کسی بھی گھر کی تعمیر میں بنیادی چیزوں میں پانی کی فراہمی اور سیوریج کا نظام شامل ہوتا ہے، ورنہ اس گھر میں رہنا مشکل ہی نہیں بلکہ بعض اوقات ناممکن ہو جاتاہے۔ چاہے ہم کوئی گھر خریدرہے ہوں یا کرائے پر لے رہے ہوں یا پھر کوئی اپارٹمنٹ بُک کروارہے ہوں، ہمارا پہلا سوال وہاں پانی کی دستیابی کے بارے میں ہی ہوتا ہے۔ اس وقت کراچی میں پانی کا بحران ہے، بیشتر علاقوں میں کئی روز پانی نہیں آتا جبکہ دستیاب پانی کی وافر مقدار ٹینکر مافیا کے حصے میں جارہی ہے۔ اس مسئلےکے علاوہ شہر میں جگہ جگہ کچرے اور گندگی کے ڈھیر نظرآتے ہیں۔ صوبائی اور شہری حکومت کی جانب سے آئے دن اس حوالے سے بڑے بڑے بیانات میڈیا کی زینت ضرور بنتے ہیں، لیکن حقیقتاً اور عملاً اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا جارہا۔ کراچی شہر کا ہر علاقہ چاہے وہ رہائشی ہو یا تجارتی ، صنعتی ہو یا تفریحی، جابجا گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔
حکومتی تخمینہ کے مطابق، کراچی تقریباً پانچ سو ملین گیلن گندا پانی روزانہ کے حساب سے پیدا کرتا ہے۔ تقریباً پانچواں حصہ صنعتوں سے جبکہ باقی گھریلو یا بلدیاتی نکاس سے آتا ہے۔ سیوریج کا یہ تمام آلودہ پانی اور صنعتوں سے نکلنے والا کیمیکل روزانہ کی بنیادپر باقاعدگی سے سمندر میں جارہا ہے۔
تحفظ ماحولیات کے صوبائی ادارے سندھ انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) کے اعدادوشمار کے مطابق بہت سا فضلہ مویشیوں کی بہت بڑی مقامی کالونی سے بھی آتا ہے، جس میں دس لاکھ کے قریب جانور ہیں۔ یہاں پیدا ہونے والا فضلہ بھی سمندر میں ہی ڈال دیا جاتا ہے۔
کراچی شہر کے یہ سارے مسائل ہم نےحلقہ247سے پاکستا ن تحریک انصاف کے نامزد امیداوار آفتاب صدیقی کے سامنے رکھے۔ انھوں نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کی صورتحال کچر ا کنڈی کی سی ہے، اسے گندگی کا ڈھیر بنادیا گیا ہے۔ عام انتخابات میں کراچی کے عوام نے عمران خان پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے اور یہ شہر اب پاکستان تحریک انصاف کا گڑھ بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان صاحب نے گذشتہ ماہ گورنر ہائوس میں حکومتِ سندھ کو کراچی کی صفائی بہتر بنانے کیلئے دو ماہ کا وقت دیا ہے۔ بصورت دیگر وفاقی حکومت شہر کی صفائی کے لیے اپنا کردار ادا کرے گی۔
آفتا ب صدیقی چونکہ ایک پریکٹیکل انسان ہیں، اسی لیے وہ خود پہل کرنے پر یقین رکھتے ہیں ، ان کا کہنا تھا، ’’صرف حکومت کوہی نہیں بلکہ ہمیں خود بھی اس ضمن میں اقدامات کرنے چاہئیں، حلقہ247میں پہلے ہی کام کا آغاز کرچکا ہوں، جس میں مجھے دوستوں اور مخیرحضرات کی مدد اور تعاون بھی حاصل ہے۔ ہم نے اپنے حلقے سے وہ کچرا بھی اٹھوا یا ہے، جو مہینوں سے پڑا ہوا تھا۔ گندگی وغلاظت کے بڑے بڑے ڈھیر صاف کروائے ہیں۔ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ والے اپنی ڈیوٹی صحیح طریقے سے انجام نہیں دے رہے۔ ہم چونکہ سندھ میں حزب اختلاف میں ہیں اسی لیے ہم ان سے باقاعدہ گفت و شنید کریں گے کہ آخر اس مسئلے کی اصل وجہ کیا ہے؟ کنٹریکٹ یہ کہتا ہے کہ آپ کو کراچی شہر صاف رکھنا ہے، تو پھر کراچی شہر صاف کیوں نہیں کیا جارہا؟ شہر کو صاف کرنے میں کوئی زیادہ خرچہ بھی نہیں ہے۔ صرف نیت صاف کرنے کی ضروت ہے ، شہر خود ہی صاف ہو جائے گا۔ چند دن پہلے مجھے پیغام آیا کہ ایم جناح روڈ پر میمن مسجد کے پیچھے سیوریج کی لائنیں ٹوٹی ہوئی ہیں اور بہت بری صورتحال ہے، آنے جانے کا راستہ گندگی سے بھرا ہوا ہے، جس سے نمازی حضرات کو تکلیف ہوتی ہے۔ میں نے اپنی ٹیم بھیجی، جس نے دو دن میں دستیاب وسائل سے اس علاقے کو صاف کرکے آمد و رفت کے قابل بنادیا‘‘۔
