• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لندن والے کہتے ہیں جس نے لندن کا تھیٹر نہیں دیکھا وہ لندن میں آیا ہی نہیں۔ یہ محاورہ میں نے 1982میں سنا جب میں لندن اسکول آف براڈکاسٹنگ میں تربیت حاصل کر رہا تھا۔ میرے گروپ میں لیڈز ریڈیو کی اناوٴنسر زینب بداوی بھی تھی جو آج کل بی بی سی ٹیلی وژن کی بڑی اینکر ہے اور Hard Talkجیسے پروگرام کرتی ہے۔ ایک اور ساتھی لندن کی مارٹینی تھی جس نے ایک دن مجھ سے پوچھا”تم نے لندن میں اب تک کتنے ڈرامے دیکھے ہیں“۔ میں نے کہا ”ایک بھی نہیں“۔ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور کہا” اور تم کہتے ہو کہ تم 1978ء سے لندن آرہے ہو؟“ اس نے کہا ” تم پہلی فرصت میں لیسٹر اسکوائر جاؤ اور وہاں کسی بھی تھیٹر کا ٹکٹ خریدو اور ڈرامہ دیکھو پھر تمہیں پتہ چلے گا کہ لندن کیا ہے“۔ اس شام تو نہیں لیکن اگلے دن میں نے سینٹ مارٹن تھیٹر جاکر The mouse Trapڈرامے کا ٹکٹ خرید لیا۔
اس وقت ’ماؤس ٹریپ‘ ڈرامے کو چلتے ہوئے30سال ہوئے تھے۔ یہ ڈرامہ مشہور جاسوسی ناول نگار’اگاتھا کرسٹی‘ کے ناول پر مبنی تھا۔ یہ جاسوسی ڈرامہ اتنا پسند کیا گیا کہ اس کے ہر شو کے ٹکٹ ایڈوانس میں بک جاتے تھے۔ لندن میں60کے قریب تھیٹر ہیں جن میں ہر شام شو ہوتے ہیں۔ کئی ڈرامے دس پندرہ سال تک روزانہ چل کر اترتے ہیں۔ عام طور پر ڈراموں کی بکنگ ایڈوانس ہوتی ہے جو ٹکٹ بچ جاتے ہیں وہ لیسٹر اسکوائر پر بنے ہوئے کھوکھوں میں آدھی قیمت پر بکنے کے لئے آجاتے ہیں اور یہاں لندن آنے والے امریکی اور یورپی سیاحوں کی قطاریں لگی ہوتی ہیں لیکن ”ماوٴس ٹریپ“ کا ریکارڈ ہے کہ اب تک اس کا ایک بھی ٹکٹ لیسٹر اسکوائر میں نہیں آیا۔ وہ کہتے ہیں جس دن ہمارے ڈرامے کی فل بکنگ نہیں ہوئی ہم اسے اتار دیں گے لیکن 60سال ہوگئے ہیں اور ماوٴس ٹریپ باقاعدگی سے ہر روز پیش ہو رہا ہے۔ اداکاروں کی نسلیں بدل گئی ہیں۔ اس کو دیکھنے والے بھی بوڑھے ہوگئے ہیں لیکن یہ ڈرامہ جاری ہے۔ ہر رات8بجے سے ایک شو اور اتوارکو3بجے سے ایک میٹنی شو اضافی۔ یہ ڈرامہ 1952ء سے مسلسل ہو رہا ہے، اب تک اس کے 25ہزار شو ہو چکے ہیں۔ میں نے یہ ڈرامہ 3بار دیکھا ہے۔ ایک بار اکیلے ، دوسری بار اپنی بیگم کے ساتھ اور تیسری مرتبہ ایک دوست کے ساتھ جو میرے ساتھ لندن کی سیر پر آئے تھے۔لندن میں ہر شام ڈرامے اور آپرا پیش ہوتے ہیں۔ بارش ہو ، برف باری ہو، آندھی ہو یا طوفان ، شو عین وقت پر شروع ہوجاتا ہے۔8بجے تھیٹر کے باہر کے دروازے بند ہوجاتے ہیں اور 8بج کر5منٹ پر ہال کے دروازے بھی بند۔ آپ کے پاس ٹکٹ ہو بھی لیکن آپ کو اندر جانے نہیں دیا جائے گا کیونکہ اب آپ لوگوں کی توجہ میں خلل ڈالیں گے۔ تھیٹر ہال میں مائیکرو فون نہیں ہوتا۔ دیواروں اور چھت کا نظام ایسا بنایا گیا ہے کہ اسٹیج پر بولنے والا ہر مکالمہ آپ کو صاف سنائی دیتا ہے۔ ہال کی اگلی 4قطاروں میں ٹکٹ سستے ، اس کے بعد کی4قطاروں میں مہنگے اور اس کے بعدآخر کی نشستوں کے ٹکٹ پھر سستے۔ اگلی نشستوں سے اداکار بہت صاف نظر آتے ہیں۔ درمیانی نشستوں سے فاصلہ آرٹ کو تھوڑا سا آرٹی فشل یعنی حسین بناتا ہے اور آخری نشستوں کی دوری پھر دوری ہوتی ہے۔ لندن کے تھیٹر کو دیکھئے تو اس کلچر کا تہہ در تہہ حسن آپ کو مسحور کرتا چلائے گا۔ شکسپیئر کو کالج کے زمانے میں خوب پڑھا تھا لیکن جب اوپن تھیٹر میں ”میکبیتھ‘ دیکھا تو اس کے ایک ایک ڈائیلاگ نے مشاعرے کا سماں باندھ دیا۔
