• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں زبوں حال معیشت کی بحالی کے لئے تحریک انصاف کی حکومت آئی ایم ایف کے ناپسندیدہ قرضے کے حصول سمیت بلاشبہ متعدد ضروری اقدامات کر رہی ہے جن کے مثبت نتائج برآمد ہونے کی قوی امید ہے لیکن ان کوششوں کے بار آور ہونے میں کئی منفی عوامل بھی حائل ہیں جن کے اثرات عملی طور پر ہر سطح پر محسوس کئے جا رہے ہیں، ان پر قابوپانے کے لئے کافی وقت درکار ہو گا۔ ان عوامل میں دوسری باتوں کے علاوہ بڑھتی ہوئی سیاسی محاذ آرائی، تجارتی خسارہ، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر اور زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی، اسٹاک مارکیٹ میں شدید مندی، ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے تحفظات اور حکومت کی جانب سے گیس کے بعد بجلی کے نرخوں میں متوقع اضافہ سرفہرست ہیں۔ پیر کو پاکستان اسٹاک مارکیٹ جو کافی عرصہ سے اتار چڑھائو کا شکار ہے، ایک بار پھر کریش کر گئی جس سے انڈیکس 36768کی کم ترین سطح پر آگیا اور سرمایہ کاروں کے سوا کھرب روپے ڈوب گئے۔ پونے تین سو کے قریب کمپنیوں کے حصص کی قیمتیں کم ہوئیں۔ ایک ہی روز میں 133لاکھ ڈالر کا آئوٹ فلو ہوا اور ڈالر تقریباً ڈیڑھ روپیہ مزید مہنگا ہو گیا۔ ادھر حکومت نے قومی اقتصادی کونسل میں بجلی پونے چار روپے مہنگی کرنے کی سمری پیش کی ہے، منظوری کی صورت میں نئے نرخوں پر2016 سے عملدرآمد ہو گا اور صارفین سے تقریباً 4کھرب روپے ماہانہ وصول کئے جائیں گے۔ سمری کے مطابق زرعی صارفین کے لئے اضافہ نہیں کیا جائے گا اور صنعتی شعبے کے لئے بھی 3روپے فی یونٹ سپورٹ پیکیج جاری رہے گا جو برآمدات میں اضافے کے لئے ایک مستحسن اقدام ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ گھریلو صارفین پر بوجھ بڑھ جائے گا۔ پاور سیکٹر میں گردشی قرضوں کا حجم 12کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے جو بجلی کے نرخوں میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔ ملکی معیشت کی بدحالی میں کرپشن اور منی لانڈرنگ کا حصہ سب سے زیادہ ہے جسے روکنے کیلئے حکومت سرتوڑ کوششیں کر رہی ہے اور اچھی بات یہ ہے کہ عظیم ہمسایہ چین نے جو سی پیک منصوبوں میں50 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کر رہا ہے، نہ صرف کرپشن کے خاتمے میں پاکستان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے بلکہ آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول میں بھی مدد دینے کا یقین دلایا ہے۔ بیجنگ میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے سی پیک کو پاکستان کی معاشی خرابی کا ذمہ دار قرار دینے کے امریکی دعوے کو غلط قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان کا معاشی بحران چینی قرضے کی جہ سے نہیں کیونکہ یہ قرضہ اتنا زیادہ نہیں اور آئی ایم کے قرضے سے پاک چین تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ چین ہر مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے اور موجودہ معاشی بحران میں بھی اس کی جانب سے مثبت پیغام پاک چین دوستی کے لازوال ہونے کی علامت ہے۔ توقع ہے کہ دوست ممالک کی امداد اور بین الاقوامی مالی اداروں کی معاونت سے پاکستان پر معاشی ابتری کا یہ دور زیادہ عرصہ جاری نہیں رہے گا۔ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کا اس حوالے سے یہ کہنا حوصلہ افزا ہے کہ مشکلات کا یہ عرصہ ڈیڑھ دو سال میں ختم ہو جائیگا اور 5سال بعد لوگ پوچھیں گے کہ پاکستان کی معیشت اتنی بہتر کیسے ہوئی جبکہ وزیر تعلیم شفقت محمود کو توقع ہے کہ معاشی حالات ٹھیک کرنے کے لئے صرف دو تین ماہ لگیں گے۔ اس پس منظر میں معاشی تجزیہ کار پرامید ہیں کہ ملک جلد اقتصادی مشکلات سے باہر آجائے گا تاہم اس کے لئے قوم کو چھوٹی بڑی قربانیاں ضرور دینا ہوں گی، جس کے لئے اسے تیار رہنا چاہئے۔ حکومت کو بھی مشکل فیصلے کرنے میں عام آدمی کے مفادات کا خاص خیال رکھنا ہو گا۔ عوام پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، حکومتی اقدامات کے نتیجے میں مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا جس سے غریب اور متوسط طبقے میں بے چینی پھیل سکتی ہے اور انہیں مطمئن کرنے کے لئے یہ دلیل کافی نہیں ہو گی کہ معیشت کا بیڑا تو پچھلی حکومت نے غرق کیا۔ پچھلی حکومت نے جو کچھ کیا عوام عام انتخابات میں اس پر اپنا ردعمل ظاہر کر چکے ہیں، اب مستقبل کی بات ہونی چاہئے اور اسی کے بارے میں سوچنا چاہئے۔

تازہ ترین