آفتاب صدیقی نے صوبائی اور شہری حکومت پر زور دیتے ہوئے کہا، ’’اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ وسائل نہیں ہیں تو وسائل پیدا کیے جائیں، نہیں تو اپنی نیت صاف رکھیں ، کام کرنے کا جذبہ رکھیں اور نجی شعبے کو اس میں شامل کریں۔ سندھ حکومت نے کچرا اُٹھانے کے لیے چین کی کمپنی کو ہائر کیا اور 30 ڈالر فی ٹن کے حساب سے اس کو ادائیگی کی جاتی ہے۔ اب ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ کچرے کا وزن کرنے کے لیے یہاں کوئی ــــ"Weigh Bridge"ـتوـ لگا نہیں ہے، پھر وزن کا حساب کیسے لگایا جارہا ہے؟ اس کے علاوہ ڈمپنگ اسٹیشن کہاں ہیں؟کچرا کہاں پھینکا جائے؟ مسئلہ یہ ہے کہ ہر سطح پر منصوبہ بندی کا فقدان ہے اور نئی حکومت تمام تر مسئلوں کی منصوبہ بندی میں مسلسل جانفشانی سے کام کررہی ہے‘‘۔
کسی زمانے میں کراچی میں پانی سے گلیاں اور سڑکیں دھلتی تھیں، پھر بعد میں روزانہ صبح جھاڑو لگنے لگی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس عمل میں بہتری آنے کے بجائے ابتری دیکھی جاسکتی ہے، شہر کے صرف چند علاقے ہی ایسے ہیں، جہاں جھاڑو لگائی جاتی ہے اور وہ بھی شازو نادر۔ اس صورتحال پر آفتا ب صدیقی گویا ہوئے، ’’اتنا بڑا شہر روزانہ جھاڑو سے صاف نہیں ہو سکتاہے۔ ساری دنیا میں مشینوں سے صفائی ہوتی ہے۔ دراصل اس میں ہمارا بھی قصور ہے ، ہم اپنے گھر کے باہر گلی میں یا دکانوں کے سامنے کچرا پھینک دیتے ہیں۔ ہمارا سوک سینس صفر ہوچکا ہے، سونے پر سہاگہ حکومت نے کارکردگی دکھانا چھوڑ دی ہے۔ جب آپ کے ادارے بربادہو چکے ہوں تو پھر شہر کا یہ حال تو ہوگا‘‘۔
اس گمبھیرصورتحال کے حل کے سلسلے میں آفتا ب صدیقی کا کہنا تھا، ’’ کراچی کے شہریوں کوپینے کا صاف پانی، بجلی، سیوریج کا نظام اور صفائی چاہیے۔ ہم یہ تونہیں کہہ رہے کہ اس شہر کو آپ سوئٹزر لینڈیانیویارک بنا دیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ اداروں کو پیشہ ورانہ طریقے سے منظم کرکے چلایا جائے۔ ان کے ایم ڈیز اور سی ای اوز پروفیشنل اور غیر سیاسی ہوں۔ وہ کرپٹ نہ ہوں، ٹیکنوکریسی میں مہارت رکھتے ہوں اور اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر نظام میں بہتری لاسکیں۔ 22ملین کی آبادی کو16ملین کے وسائل ملیں گے تو یہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا۔ اس ضمن میں بھی انصاف سے کام لینا ہوگا ‘‘۔
مسائل اور اداروں کی نااہلی اپنی جگہ، مگر نئی حکومت نئے پاکستان میں کیا کچھ نیا کرنے جارہی ہے ، اس ضمن میں آفتاب صدیقی نے اپنی پارٹی کا لائحہ عمل بتاتے ہوئے کہا،’’ موجودہ اداروں کو ٹھیک کرنے کے ساتھ ساتھ کورنگی انڈسٹریل ایریا میں سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ لگایا جائے گا، جہاں سے 200ملین گیلن یومیہ پانی انڈسٹریل ایریا کو فراہم کیا جائے گا۔ اس پلانٹ کے آپریشنل ہونے کے بعد 40سے50ملین گیلن یومیہ پینے کا پانی انڈسٹریل ایریا کے بجائے رہائشی علاقوں کو دیا جائے گا۔ ا س وقت تقریباً340ملین گیلن سیوریج کا پانی یومیہ بنیادوں پر سمند ر میں پھینکا جارہا ہے، جس سے سمندری آلودگی بڑھ رہی ہے۔ سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے سے سمندری آلودگی کم کرنے میں مدد ملے گی‘‘۔
پانی کی کمی اور اس سےوابستہ مسائل پر بھی آفتاب صدیقی نے کھل کر بات کی اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ پانی ہے اور وہ اپنی ذاتی حیثیت میں اپنے حلقہ کے لوگوں کو یومیہ 20 ہزار گیلن پانی فراہم کررہے ہیں۔مزیدیہ کہ ہم نے وفاقی حکومت کو اپنے حلقہ کیلئے10ملین گیلن یومیہ پانی کی فراہمی کا ڈیسیلینیشن پلانٹ لگانے کی تجویز دی ہے، جس کیلئے ہم نجی شعبے کو بھی مدعو کریں گے۔ شہرمیں پانی کی قلت پر قابو پانے کیلئے کے پی ٹی اور پورٹ قاسم پر5ملین گیلن یومیہ پانی کی فراہمی کیلئے بھی ڈیسلیشن پلانٹ لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے‘‘۔
آخرمیں آفتاب صدیقی نے پر امید انداز میں کہا، ’’مسائل کی تشخیص کی جارہی ہے، جیسے ہی تشخیص مکمل ہو جائے گی تو پھر اس کا علاج بھی شروع ہوجائے گا۔ کرپشن کو ختم کرنا اورکرپٹ اداروں کو ٹھیک کرنا وزیر اعظم عمران خان صاحب کا وژن ہے، ایسا کرنے کے بعد ہم پاکستانی قوم کی بہتر انداز میں خدمت کرسکیں گے‘‘۔