انگلینڈ کی ملکہ الزبتھ کی تاج پوشی کو بھی پورے60سال ہوگئے ہیں اور 1952ء ہی میں ”ماوٴس ٹریپ“ ڈرامہ پیش ہوا تھا۔ اس عرصے میں کتنے واقعات ، کتنے حادثات اور کتنی تبدیلیاں ہوئیں لیکن ملکہ الزبتھ مسلسل تخت پر جلوہ افروز رہیں۔ ملکہ باقاعدگی سے تھیٹر دیکھنے بھی جاتی تھیں اور لارڈز میں کرکٹ میچ کا افتتاح بھی کرتی تھیں اور ومبلڈن کا فائنل بھی دیکھنے جاتی تھیں۔جب عبدالحفیظ کاردار پہلی بار پاکستان کرکٹ ٹیم لے کر گئے تو اس ٹیم کا تعارف ملکہ سے گراوٴنڈ میں ہوا تھا۔ بعد میں جاوید برکی کی کپتانی کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔میں نے لندن شہر کو 35سال میں کئی روپ بدلتے دیکھا ہے لیکن اس کی روایات ہر رنگ میں زندگی رہی ہیں۔ زمانہ بدلنے سے اس کی کتابوں کی دکانوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ اس کے اسٹیڈیا آباد رہے ہیں۔ لائبریریاں اور میوزیم بھرے رہے ہیں اور تھیٹر آباد رہے ہیں۔ اس کی ثقافتی زندگی اس شہر کو شہر امن بناتی ہے۔ میں نے آئرلینڈ کی تحریک کے دھماکوں کا دور بھی دیکھا ہے لیکن لندن ہمیشہ پُرامن رہا۔ بی بی سی ریڈیو میں ہم ایسے ہی منہ اٹھائے چلے جاتے تھے۔ اطہر بھائی کمرے ہی میں چائے منگواتے اور شفیع نقی جامعی کینٹین میں لے جاکر کھانا کھلاتے تھے بعد میں بی بی سی کو بھی سیکورٹی نے جکڑ لیا لیکن لندن شہر پھر بھی امن کا شہر ہی رہا۔لندن کے امن کی فضا کا سلسلہ اب میں کراچی کے ساتھ جوڑتا ہوں۔ پچھلے دنوں کراچی آرٹس کونسل جانے کا اتفاق ہوا تو دیکھا کہ عالمی اردو کانفرنس کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ میں ڈاکٹر ظفر سعید سیفی کے ساتھ گیا تھا جن کی آرٹس کونسل کے صدر محمد احمد شاہ کے ساتھ میٹنگ تھی۔ آرٹس کونسل اس عالمی اردو کانفرنس کے موقع پر عزیز حامد مدنی کی کلیات شائع کررہی ہے۔اس کلیات میں عزیز حامد مدنی کا غیر مطبوعہ مجموعہ کلام” گِل آدم“ بھی شامل ہے۔ مدنی صاحب نے آخری وقت میں ڈاکٹر سیفی صاحب کو جو ان کے بھتیجے اور ان سے قریب ترین تھے یہ مجموعہ کلام دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کو 20سال بعد شائع کرانا۔ جانے اس میں کوئی رمز تھی یا وہ سمجھتے تھے کہ20سال بعد کے عہد میں ان کا کلام وقت کی آواز سمجھا جائے گا۔آرٹس کونسل کی عمارت میں مجھے آتے 50سال کا عرصہ ہوگیا۔ یہاں مشاعرے ، تقریبات ، نمائشیں دیکھیں لیکن اس دن اس عمارت میں دن کے وقت بھی بڑی گہماگہمی ، تبدیلی اور زندگی نظر آئی۔ محمد احمد شاہ ایک متحرک شخصیت ہیں، جن کا وژن اس ادارے کے عین مطابق ہے۔ ان کے3سال کے دور میں آرٹس کونسل نے بہت ترقی کی ہے۔ نئی عمارت کے ساتھ ثقافتی سرگرمیوں نے ایک اچھی فضا پیدا کی ہے۔ اب ایک نیا کمپلیکس تعمیر ہورہا ہے جس میں ہال، اسٹوڈیوز وغیرہ تعمیر ہوں گے۔ احمد شاہ نے کراچی میں سالانہ عالمی اردو کانفرنس کی روایت ڈالی ہے۔ اس مرتبہ بھی یہ کانفرنس دسمبر کے آغاز میں ہورہی ہے جس میں ہندوستان سمیت دنیا کے کئی ملکوں سے نامور ادیب اور شاعر شرکت کریں گے۔ آرٹس کونسل کی عمارت میں گھومتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ کیا یہ ادارہ کراچی کی روایات میں ثقافتی رنگارنگی کے ذریعے امن کا ایک پودا لگاسکتا ہے۔ کوئی ایسی دلچسپی جس میں زندگی ہو ، حُسن ہو ، محبت ہو جو اس ادارے کی راویت بن جائے اور اس ادارے کو اس شہر کے لئے امن و سکون کا گوشہ بنا دے۔آرٹس کونسل میں روزانہ ایک ایسا پروگرام ہو جس کو دیکھنے کے لئے لوگ باقاعدگی سے آئیں اور یہ پروگرام کراچی کی روایت بن جائے۔
تازہ ترین