ریشم کے چوراہے پر واقع ہے، جو چین کو یورپ سے منسلک کرتی ہے۔اس اہم جغرافیائی مقام پر ہونے کے باعث قدیم ادوار سے یہ مختلف ملکوں کے مابین تجارت و رابطے کا رستہ رہاہے۔یہاں آپ کو کارواں سرائے،مسافرخانے اور مزارات قدیم تعمیراتی شاہکاروں کی صورت میں نظر آئیں گے،جب کہ جدید ترین ہوٹلز اسی جدید رنگ میں رنگے ہیں۔آج کے آرکیٹیکچرز تاشقند شہر کو جدید بنانے کے لئے کام کر رہے ہیں۔شہر میں کئی بین الاقوامی معیار کے ہوٹلز ہیں۔ اس کے علاوہ باغات اور وسیع سڑکیں شہرکی خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہیں۔زیادہ تر ازبک ماہرین تعمیرات اپنے آبا و اجداد کے تعمیراتی ورثے کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔قدیم عمارات کی تزئین نو کا کام بھی جاری رہتا ہے،ساتھ ہی جدید ڈیزائن کے مطابق عمارات بھی بنائی جاتی ہیں، ان کے ڈیزائن میں تعمیرات کے ثقافتی رنگوں کو زیادہ ابھارا جاتا ہے تاکہ اجنبیت کا احسا س نہ ہو۔